26ستمبر کا دن تھا۔ آفتاب کے غروب ہونے میں ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں ننگے پاؤں گھر کے لان میں چہل قدمی کرنے لگ گیا۔ دروازے کے پاس ایک پودے کے گرد مٹی کو پاؤں کے ساتھ ہموار کرنے لگا تو بجلی کی ایک لٹکتی ننگی تار کے ساتھ جونہی میرا داہنا ہاتھ لگا تو مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ میرے انگوٹھے کے اوپر والے حصے نے ہتھیلی کی جانب تار کو ٹچ کیا تھا۔ بجلی کے ماہرین کہتے ہیں کہ ہاتھ کا بیرونی حصہ تار کو لگ جائے ‘تو بجلی کا کرنٹ ایک جھٹکا دیتا ہے اور بندہ گِر جاتا ہے‘ جسم کے باقی حصے کو بھی کرنٹ لگے تو ایسا ہی ہوتا ہے‘ لیکن ہاتھ کی ہتھیلی کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں کرنٹ لگے تو ہاتھ بندہو جاتا ہے‘ یعنی بجلی کی تار کو پکڑ لیتا ہے۔ ایسی صورت میں جان یوں چھوٹتی ہے کہ بندہ گِر جاتا ہے۔ گرنے کی وجہ سے تار چھوٹ جاتی ہے اور یوں زندگی ہو تو بندہ بچ جاتا ہے۔ میرے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ تار کے ساتھ جونہی ہاتھ ٹچ ہوا۔ تو شہادت والی انگلی کے پور نے تار کو پکڑ لیا۔ اب بچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ میں زمین پر گر جاتا ‘مگر کیسے گرتا کہ میری کمر دیوار کے ساتھ لگ گئی؛ چنانچہ میں ایک بے جان بُت کی طرح ہو کر رہ گیا۔ پاؤں ننگے تھے اور گیلی مَٹی پر تھے۔ اب بجلی کا کرنٹ شاں شاں کرتے ہوئے میرے جسم میں ایک سرکل بنا چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ ایسی حالت کتنے سیکنڈ تک رہی۔ میرا ذہن کام کر رہا تھا۔ میں نے آواز دی‘ مگر خارجی دنیا میں اس آواز کا وجود نہیں ہوتا۔ اب میں نے سوچا کہ میرا آخری وقت آ گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ سوچ آئی کہ نہیں۔ ابھی میری زندگی کا ٹائم باقی محسوس ہوتا ہے۔ ساتھ ہی محسوس ہوا کہ میرے جسم نے ا وپر اور نیچے سے سکڑنا شروع کر دیا ہے‘ پھر محسوس ہوا کہ شاید مجھے آگ لگ جائے گی۔ میری لاش کوئلے کی صورت میں ہو جائے گی اور ساتھ ہی میں آزاد ہو چکا تھا۔ میں گرا بھی نہیں تھا۔ گویا میرے مولا کریم ‘جو میرے خالق ہیں۔ وہ مجھے بتلا رہے تھے کہ میرے بندے! یہ تو نے کیا سوچا؟ دیکھ لے بجلی نے ایسا زور لگا لیا۔ تمام ظاہری اسباب تیری موت کو یقینی بنا رہے تھے‘ مگر میں نے بجلی کو حکم دیا وہ تجھ سے الگ ہو گئی‘ تو اپنی جگہ پر اسی طرح موجود ہے۔
میں آگے کو بڑھا اور لان پر دراز ہو گیا۔ گھاس پر لیٹا تھا کہ گھر والے باہر نکلے۔ میرا عجب حال تھا۔ نیم بیہوشی تھی۔ منہ میں پانی ڈالا گیا تو باہر نکل گیا۔ جلدی سے قریبی ہسپتال میں لے جایا گیا‘ جہاں 24گھنٹے مجھے ''آئی سی یو‘‘ میں رکھا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے۔ حمزہ صاحب کا زندہ بچنا اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے۔ انگوٹھا اس قدر جل چکا تھا کہ گوشت جل کر نیچے ہڈی تک پہنچ گیا تھا۔ شہادت کی انگلی کا پور جل چکا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیس سے تیس سیکنڈ تک میں بجلی کے نرغے میں رہا۔ بجلی کی رفتار ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلو میٹر ہے۔ میں کہتا ہوں؛ اگر دس سیکنڈ بھی میرے جسم میں بجلی دوڑتی رہی‘ تو تب بھی اس کا سفر 30لاکھ کلو میٹر بنتا ہے۔ جی ہاں! بجلی ایک روشنی ہے۔ یہ ایک مادی چیز ہے۔ اس نے میرے اربوں خلیات میں سے ہر خلیے میں اپنی کرنٹ کی قوت کا اظہار کیا۔ اب سوچتا ہوں کہ میرے جسم میں جو روح ہے‘ وہ تو اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔ وہ اس قدر لطیف ترین چیز ہے کہ اس کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اس روح کا بجلی کیا بگاڑ سکتی ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ بگاڑے گی تو جسم کو ہی نقصان دے گی اور جب جسم کا نقصان آخری درجے تک پہنچ جائے گا‘ تو روح جسم کو چھوڑ جائے گی اور وہ بھی جسم کو اپنی مرضی سے نہیں چھوڑے گی‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ٹائم پر اس وقت جسم کو چھوڑے گی‘ جب اسے لینے و الے آئیں گے۔
