"AHC" (space) message & send to 7575

ابنِ نون نبی ؑ اور کب کشمیر کی آزادی؟

حضرت ابوہریرہؓ بتاتے ہیں کہ حضرت محمد کریمؐ نے فرمایا! نبیوں میں سے ایک نبیؑ نے جہاد کیا۔ انہوں نے اپنی عوام سے کہا‘ وہ شخص میرے ہمراہ جہاد کو نہ جائے جس نے کسی عورت سے نکاح تو کر لیا ہو مگر رخصتی نہ کی ہو جبکہ وہ اپنی منکوحہ کی رخصتی کا خواہشمند ہو۔ ایسا شخص بھی میرے ساتھ نہ جائے جو گھر کی تعمیر کر رہا ہو مگر اس نے چھت نہ ڈالی ہو۔ ایسا شخص بھی ہمارے لشکر میں شامل نہ ہو ‘جس نے حاملہ بکریاں اور اونٹیناں خرید رکھی ہوں اور وہ منتظر ہو کہ یہ بچے دینے والی ہیں۔ اس کے بعد مذکورہ نبی جہاد کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہ اپنی جہادی مہم میں ایک شہر (یروشلم‘ القدس) کو فتح کرنے کے لئے جب اس کے قریب پہنچے ‘تو عصر کا وقت ہونے کو تھا یا ہو چکا تھا انہوں نے سورج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہو اور میں بھی اسی اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے عرض کی: اے اللہ کریم! اس سورج کو ہم پر غروب ہونے سے روک دیں؛ چنانچہ جب تک اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح نہ عطا فرمائی‘ سورج کو روکے رکھا۔ (صحیح بخاری:3124)۔ 
یاد رہے! مذکورہ حدیث ''مسند امام احمد بن حنبل:325\\2‘‘ میں بھی صحیح سند کے ساتھ مذکور ہے۔ وہاں حضور نبی کریمؐ کے الفاظ مبارک اس طرح ہیں کہ ''سوائے حضرت یوشع علیہ السلام کے سورج کو کسی انسان کی گزارش پر نہیں روکا گیا جو کہ القدس (یروشلم) کو فتح کرنے کی مہم پر نکلے تھے۔‘‘ قارئین کرام! بائیبل میں حضرت یوشع بن نونؑ کو یشوع بن نونؑ کہا گیا ہے۔ ان کے نام سے بائیبل میں چیپڑ بھی ہے۔ میں نے وہ کھولا تو آیت نمبر 12تا 15میں یوں لکھا ہوا ہے ''یشوع نے خداوند کے حضور بنی اسرائیل کے سامنے یہ کہا‘ اے سورج! تو جِبعُون (پہاڑ پر) ٹھہرا رہ؛ چنانچہ سورج آسمان کے بیچوں بیچ (درمیان میں) ٹھہرا رہا اور تقریباً سارے (بقیہ) دن ڈوبنے میں جلدی نہ کی۔ اور ایسا دن نہ کبھی اس سے پہلے ہوا اور نہ اس کے بعد جس میں خداوند نے کسی آدمی کی بات سنی ہو۔‘‘
ثابت ہوا حضرت یوشع بن نون علیہ السلام ایسے حکمران اور چیف کمانڈر تھے جنہوں نے انسانی ضروریات اور مجبوریوں کو پیش نظر رکھا اور تین قسم کے مجبور انسانوں کو اپنے ہمراہ لشکر میں نہ لیا۔ پہلا وہ شخص ہے جو اپنی منکوحہ بیوی کو گھر لانے کی تیاری کر رہا ہے‘ دوسرا وہ ہے جو گھر کی چھت نہیں ڈال سکا۔ لامحالہ دونوں کا دھیان پیچھے رہے گا۔ ایک منکوحہ کا سوچ کر بے چین رہے گا تو دوسرا اپنے بیوی بچوں کا سوچتا رہے گا کہ وہ چھت کے بغیر نہ جانے کیسے گزر بسر کر رہے ہیں۔ تیسرا وہ شخص ہے کہ جس کی اونٹنیاں اور بکریاں بچے جننے کے قریب ہیں۔ یہ بھی سوچ فکر میں رہے گا کہ اس پر اس کے معاش کا انحصار ہے۔ یہ ساری باتیں حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے رحم و کرم اور نرمی کو واضح کرتی ہیں۔ جی ہاں! جو حکمران اپنی قوم اور قوم سے بنی ہوئی فوج پر مہربان ہوتا ہے‘ ان کے انسانی حقوق کا احترام کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کی دعا پر سورج کو بھی روک دیتا ہے۔ ٹائم اور وقت کو بریک لگا دیتا ہے۔ (سبحان اللہ) 
قارئین کرام! بنو اسرائیل جب فرعون کی غلامی سے نکل کر صحرائے سینا کی وادیوں میں آئے تھے تو ان کی خواہش یہ تھی کہ وہ اپنے آبائواجداد کی اس سرزمین میں جا کر آباد ہوں جو سب کے سب نبی تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام‘ حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کہ جن کی قبریں بھی سرزمین فلسطین میں تھیں۔ ایک حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر مصر میں تھی مگر وہ وصیت فرما گئے تھے کہ بنو اسرائیل جب مصر کو چھوڑیں اور یہاں سے جائیں تو ان کے جسد کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں۔ حضرت محمد کریمؐ نے پوری تفصیل کے ساتھ آگاہ فرمایا کہ بنو اسرائیل کس طرح حضرت یوسفؑ کے جسم مبارک کو مصر سے جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔‘‘ (سلسلہ صحیحہ للالبانی) بائبل میں یوں لکھا ہے ''اور انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کی ہڈیوں کو (جسم مبارک) کہ جس کو بنی اسرائیل مصر سے لے آئے تھے۔ سکم میں اس زمین کے قطع (ٹکڑے) میں دفن کیا جسے یعقوب (علیہ السلام) نے سکم کے باپ حمور کے بیٹوں سے چاندی کے100سکوں میں خریدا تھا اور وہ زمین بنی یوسف کی میراث ٹھہری (یشوع:33)۔ یعنی جو بات بائبل میں ہے حضرت محمد کریمؐ کے فرمان سے اس کی تصدیق ہو گئی۔
