وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ انڈیا کے لیے اپنے امن کے پیغام کو پھر دہرایا۔ ساتھ ہی ٹیپو سلطان شہید کا تذکرہ کیا اور انہیں اپنا ہیرو قرار دیا۔ گویا وزیراعظم نے ہندوستان کو یہ پیغام دیا کہ ہم خطے میں امن اور سلامتی کے لیے پابرکاب ہیں‘ لیکن ؛اگر آپ نے حملے میں پہل کی تو ہم اپنے دفاع میں موت کیلئے تیار ہیں؛ چنانچہ انڈیا کے دو جہاز حملہ آور ہو کر پاکستان میں آئے ‘تو پاک فضائیہ کے دو جانبازوں حسن صدیقی اور انعام خان نے دونوں جہاز مار گرائے۔ ایک پائلٹ ابھینندن گرفتار ہوا تو محترم عمران خان صاحب نے اسے شاندار آئو بھگت کے بعد رہا کر دیا‘ یعنی ہمارے وزیراعظم نے دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ امن کیلئے ہر دم پابرکاب ہیں۔ ساتھ ساتھ اپنے وطن ِعزیز کے دفاع کی خاطر موت کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں‘ میڈیا اور پوری قوم نے مندرجہ بالا پالیسی کو سامنے رکھ کر اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ اس عظیم یکجہتی اور اتحاد پر پوری پاکستانی قوم نے دنیا بھر سے خراج تحسین حاصل کیا ہے اور یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ ایف 17 تھنڈر‘ جسے پاکستان نے چین کے فنی تعاون سے تیار کیا‘ اس نے بھی دفاعی مارکیٹ میں اپنے نام کے ساتھ تاریخی دوام حاصل کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان امن کی خاطر بار بار وزیراعظم ہند نریندر مودی کو بات چیت کی دعوت دے رہے ہیں‘ مگر دوسری جانب سے مکمل سکوت اور جمود ہے۔ وزیراعظم عمران خان جو پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانا چاہتے ہیں‘ موجودہ صورت حال میں وزیراعظم کا رویہ کس قدر سرکار مدینہ حضرت محمدکریم ﷺ کے مبارک اسوہ کے مطابق ہے‘ اس کا جائزہ کچھ یوں ہے:
جب قریش مکّہ اور دیگر عرب قبائل نے دس ہزار جنگجوئوں کے ساتھ مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا تھا تو سرکار مدینہ ﷺ نے خندق کھود کر اپنا دفاع کیا۔ مشرکین کی طرف سے عمرو بن عبدودّ نے گھوڑے کو تیز دوڑاتے ہوئے ایک ایسی جگہ سے خندق کو پار کیا جہاں سے خندق کی چوڑائی قدرے کم تھی۔ عمرو کے بارے میں عرب میں مشہور تھا کہ وہ اکیلا ہی (100) بندوں پر بھاری ہے۔ اس نے اپنے مقابلے کے لیے للکارا تو سرکارِ مدینہ ﷺنے حضرت علیؓ کو مقابلے کے لیے بھیجا۔ اس نے مقابلہ میں حضرت علیؓ کو کمتر جانتے ہوئے اپنے تکبر اور گھمنڈ کا اظہار کیا۔ یہ طے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کو تکبر لائق ہے اور انسان جب تکبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ متکبر کو ذلیل کر دیتا ہے۔ جی ہاں! حضرت علی حیدر کرارؓ نے مدمقابل کو بغیر تلوار مقابلے کا چیلنج دے دیا۔ دونوں کے مقابلے کو سرکارمدینہ ﷺ اپنے جانباز صحابہ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں‘ جبکہ خندق کے پار ابوسفیان کی قیادت میں مشرک لوگ بھی دونوں پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ مقابلہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے حیدرکرارؓ نے عمرو بن عبدودّ کو چاروں شانے چت زمین پر گرا دیا اور دونوں لشکریوں دیکھ رہے تھے کہ مسلمان خوشی و مسرت کے ساتھ اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے ‘جبکہ طاقتور ترین لوگ خندق کے اس پار ہکا بکا ہو کر ناقابل یقین سمجھ کر حقیقی منظر دیکھ رہے تھے۔ اگلا منظر اس سے بھی حیران کن تھا۔ حضرت علیؓ نے چھاتی پر بیٹھے ہوئے عمرو بن عبدود کو پیشکش کی کہ خنجر میرے پاس ہے‘ تیرا گلا کاٹ سکتا ہوں‘ مگر تمہیں موقع دیتا ہوں کہ حضرت محمدکریمﷺ کا کلمہ پڑھ لو۔ اس کے بعد تم آزاد ہو اور ہمارے بھائی ہو۔ عمرو نے پیشکش ٹھکرا دی۔ اب اسے صاف اپنی موت نظر آ رہی تھی۔ اس نے ایک کمینی حرکت کر ڈالی کہ حضرت علی ؓکے منہ پر تھوک دیا۔ حیدرکرارؓ نے اسے چھوڑ دیا اور کہا: ''اب میں تجھے قتل کروں گا تو میری ذات کا انتقام بھی تیرے قتل میں شامل ہو جائے گا۔ یہ مجھے گوارا نہیں کہ اللہ کی خاطر خالص عمل میں میرے ذاتی غصے کی شرکت شامل ہوئے؛ چنانچہ جائو‘ تم آزاد ہو۔‘‘ عمرو نے گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر واپس بھاگنا چاہا‘ مگر ذلت و ندامت نے قدموں کو زنجیریں ڈال دیں۔ اس نے جھٹ سے تلوار پکڑ کر حضرت علی ؓ پر حملہ آور ہونا چاہا‘ مگر حیدر کرارؓ نے بجلی کی کوند کی طرح تلوار کو زمین سے اٹھایا اور عمرو کو لاش بنا کر زمین پر گرا دیا‘ یعنی حضرت علیؓ کی جانب سے بار بار امن کی پیشکش تھی‘ زندہ واپس چلے جانے کی پیشکش تھی‘ مگر عمرو کی قسمت کہ اسے لاش ہی بننا تھا۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ مشرکوں نے اپنے اس بڑے آدمی اور سردار کی لاش کی واپسی کی درخواست کی اور ساتھ معاوضے کی پیشکش بھی کی۔ درخواست سرکارمدینہ ﷺ کے حضور پیش ہوئی تو فرمایا: ''کسی معاوضے کے بغیر لاش ان کے حوالے کر دو۔‘‘ (مسند احمد: 2230۔ اسنادہ جیّد)
جی ہاں! یہ لوگ مکّہ سے چل کر مدینہ آئے ہیں‘ پھر خندق کو بھی پار کیا ہے۔ کنٹرول لائن کو کراس کیا ہے۔ کراسنگ کے بعد بھی ان کی طرف سے متواتر متکبرانہ رویہ ہے‘ جارحانہ انداز ہے‘ جبکہ مسلمانوں کی طرف سے متواتر امن و سلامتی کا رویہ ہے اور ساتھ ساتھ بہادری اور موت کی تیاری کا سلیقہ ہے‘ دشمن کو واپس زندہ جانے کی بھی پیشکش ہے‘ اس کی قسمت میں لاش بننا تھا تو لاش کو بھی واپس دینے کا التزام ہے‘ لہٰذا میں کہتا ہوں میرے وزیراعظم نے ابھینندن کو عزت افزائی کے ساتھ واپس بھیجا ہے تو مدینے کی ریاست سے اخذ کر کے ایک جنگی باب نمایاں کیا ہے کہ جو جنگ کے دوران رونما ہوا ہے۔ مدینے کی ریاست کا تجربہ ہے۔ ایسے کردار پر عمران خان کو نوبیل پرائز دینے کی بات ہوئی تو انہوں نے واضح کیا کہ میں اپنے آپ کو اس کا مستحق نہیں سمجھتا۔ اس کا مستحق وہ ہو گا جو کشمیر کا مسئلہ حل کروائے گا۔ جی ہاں! یہ ہے انکساری اور عاجزی‘ جسے عمران خان نے سینے سے لگایا‘ جبکہ میرے حضور سرکارِ مدینہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ''جس نے اللہ کی خاطر عاجزی کو اختیار کر لیا‘ اللہ تعالیٰ اسے اونچا کر دیتے ہیں۔‘‘