مولا کریم فرماتے ہیں ''قسم ہے! ان فرشتوں کی جو ڈوب کر سختی سے جان کھینچ لینے والے ہیں‘‘ (النّازعات:1)۔ حضورؐ فرماتے ہیں '' مؤمن شخص (کا معاملہ الگ ہے) کہ وہ جب دنیا سے جانے والا ہوتا ہے‘ تو موت کا فرشتہ اس کے سر کے پاس آ کر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے پاکیزہ روح! اللہ تعالیٰ کی بخشش اور خوشنودی کی طرف نکل آ؛چنانچہ وہ جان اس طرح نکلتی ہے ‘جس طرح مشکیزے سے پانی کا قطرہ نکلتا ہے‘‘ (مسند احمد: صحیح)۔ جی ہاں! اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نور سے پیدا فرمایا۔ یہ خصوصی نور ہے‘ جس کی رفتار کا عالم یہ ہے کہ وہ ساتویں آسمان سے زمین پر ایک سیکنڈ کے اربوں کھربوں ٹائم سے بھی کم وقت میں زمین پر آ جاتے ہیں۔ وہ مومن کے پاس بیٹھتے ہی ہیں ‘تو پورے جسم پر ان کا قبضہ ہوتا ہے اور روح ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ جنت سے ریشم اور کستوری کی خوشبو والا لباس لے کر آتے ہیں۔ پاکیزہ روح کو فوراً اس لباس کا پہناوا دیتے ہیں اور ساتویں آسمان تک اسے اس عزت اور پروٹوکول سے لے کر جاتے ہیں کہ فرشتے اس روح کو ایک دوسرے کے ہاتھوں میں رہنے نہیں دیتے۔ کیسا مبارک اور معزز سفر ہے۔ یہ جسے ایک پاکیزہ روح طے کرتی ہے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنا ٹائم آنے سے پہلے ہم اپنی روح کو پاکیزہ اور خوشبودار بنانے کی کوشش کریں۔
بجلی‘ ایک انسان کی ایجاد ہے۔ وہ موجد ہے۔ خالق نہیں ہے۔ خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے‘ جس نے ایک نہیں بے شمار کائناتیں ''کُن‘‘ کہہ کر بنا ڈالیں۔ انسان تو بنے بنائے 92عناصر سے چیزوں کو دریافت کرتا ہے۔ بناتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ موجد جن چیزوں کو بناتا یا ایجاد کرتا ہے۔ ان سے فا ئدے کے ساتھ ساتھ نقصان بھی اٹھاتا ہے۔ اپنی بنائی ہوئی چیزوں سے ہی مرتا ہے۔ بجلی سے ہیٹر کی صورت میں گرمی اور اے سی کی صورت میں ٹھنڈ حاصل کرتا ہے‘ تو اسی کے کرنٹ سے جلتا اور مرتا بھی ہے۔ گاڑیاں اور جہاز بناتا ہے تو سفر کے فائدوں کے ساتھ ساتھ کار کے حادثے میں جلتا اور مرتا بھی ہے۔ بحری جہاز میں ڈوبتا ہے‘ تو ہوائی جہاز میں فضا ہی میں اپنا وجود بکھیر بیٹھتا ہے۔ یہ جس پلنگ پر آرام دِہ راتیں سوتا ہے‘ اسی پر قیامت تک کے لئے موت کے ساتھ ہمکنار بھی ہوتا ہے۔ یہ نادان اپنی بنائی ہوئی چیزوں میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ فرعون بن جاتا ہے۔ کمزوروں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالتا ہے۔ رحم و کرم اور عفو و درگزر سے محروم ہو جاتا ہے۔ رشتے ناتے توڑ دیتا ہے۔ یہ بے ادب ا ور گستاخ بن جاتا ہے۔ بندوں کی بنائی ہوئی چیزوں پر قبضے کی خاطر یہ درندہ انسانیت کو نوچ ڈالتا ہے اور پھر آخر کار لکڑی‘ پتھر‘ لوہے اور پلاسٹک وغیرہ کی کسی چیز سے مَر جاتا ہے۔
سبحان اللہ! میرا خالق تو وہ ہے کہ جس نے جو کچھ بنایا ہے اور سبھی کچھ صرف اور صرف اسی نے بنایا ہے اور جو بنایا ہے اس کا ذرّہ ذرّہ اس کی پاکیزگی بیان کرتا ہے۔ اس کی حمد کا ورد کرتا ہے۔ یہ ہے خالق۔ میرے اس مہربان خالق نے مجھے زندگی اور موت کے پُل پر کھڑا دیکھا تو میں موت کے قریب تھا۔ بجلی مجھے موت کی وادی میں دھکا دینے کی سرتوڑ کوشش کر رہی تھی۔ جی ہاں! تعریف اس خالق اللہ کریم کی کہ جس نے بجلی کو جھڑکا۔ اس نے میرا ہاتھ چھوڑا اور ایسے آرام سے چھوڑا کہ مجھے ہلکی سی جنبش بھی نہیں ہوئی۔ منتظر تو میں پہلے بھی تھا۔ اب بھی انتظار میں ہوں کہ خالق میرے! جب تیرا بھیجا ہوا میرے پاس آ جائے تو میں خوشی خوشی سے تیرے پاس آؤں۔ جسم سے فوراً نکلوں اور ساتویں آسمان پر تیرا دیدار کروں۔ تب تک انتظار۔ انتظار۔ اے رحمان! آخر پر عیادت کرنے والے احباب گرامی کا شکریہ۔