جی ہاں! حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم بنو اسرائیل سے کہا کہ آبائواجداد کی زمین مل جائے گی‘ مگر جہاد کرنا پڑے گا اور پھر حکم دیا کہ جہاد کے لئے تیار ہو جائو۔ اس پر وہ تیار نہ ہوئے۔ قرآن میں بنو اسرائیل کا جواب موجود ہے ''اے موسیٰ تم جائو اور تمہارا رب بھی جائے‘ دونوں مل کر جہاد کرو‘ ہم تو یہاں (سینا) میں بیٹھے ہیں۔‘‘ اس جواب پر اللہ کی ناراضی کا اظہار یوں ہوا کہ چالیس سال تک کے لئے بنو اسرائیل مذکورہ زمین میں نہ جا سکے۔ من و سلویٰ کھاتے رہے اور حضرت موسیٰ علیہ اسلام ان کی تربیت کرتے رہے۔ اتنے عرصے میں بنو اسرائیل کے وہ سارے لوگ فوت ہو گئے جو مصر سے آئے تھے۔ ان لوگوں کی اولاد تربیت پا کر مومن‘ مجاہد اور بہادر بن گئی۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے تیار کردہ لوگوں کے ساتھ القدس کو فتح کرنے کے لئے تیار تھے کہ موت کا فرشتہ جان لینے آ گیا۔ صحیح بخاری میں اس موقع پر حضرت محمد کریمؐ کا فرمان موجود ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے موت کے فرشتے کو مکا مارا وہ انسانی صورت میں آیا تھا۔ اس کی آنکھ پھوٹ گئی۔ وہ اللہ کریم کے پاس گیا۔ اپنا حال بیان کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آنکھ درست فرمائی اور واپس بھیجا کہ میرے موسیٰ علیہ السلام سے کہو‘ بیل کی کمر پر ہاتھ پھیر دو جتنے بال نیچے آئیں اتنے سال زندہ رہ لو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا پھر؟ فرشتے نے کہا پھر میں آ جائوں گا۔ فرمایا ابھی لے چلو تیار ہوں۔ قارئین کرام! مجھے تو یوں سمجھ آئی ہے کہ اللہ کے جلیل القدر رسول زندگی کی خواہش کر رہے تھے تو اس لئے کر رہے تھے کہ چالیس سالہ محنت کا پھل بیت المقدس کی فتح کی صورت میں دیکھ لیں مگر پھر اپنے اللہ کی رضا کو مقدم رکھا۔ اپنے خادم یوشع بن نون علیہ السلام کو اپنا جانشین بنایا اور خود اپنے اللہ سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ اب یروشلم اور فلسطین فتح ہوا تو حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے ہاتھ سے۔ اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر سورئہ نصر نازل ہوئی تو صحیح بخاری میں ہے حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس سورت سے ہم یہی سمجھے کہ اللہ کے رسولؐ کا کام مکمل ہو گیا۔ اب آپؐ اپنے رب کریم کے پاس جائیں گے چنانچہ دو سال بعد اللہ تعالیٰ نے بلا لیا اور حضورؐ نے قیصر و کسریٰ کی فتح کی جو پیشگوئیاں فرمائی تھیں وہ حضرت عمرؓ کے ہاتھوں پوری ہوئیں‘یعنی کس سے کس قدر کام لینا ہے‘ یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں۔
کشمیر کی آزادی کے لئے اہل کشمیر نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں‘ اہل کشمیر ایسے پرعزم ہیں کہ 1932ء میں جب پورے برصغیر پر انگریز کا راج تھا۔ کشمیر میں ظالم ڈوگرہ راج تھا۔ اذان پر راجہ نے پابندی لگا دی تو بائیس کشمیریوں نے شہادتیں پیش کر کے اذان کو مکمل کیا تھا۔ آج تو حالات بدل چکے ہیں۔ پوری کشمیری قوم ایمان کی طاقت سے بھرپور اک بہادر سپاہ بن چکی ہے۔ پوری پاکستانی قوم ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ پاکستان مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے۔ امریکا افغانستان میں آیا تھا تو جنرل حمید گل صاحب نے فرمایا تھا: نائین الیون بہانہ‘ افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ... الحمدللہ! آج پاک فوج کی قربانیوں اور پاک وطن کے باسیوں کی قربانیوں سے پاک فوج مضبوط ہو چکی ہے۔ میں نے کئی بار لکھا کہ عراق‘ یمن‘ شام‘لیبیا اور افغانستان کے پاس مضبوط فوج نہ تھی‘ وہاں کے ملک خون میں نہا گئے۔ ہمارے ساتھ اغیار کے پروگرام ان سے بھی برے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں پاک فوج کے ڈیفنس کی نعمت سے نواز رکھا تھا چنانچہ نشانہ بنانے والے افغانستان میں خود نشانہ بن گئے۔ آیئے! اے اہل وطن‘ اسی جذبے سے مل کر چلیں انشاء اللہ کشمیر بھی آزاد ہو گا۔ کس کے ہاتھوں سے ہو گا یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے‘ مگر آزاد ضرور ہو گا۔ اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔
پاکستان زندہ باد
پاک فوج پائندہ باد

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں