رحمۃ للعالمین حضرت محمد کریمؐ نے فرمایا '' اللہ تعالیٰ نے عرش کے اوپر کتاب میں لکھ دیا ہے :میری رحمت میرے غصے پر بھاری ہے۔‘‘ (بخاری: 3022) قرآن نے آگاہ فرمایا کہ اس عرش کو آٹھ فرشتوں نے اٹھا رکھا ہے۔ قرآن نے مزید آگاہ فرمایا کہ ''عرش کو اٹھانے والے اور عرش کے گرد رہنے والے (بے شمار فرشتے) ‘جہاں اپنے رب کا ذکر کرتے ہوئے سبحان اللہ‘ الحمدللہ کہتے ہیں‘ اللہ پر پختہ ایمان رکھتے ہیں‘ وہیں اہل ایمان کے گناہوں کی معافی کی درخواست بھی کرتے ہیں اور یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! آپ نے ہرشے کو رحمت اور علم کے لحاظ سے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔‘‘ (المومن:7)
قارئین کرام! ثابت ہوا کہ عرش کے اوپر بھی رحمت کا پیغام ہے۔ عرش کے اردگرد بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی صدائیں ہیں اور جنہوں نے عرش اٹھا رکھا ہے ان کی زبان سے بھی رحمت ہی کے پیغام مل رہے ہیں‘ یعنی عرش کے اوپر‘ عرش کے گرد اور عرش کے نیچے رحمت ہی رحمت کی تجلیات اور انوار کی بارشیں برس رہی ہیں۔ اس کے نیچے فردوس نام کی جنت ہے۔ حضرت محمد کریمؐ نے فرمایا! تمام جنتوں میں سب سے اعلیٰ و بلند جنت ''جنۃ الفردوس‘‘ ہے۔ یہ عرش کے نیچے ہے۔ اسی سے تمام نہروں کے پھوٹنے کا آغاز ہوتا ہے۔ (بخاری: 2790) اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں ''وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے تو ایسے لوگوں کا رب ان افراد کو اپنی رحمت میں داخل فرما دے گا اور واضح کامیابی تو یہی ہے۔‘‘ (الجاثیہ:30)۔
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے یہاں جنت کو اپنی رحمت قرار دیا ہے۔ حضرت محمد کریمؐ نے شرح فرماتے ہوئے مزید واضح کر دیا‘ فرمایا!
قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ لِلْجَنَّۃِ اَنتِ رَحْمَتِی اَرْحَمُ بِکِ مَنْ اَشَائُ مِنْ عِبَادِیْ
(بخاری‘ کتاب التفسیر:4850)
اللہ تعالیٰ نے جنت کو مخاطب کر کے فرما دیا‘ تو میری رحمت ہے‘ اپنے بندوں میں سے جس پر میں رحم کروں گا تیرے ذریعے رحم کروں گا۔ قارئین کرام! میں نے اصل عربی عبارت اس لئے لکھ دی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے قرآنی آیت کی تفسیر میں عربی جملہ ارشاد فرمایا ہے۔ اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ میرے حضورؐ کے جملے کو ''کتاب التفسیر‘‘ میں لائے ہیں۔ ثابت میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اصل مقام اور محل جنت ہے اور جنتیں بھی بے شمار ہیں‘ پھر ان بے شمار جنتوں میں سب سے اعلیٰ و ارفع فردوس ہے‘ تو فردوس وہ جنت ہے ‘جو اللہ تعالیٰ کی انتہائی رحمت کا مرکز ہے‘ جو یہاں پہنچ گیا وہ رحمتوں بھرے ایسے عظیم مقام پر پہنچ گیا کہ جس کی عظمت نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے‘ نہ کان نے سنی ہے اور نہ دل و دماغ میں اس کا تصور تک آیا ہے۔ (بخاری: 3244)
لوگو! رب تعالی ٰنے انسانیت پر ایک خاص فضل و کرم اور احسان فرمایا کہ انسانیت کو حضرت محمد کریمؐ جیسا عظیم رسول عطا فرمایا ‘جن کو تمام جہانوں کے لئے ''رحمۃ للعالمین‘‘ بنا کر بھیجا۔ یعنی پوری انسانیت کو اللہ کی رحمت کی عظیم قیام گاہ فردوس اور دیگر جنتوں کی صورت میں ملے گی تو حضرت محمد کریمؐ کے مبارک قدموں کے نقوش سے ملے گی۔
آپؐ ''ربیع الاول‘‘ میں اس دنیا میں تشریف لائے۔ ''ربیع‘‘ کا معنی بہار ہے۔ اول ساتھ شامل ہوا تو ربیع الاول کا مہینہ ''پہلی بہار‘‘ کا مطلب دے گیا۔ میں کہتا ہوں‘ ہر رسول اور نبی جب کبھی بھی آیا تو بہار کا سماں لے کر آیا‘ مگر ''رحمۃ للعالمین‘‘ رسول صرف ایک بار آیا لہٰذا رحمت اپنی انتہا کے ساتھ انسانیت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صرف اسی وقت آئی جب حضرت آمنہ کے آنگن میں حضرت محمد کریمؐ جیسا ننھا بچہ تشریف لایا۔ یہ پہلی بہار اس لحاظ سے بھی اولین ہے کہ حضورؐ نے واضح کر دیا کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب جناب آدمؑ جسم اور روح کی درمیانی حالت میں تھے۔ (مسند احمد: 20596) آمد مصطفی کی بہاراس لحاظ سے بھی اولین بہار ہے کہ آپؐ نے فرما دیا: ''میں تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں۔‘‘ (مسلم: 2278)‘ یعنی اولین اور آخرین سردار حضرت محمدؐ ذیشان اور عالیشان ہیں۔ آپؐ تمام رسولوں اور نبیوں کے امام ہیں کہ معراج کی رات اپنی پہلی منزل مسجدِ اقصیٰ میں جب آپؐ تمام رسولوں اور نبیوں کے ساتھ موجود تھے‘ تو حضرت جبریلؑ نے آپؐ کا ہاتھ مبارک پکڑا اور امامت کے مصلّٰی پر کھڑا کر دیا۔ یوں آپؐ ہی امام الانبیاء ‘یعنی تمام رسولوں اور نبیوں کے لیڈر اور رہنما ہیں۔ الغرض! حضرت آدمؑ سے لیکر قیامت تک ساری انسانیت کے لئے میرے حضور کی ہستی ہی موسم بہار کا مرکز ہے۔ اگلی زندگی میں پوری انسانیت کے لئے شفاعت کریں گے ‘تو حضرت محمد کریمؐ ہی کریں گے۔ رحمتوں کے مرکز کا دروازہ کھلوائیں گے‘ تو حضرت محمد کریمؐ ہی کھلوائیں گے۔ جنت کا دروازہ کہ جس کی چوڑائی سو سال کی مسافت کے برابر ہو گی۔ حضورؐ وہاں تشریف لائیں گے‘ تو دربان فرشتہ آپؐ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے گا ''أنا محمدؐ‘‘ میں محمد ہوں‘ تو تب دربان یہ کہہ کر دروازہ کھولے گا کہ مجھے حکم دیا گیا تھا کہ جناب محمد کریمؐ سے پہلے کسی کے لئے درازہ نہیں کھلے گا‘ لہٰذا جنت کا دروازہ حشر کے میدان میں کھلے گا‘ تو حضرت محمد کریمؐ کی تشریف آوری سے کھلے گا۔ آپؐ کا قدم مبارک اللہ کی رحمت کے مرکز میں داخل ہو کر افتتاح فرمائے گا۔ یوں رحمۃ للعالمین کے افتتاح کے بعد پوری انسانیت میں سے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق ہو گا ‘وہ داخل ہو گا‘ یا رحمن! ہمیں حضورؐ کا ساتھ نصیب فرما دینا۔ (آمین)
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا‘ میرے رسولؐ آگاہ کر دو‘ اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت کے خواہشمند ہو تو میرے نقش پا پہ چلنا شروع کر دو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنا شروع کر دیں گے۔ (ال عمران: 31) جی ہاں! اللہ کی محبت میرے حضورؐ کے مبارک قدموں پہ چلنے سے مشروط ہے۔ یہ مل گئی تو رحمتوں کا مرکز یعنی فردوس مل گیا۔ لوگو! میرے حضورؐ نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو (100) حصے بنائے۔ ان میں سے صرف ایک حصہ دنیا میں بھیجا۔ اس کی وجہ سے تمام جاندار آپس میں محبت کرتے ہیں ؛حتیٰ کہ گھوڑی اپنے بچے پر آیا ہوا اپنا پائوں (جِلد کے ساتھ چھوتے ہی) اوپر اٹھا لیتی ہے تو اس حصۂ رحمت کی وجہ سے اٹھاتی ہے‘ جو دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ یاد رکھو! باقی ننانوے حصے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تقسیم فرما دیں گے۔ (مسلم: 2752)‘ جی ہاں! وہ ننانویں حصے تقسیم ہوں گے‘ تو رحمۃ للعالمین کے ذریعے تقسیم ہوتے نظر آتے ہیں۔ آپؐ کی شفاعت تمام انبیاء کی امتوں کے لئے ہے۔ تمام رسولوں کی قوموں کے لئے ہے۔ آپؐ کا مقام ''مقامِ محمود‘‘ ہے۔
میں کہتا ہوں‘ آج یورپ و امریکہ جاپان و چین نے جو ترقی کی ہے۔ فلاحی سٹیٹ اپنے آپ کو بنایا ہے وہ اس وجہ سے بنایا ہے کہ انہوں نے انسانیت کو اس کے حقوق دیئے ہیں۔ انسانیت کو محبت دی ہے‘ استاد کو قدر دی ہے‘ معذوروں کا خیال کیا ہے‘ بوڑھوں کو مقام دیا ہے‘ بچوں کی فلاح کا اہتمام کیا ہے‘ تعلیم پر سرمائے کا بے دریغ استعمال کیا ہے‘ میرٹ کے بھرم کا قیام کیا ہے‘ بے لاگ عدل کو قائم اور انصاف کو بالا و بالام کیا ہے‘ ظلم کا اختتام کیا ہے۔ جی ہاں! یہ سب کچھ ان لوگوں نے ہمارے حضورؐ عالیشان رحمتوں بھرے سیاسی نظام سے لیا ہے۔ آپؐ کے ساتھیوں ابوبکرؓ و عمرؓ سے لیا ہے۔ محترم عمران خان وزیراعظم پاکستان! آپ رحمۃ للعالمین کانفرنس کر رہے ہیں۔ یہ عمل مبارک ہو‘ ربیع الاول میں بہار کا جھونکا ہے‘ مگر موسم بہار تو عملی طور پر دیکھنے میں اسی وقت آئے گا‘ جب پاکستان کی ریاست ''مدینہ کی ریاست‘‘ بنے گی۔ کیسے کردار سے بنے گی۔ آئندہ کے چند کالموں میں اسی پر خامہ فرسائی کرنے کی کوشش کروں گا۔ خواہش صرف اپنے اللہ سے وابستہ ہے اور وہ حضورؐ کے اس پاکیزہ وفد میں شرکت کی تمنا ہے‘ جو جنت کے افتتاح میں شامل ہو گا۔