محمد بن سلمان نائب خادم الحرمین الشریفین پاکستان تشریف لائے اور محبت و مودّت کی ایسی مشعل روشن کر کے گئے کہ اہل پاکستان اپنی خوشحالیوں کے سفر میں اسے کبھی فراموش نہ کر سکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مشعل کو حرمین شریفین سے پاکستان لانے میں محترم نواف سعید المالکی سعودی سفیر اسلام آباد نے جو کردار ادا کیا‘ وہ الگ ایک کالم کا تقاضا کرتا ہے‘ اسی طرح وطن عزیز کے حوالے سے جنرل قمر جاوید باجوہ اور اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کا کردار انتہائی نمایاں ہے۔ پاک فوج کے موجودہ اور سابقہ دو سالاروں نے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے۔ امارات اور چین سے اقتصادی مدد لینے میں جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے انتھک محنت کی تھی۔ وزیراعظم عمران خان جو سب محنت کرنے والوں کے کپتان ہیں ‘وہ ہر اس کردار پر شادمان ہیں‘ جو پاکستان کے بحری جہاز کو معاشی بھنور سے نکال کر کنارے تک لے جا رہا ہے‘ وطن عزیز کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے جا رہا ہے۔ یوں سب کا بیانیہ ایک ہے اور کردار کا صفحہ بھی ایک ہے تو ہمیں یقین کر لینا چاہئے کہ صفحۂ ہستی پر پاکستان ایک باوقار مقام حاصل کرنے جا رہا ہے۔ (انشاء اللہ)
پاکستان بننے سے پہلے ہی حضرت قائداعظم رحمہ اللہ نے واضح کر دیا تھا کہ ہم ایسی ریاست بنانے جا رہے ہیں‘ جہاں مدینہ کی ریاست کا تجربہ کیا جائے گا۔ آج محترم وزیراعظم عمران خان صاحب نے قائداعظم کی بات کو عملاً ثابت کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے دادا جان شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود رحمہ اللہ نے حضرت قائداعظم کی مسلم لیگ کو ایسے وطن کے قیام کی خاطر چندہ دیا تھا‘ جو ریاست مدینہ کی طرز پر بننے جا رہا تھا۔پاکستان کو بنانے کی جدوجہد کے لئے خطیر رقم دینا اقوام عالم میں واحد مثال ہے ‘جو صرف اہل پاکستان اور آل سعود کے درمیان ہے‘ اسی طرح جناب ایم ایچ اصفہانی صاحب کہ جنہیں حضرت قائداعظم نے یو این او کے عالمی ادارے میں قیام پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ اس وفد کو عالمی ادارے میں نمائندگی کا موقع نہ دیا گیا کہ رولز کے خلاف تھا۔ رول اور قانون کے مطابق صرف ریاست کے نمائندوں کو ہی نمائندگی دی جاتی ہے۔ تب اس وفد نے شاہ فیصل سے ملاقات کی۔ شاہ فیصل بطور وزیر خارجہ سعودیہ کی نمائندگی عالمی ادارے میں کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے والد گرامی سے بات کی اور شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ہدایت پر اس وقت کے شہزادہ فیصل نے امریکہ کے روزویلٹ ہوٹل میں دنیا بھر کے نمائندوں کو عشائیہ دیا اور وہاں حضرت قائداعظم کے نمائندے جناب اصفہانی صاحب نے پاکستان کے قیام کا مقدمہ پیش کیا۔ آج جب شاہ عبدالعزیز کے پوتے شہزادہ محمد بن سلمان 17فروری 2019ء کو وزیراعظم عمران کے دیئے گئے عشائیہ میں یہ اعلان فرما رہے تھے کہ 22کروڑ پاکستانی مجھے سعودیہ میں اپنا سفیر سمجھیں تو میں پاکستان کی ستر سالہ تاریخ سے بھی ایک دہائی پیچھے پہنچ گیا کہ جب پاکستان قائم نہ ہوا تھا تو محمد بن سلمان کے تایا جان شاہ فیصل رحمہ اللہ نے مجوزہ پاکستان کی سفارت کا حق پوری دنیا کے سامنے ادا کیا تھا۔ آج شاہ فیصل کے بھتیجے تقریباً 80سال بعد اسی اعلان کو اس انداز سے تازہ کر رہے ہیں کہ ہم تو وہیں کھڑے ہیں۔ لو! اکیسویں صدی میں 20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور یہ آگے بڑھتی ہی جائے گی۔ تعلق ہو تو ایسا‘ محبت ہو تو ایسی‘ دوستی ہو تو ایسی۔ واہ جی واہ (سبحان اللہ)
شاہ سلمان بن عبدالعزیز خادم الحرمین الشریفین نے اپنے مذکورہ بیٹے کا نام سردار دو جہان‘ رحمۃ للعالمین حضرت محمد کریمؐ کے مبارک نام پر ''محمد‘‘ رکھا۔ حضرت محمد کریمؐ نے جب مکہ فتح کیا تو صفا پہاڑی پر چڑھ کر کعبہ کی طرف دیکھا ‘پھر اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا خوب بیان فرمائی اور دعا بھی کی۔ اس موقع پر مدینہ کے انصار بھی پہاڑی کے دامن میں تھے۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ رسولؐ کا رازونیاز دیکھا اور مکہ کے ساتھ محبت دیکھی تو آپس میں کہنے لگے: لگتا ہے‘ اللہ کے رسولؐ اپنے شہر اور قبیلے کی محبت میں مغلوب ہو گئے (کہیں ہمیں چھوڑ کر مکہ میں نہ رہ جائیں) اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بات اپنے رسولؐ کو بتلا دی۔ اس پر حضورؐ نے انصاریوں کو اکٹھا کیا اور مذکورہ بات کے بارے میں پوچھا تو انصار کہنے لگے: جی ہاں! ہم نے مذکورہ بات کہی ہے۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا: تم جانتے ہو‘ میرا نام کیا ہے؟ میں محمدؐ ہوں۔ اللہ کا بندہ اور رسولؐ ہوں۔ میں نے اللہ تعالیٰ اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے (اپنا دیس اور قبیلہ چھوڑا ہے) اب میرا جینا تمہارے ساتھ جینا ہے اور مرنا تمہارے ساتھ مرنا ہے۔‘‘ (مسلم:1780)
