امام سلیمان بن اشعث سجستانیؒ اپنی کتاب سنن ابی دائود میں صحیح سند کے ساتھ ایک حدیث لائے ہیں۔ حضرت علیؓ کے بھتیجے حضرت عبداللہ بن جعفرؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ ایک بار ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے۔ وہاں ایک اونٹ تھا، اس نے جونہی اللہ کے رسولﷺ کو دیکھا تو دکھ بھری آواز نکالی اور ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے چھم چھم آنسو ٹپکنے لگے۔ اللہ کے رسولؐ اس کے پاس چلے گئے۔ اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا۔ وہ خاموش ہو گیا۔ حضورؐ نے پوچھا: یہ اونٹ کس کا ہے۔ انصاری جوان قریب آیا اور کہنے لگا: جی یہ میرا ہے۔ آپؐ نے اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا: ''اللہ نے تجھے اس اونٹ کا مالک بنایا ہے۔ یہ جانور ہے۔ اس کے حق کے بارے میں اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں ہو؟ اس نے ابھی میرے پاس شکوہ کیا ہے کہ تُو اسے بھوکا رکھتا ہے‘ جبکہ مشقت پوری لیتا ہے اور اسے تھکاتا ہے‘‘۔
قارئین کرام! نہ جانے مذکورہ اونٹ کتنے عرصہ سے ذہنی دبائو میں تھا، ڈپریشن کا شکار تھا مگر اظہار کا کوئی موقع نہ مل رہا تھا کہ وہ اپنا دکھ کسے سنائے؟ دکھیاروں کو اپنا دکھ سنانے کے لئے بھی کسی ہمدرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اونٹ کی قسمت کے کیا کہنے کہ اسے وہ ہستی نظر آئی جو انسانوں ہی کا درد لے کر نہ آئے، حیوانوں کا درد بھی لے کر آئے، چنانچہ اونٹ کے آنسو اس طرح گرنے لگے جیسے موسلادھار بارش برستی ہے۔ حیوان کو رحمت اللعالمین مل گئے اور پھر اونٹ کو رحمت نے یوں گھیرا کہ اونٹ کا مالک اس کے لئے ہمدرد بن گیا۔ اونٹ کا ڈپریشن ختم ہو گیا۔یاد رہے!حیوانات ظلم سہتے ہیں مگر خودکشی نہیں کرتے، خودکشی صرف انسان کرتا ہے۔ آیئے! دیکھتے ہیں خودکشی کتنا بڑا جرم ہے؟ قرآن میں ہے ''اپنی جانوں کو قتل (خودکشی) مت کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ انتہائی مہربان ہیں۔ یاد رکھو جو کوئی حد سے بڑھتے ہوئے اور ظلم کرتے ہوئے ایسا کام کرے گا ہم اسے جہنم میں داخل کر دیں گے‘‘ (النسائ: 29-30) ۔
اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے کہ جس نے پہاڑ سے گرا کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیا وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ ایسے ہی بلند جگہ سے گرتا رہے گا۔ جس نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا، جہنم میں وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا، ہمیشہ کیلئے دوزخ میں زہر کھاتا رہے گا۔ جس نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار (پستول، تلوار، خنجر وغیرہ) سے قتل کر لیا، وہ اس ہتھیار کو جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔ جو شخص اپنے آپ کو گہرے گڑھے (کنویں وغیرہ) میں گرا کر ہلاک کر لے گا وہ جہنم میں اسی طرح گڑھے میں گرتا رہے گا۔ جو پھندے سے لٹک کر خودکشی کرے گا وہ جہنم میں بھی پھانسی لیتا رہے گا (بخاری:1299,5442)۔
اللہ کے رسولؐ نے پہلی امتوں میں سے ایک امت کے ایک شخص کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے بتلایا کہ ایک شخص زخمی ہو گیا، اس نے بے صبری اور بے قراری کا مظاہرہ کیا، چھری پکڑی اور زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا۔ خون بہنے سے وہ مر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا، میرے بندے نے میرے حکم سے آگے بڑھ کر خود فیصلہ کر لیا۔ اب میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے (بخاری:3276)۔ ایک اور شخص کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ اس کے جسم پر پھوڑا نکل آیا۔اس پھوڑے کی تکلیف سے وہ ایسا پریشان ہوا کہ اس نے اپنے ترکش سے تیر نکالا اور پھوڑے کو چیر ڈالا، خون مسلسل بہنے لگ گیا حتیٰ کہ وہ مر گیا۔ مولا کریم نے فرمایا: میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے (مسلم: کتاب الایمان)۔
جی ہاں! اللہ کے رسولؐ نے واضح کیا کہ اے انسان ''تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے‘‘ (بخاری: کتاب الصوم)۔ جسم کا حق یہ ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے، بیمار ہو تو علاج کیا جائے، جو اس حق کو ادا کرنے کے بجائے اسے ہلاک کرنے پر آ جاتا ہے تو وہ ظلم کرتا ہے اور ایسے خودکش ظالم کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