مشرکین نے 25 دن تک محاصرہ کیے رکھا۔ سردی بڑی شدید تھی‘ ساتھ تیز ہوا بھی چل رہی تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت حذیفہؓ کو بھیجا کہ دشمن کی خبر لائو۔ ساتھ نصیحت بھی کی کہ کوئی ایسا کام نہ کرنا کہ وہ غضب کا شکار ہو کر فوجی چڑھائی کر دیں۔ حضرت حذیفہؓ خفیہ طریقے سے مشرکوں کے اندر پہنچ گئے۔ کہتے ہیں‘ ابوسفیان آگ سے اپنی کمر سینک رہے تھے۔ میں نے تیر کو کمان میں رکھا اور ابوسفیان کو مار دینے کا ارادہ کیا۔ وہ میری زد میں تھا‘ پھر مجھے حضور ﷺ کا فرمان یاد آگیا؛ چنانچہ میں رک گیا۔ (مسلم:1788)‘ یعنی حضور ﷺ کا اسوہ یہ ہے کہ دشمن واپس جا رہا ہے تو جانے دو۔ خواہ مخواہ اسے برانگیختہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ آج پاکستان کی مختلف جہتوں سے صورتحال ایسی ہی ہے کہ طاقتور فوج اور متحد قوم کے ساتھ ساتھ جنگ کو ٹالنے اور خطے میں امن کی ضرورت ہے‘ سی پیک کو آگے بڑھا کر علاقے میں خوشحالی کی ضرورت ہے‘ لہٰذا دشمن کو چڑانے کی بجائے امن کے ساتھ واپس لے جانے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کی قیادت میں ہماری مسلح افواج اور پوری قوم یہی کر رہی ہے (الحمدللہ)
انڈیا کے ایک دانشور نے انڈین ٹی وی پر اینکر سے کہا: ''ہمارا سامنا ایسے دشمن سے ہے کہ موت کے بعد ان کی اصلی اور حقیقی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ کالم کی تنگ دامانی آڑے ہے‘ وگرنہ میں اس زندگی کے نقشے بناتا کہ وہ کیسی ہے؟ جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایک بار کہا تھا کہ یہی چیز ہمیں بہادر بناتی ہے اور ہم اسی ایمان یعنی شہادت والی موت سے قوت حاصل کرتے ہیں۔ جی ہاں! دشمن جنگ پر مجبور کر دے تو میرے حضوررحمۃ للعالمین ؐ نے خود اپنے بارے میں یہ ارشاد فرما تھا کہ ''میری شدید خواہش تو یہی ہے کہ میں اللہ کے راستے میں شہید ہو جائوں‘ زندہ کیا جائوں اور پھر شہید ہو جائوں۔‘‘(آپﷺ نے مذکورہ جملہ چار بار ارشاد فرمایا:بخاری)۔ حضرت عمرؓ جو اپنے وقت میں ایک سپرپاور کے حکمران تھے‘ شہادت کی موت کی خواہش کی اور اللہ تعالیٰ نے پوری فرمادی۔ ٹیپو سلطان رحمہ اللہ نے اسی برصغیر میں شہادت کی موت کو سینے سے لگایا۔ آج وزیراعظم عمران خان نے برصغیر کے ہیرو کی بات کر کے ریاست مدینہ کی پالیسی کو تازہ کیا‘ اور وہ ہے ''امن کے لیے پابرکاب‘ مگر جارحیت پر شہادت کی موت کے لیے تیار۔‘‘جی ہاں! ہندوستان میں پاکستان سے بڑھ کر تعداد میں مسلمان ہیں۔ امن پسند ہندو بڑی تعداد میں ہیں۔ تین کروڑ مسیحی ہیں۔ سکھ اور دیگر موجود ہیں۔ ہمیں اہل پاکستان کی سلامتی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بسی ہوئی انسانیت بھی عزیز ہے‘ لہٰذا ہماری پہلی اور آخری چوائس امن ہے‘ سلامتی ہے اور صرف امن ہے۔پرُ امن برصغیر: زندہ باد!۔