قارئین کرام! محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود پاکستان کی طرف آنے لگے تو کعبہ کے اندر داخل ہوئے۔ اللہ کے گھر کی دیواروں کو صاف کیا‘ پھر کعبہ کی چھت پر چڑھے۔ اپنے اللہ سے مناجات کیں اور پھر پاکستان چلے آئے۔ انہوں نے وفا کا حق ادا کر دیا۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ماضی میں وفا کی وفاداری میں ہم سے کہاں کہاں کوتاہی ہوئی۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے تو پاکستان کی 70سالہ تاریخ سے باہر نکل کر 80سال کے قریب دور پر مبنی ایک ایسا جملہ بول دیا کہ جس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہہ دیا ''میں سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر ہوں‘‘ اللہ اللہ! دنیا کے چند امیر ترین ملکوں میں سے ایک ملک کا حکمران اپنے آپ کو سفیر کہے۔ میں کہتا ہوں کہ حضرت محمد کریمؐ کے وہ مبارک الفاظ جو آپؐ نے انصارسے فرمائے تھے۔ انہی الفاظ کے مفہوم کو آج حضرت محمد کریمؐ کے روحانی فرزند اور مکہ و مدینہ کے نائب خادم محمد بن سلمان نے اسلام آباد کی سرزمین پر ادا کیا ہے۔ یہ ایک اعزاز ہے ‘جو وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے لئے اور اہل پاکستان کے لئے ہے کہ اہل پاکستان کے اولین قائد اور آج کے کپتان نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مذکورہ عزم کو کامرانی عطا فرمائیں۔
مدینہ منورہ کی محبت ہم اہل پاکستان کے دلوں‘ دماغوں اور رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے۔ ہماری مثال تو حضورؐ کی اس اونٹنی کی طرح ہے‘ جو مدینہ کی محبت میں دوڑتی چلی گئی تھی۔ حضرت عمران بن حصینؓ بتلاتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت مشرکوں کے ہاتھ لگ گئی اور قید کر لی گئی... حضورؐ کی ایک اونٹنی تھی‘ اس کا نام ''عضبائ‘‘ تھا۔ وہ پہلے ہی ان لوگوں کے ہاتھ آ چکی تھی... ایک دن ایسا ہوا کہ ثقیف قبیلے کے یہ مشرک لوگ جب اپنے جانوروں کی خدمت وغیرہ کر چکے تھے اور اپنے گھروں میں ان جانوروں سے بے پروا ہو چکے تھے تو انصاری خاتون کو نکلنے کا موقع مل گیا... وہ بتلاتی ہیں کہ میں نے رات کو یہاں سے نکل بھاگنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب میں نکلنے لگی تو سواری کے لئے جس اونٹ کے بھی پاس آتی‘ وہ خوفناک آواز نکالتا اور میں جھٹ سے پیچھے ہٹ جاتی۔ آخرکار میں ایک اونٹنی کے پاس آئی‘ جس کا نام ''عضبائ‘‘ تھا۔ اس کے قریب ہوئی تو اس نے کوئی آواز نہ نکالی اور وہ شوق و شرافت کے ساتھ تیار ہو گئی؛ چنانچہ میں اس پر بیٹھی اور مخصوص آواز نکالی کہ جس سے وہ چل پڑے‘ چنانچہ وہ چل پڑی... بعد میں مشرکوں کو خبر ہو گئی تو انہوں نے میرا تعاقب شروع کر دیا‘ لیکن عضباء اس قدر دوڑی کہ مشرکوں کو تھکا کر بے بس کر دیا اور ''عضبائ‘‘ مدینہ منورہ پہنچ گئی۔‘‘(مسلم: 1614) اللہ اللہ! حضورؐ کی اونٹنی کو موقع ملا تو دوڑ پڑی۔ حضور نبی کریمؐ کے پاس آنے کا شوق‘ مدینے کا شوق‘ ہاں ہاں! اس نے دم لیا تو مدینے پہنچ کر لیا... دل تو یہی ہے کہ دم لیں تو مدینے میں داخل ہو کر لیں۔
جی ہاں! ہماری محبت کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اسی مدینہ منورہ کے محافظ ہمارے پاس مدنی مہمان بن کر آئے‘ مگر ہمارے حکمرانوں نے کہا: وہ اپنے دوسرے گھر میں آئے ہیں۔ ''اھلاً سھلاً و مرحباً‘‘ کا یہی مطلب ہے۔ پیغام یہ ہے کہ پچھلی حکمرانی میں جو کسر رہ گئی تھی اب وہ کسر نکل رہی ہے۔ حکمرانی بھی نئی ہے‘ پارلیمنٹ بھی نئی ہے‘ نیا پاکستان بن رہا ہے۔ تعلقات کو نئی شکل دینے میں جو کوششیں ہوئی ہیں ‘اللہ تعالیٰ ان کو ایسا بابرکت بنائے کہ دوستی کا پھل اپنی مٹھاس میں اضافہ کرتا چلاجائے۔پاک سعودیہ دوستی ‘مٹھاس... زندہ باد!