ایسے لوگ بھی خودکشی کرتے ہیں جو معاشرے کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہر سال آٹھ لاکھ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ ماہرین اور نفسیاتی معالج کہہ رہے ہیں کہ 2030ء تک ڈپریشن دنیا کا سب سے بڑا مرض ہو گا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خودکشی کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔ ہم اسلامی تعلیمات کی برکت سے مذکورہ تعداد کو کم کر سکتے ہیں۔ لوگوں کو مشکلات سے نکال کر اس تعداد کو کم کر سکتے ہیں۔ جس طرح سرپر حد سے زیادہ بوجھ اٹھانے والا اس وقت گر جاتا ہے جب اس کا سر اور گردن بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہتے، اسی طرح سر کے اندر جو دماغ ہے اس پر پریشانیوں، غموں اور دکھوں کا بوجھ زیادہ پڑ جائے تو وہ بھی گر پڑتا ہے مگر اس کا گرنا مختلف انداز سے ہوتا ہے۔ کچھ لوگ پاگل ہو جاتے ہیں، بعض لوگ کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں، بعض لوگ بے خوابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نیند غائب ہو جانے کی وجہ سے نفسیاتی مریض بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کا علاج فوری نیند ہے۔ جی ہاں! بعض لوگوں کی پریشانی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس پریشانی سے نجات کا راستہ نہ پا کر خودکشی کر جاتے ہیں۔ یہ کمزور اور بزدل لوگ ہوتے ہیں۔ ان کمزوروں کا ہاتھ تھامنا ضروری ہے۔ ان کو بہادر اور دلیر بنانا ضروری ہے کہ وہ زندگی کے چیلنجوں کے سامنے کھڑے ہو سکیں۔
زندگی کے ہر شعبے میں ظالم بھی ملیں گے اور مظلوم بھی ملیں گے۔ ہمیں ظالم کو سمجھانا ہو گا۔ کسی شعبے کے افسر کو آگاہ کرنا ہو گا کہ تیرے ناجائز تنگ کرنے کی وجہ سے تیرا ماتحت اپنی جان لے سکتا ہے۔ جان نہ لے گا تو گھر میں جا کر لڑے گا۔ بیوی سے لڑے گا، بچوں کو پیٹے گا۔ ایک گھر کا سکون تباہ ہو گا۔ یعنی جو بڑا آدمی کسی چھوٹے ورکر وغیرہ کو ناجائز تنگ کرتا ہے، ہمیں اسے روک کر معاشرے کو امن کی راہ پر لانا ہو گا۔ جیلوں میں بطور خاص احتیاط کی جاتی ہے۔ خاص طور پر قید تنہائی میںدیکھا جاتا ہے کہ قیدی کے پاس کوئی ایسی شے نہ ہو کہ وہ اس سے خودکشی کر لے۔ میں کہتا ہوں احتیاط ضرور ہونی چاہیے مگر قید میں بھی ایک قیدی کو اس قدر ڈپریشن میں کیوں رکھا گیا کہ وہ خودکشی کا سوچتا ہے۔ خودکشی کے سوچنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ قیدی کو اس کی ہمت سے بڑھ کر مشقت میں رکھا گیا ہے اور یہی غلط ہے۔ یہی رویہ انسانیت کے منافی ہے یعنی ہر شعبے میں ہمیں اپنے رویّوں کو ایسا بنانا ہے کہ خودکشی کی تعداد کم ہو جائے۔ انسانیت کو زندگی کی راہ پر رکھا جائے نہ کہ اسے موت کے راستے پر چلنے کے لئے مجبور کر دیا جائے۔
پچھلے دنوں میں بجلی کا کرنٹ لگنے کی وجہ سے 24گھنٹے آئی سی یو میں رہا۔ آخری چند گھنٹوں میں میری حالت بہتر ہو گئی تو میں نے دیکھا کہ وہ نرس جو میری خدمت پر مامور ہے، کوئی 26سال کی جوان لڑکی ہے وہ حد درجہ پریشان تھی، میں نے اس کی پریشانی کا پوچھا تو پتہ چلا کہ بزرگ اور غریب باپ کی بچی کما کر گھر والوں کو کھلا رہی ہے۔ دوسرے شہر سے لاہور میں رہ رہی ہے۔ یہ کتنا بڑا ڈپریشن ہے۔ مزید ڈپریشن یہ کہ اپنے ہی شعبے کے لوگ پریشان کر رہے ہیں۔میں نے بیٹی کو سمجھایا، اسلامی حوالے دے کر فطری انداز سے اس کا ڈپریشن کم کیا تو وہ خود کہنے لگی، سوچنے کے ایسے انداز سے میں ہلکی پھلکی ہو گئی ہوں۔میں کہتا ہوں ہمیں ایسا کردار ادا کرنا چاہیے، یقین جانیں میںجب ہوائی جہازوں،بسوں، بڑے جنرل سٹوروں اور پلازوں وغیرہ میں بچیوں کو دیکھتا ہوں کہ مخصوص لباس پہن کر وہ کام کر رہی ہیں تو سوچتا ہوں کہ نہ جانے کس مجبوری نے اس بچی کو گھر سے نکالا ہے اور وہ مخصوص وردی پہن کر مصنوعی مسکراہٹیں بکھیر رہی ہے۔ یہ بھی کسی کا جگر گوشہ ہے، اندر سے نہ جانے یہ کس قدر شرم و حیا والی ہے مگر وقت کی مجبوری بھی شاید کس قدر جابر ہو گی کہ جب گھر جا کر یہ بوڑھی ماں کے لئے دوا لے کر جائے گی یا بچوں کے ساتھ ساتھ نکھٹو شوہر کے منہ میں بھی نوالے ڈالے گی۔ ایسی بچیوں کو ستانا کس قدر انسانیت کش ہو سکتا ہے کہ بچی خودکشی کر سکتی ہے۔ آیئے! غور کریں کہ لوگ تو خودکشی کرتے ہیں مگر اس خودکشی میں ہمارا کردار کتنا ہے۔ انسانیت کو ستانے میں ہمارا حصہ کس قدر ہے؟ اے مولا کریم، ہمارا حصہ انسانیت کی تکریم، تحفظ اور فلاح کا بنا دے۔ (آمین)