میرے پاک وطن کی آبادی 20کروڑ سے زائد ہے۔ تین چار کروڑ کے قریب ووٹرز‘ جو ووٹ کاسٹ کرتے ہیں‘ ان سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ اگر آپ کو ملک کا حکمران بنا دیا جائے‘ تو ملک کو سنبھال لیں گے؟ جن کے دلوں میں آخرت کی جوابدہی کا خوف ہے‘ ان کی قلیل سی تعداد کے علاوہ باقی کروڑوں لوگ یہی کہیں گے کہ ہمیں موقع مل جائے تو ہم دودھ کے دریا اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ سیاست دان جو کسی حد تک حکمرانی کے اہل ہوتے ہیں‘ وعدے وہ بھی ایسے ہی کرتے ہیں‘ مگر جب حکمران بنتے ہیں تو پھر وہ جو باتیں کرتے ہیں اور بیانات دیتے ہیں‘ وہ کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں: -1 یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘ درست کرنے میں ٹائم لگے گا۔ -2 ہمارے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ برسوں کی خرابیاں پَل بھر میں ٹھیک کر دیں۔ -3 پچھلی حکومت نے خزانہ ہی خالی دیا ہے ‘اب کچھ وقت مشکل میں گزارنا ہوگا۔ -4 پچھلے حکمران نااہل اور کرپٹ تھے۔ مشکل وقت گزارنا ہوگا‘ پھر حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔
جی ہاں! جو کچھ حد تک اور بعض کافی حد تک تجربہ کار اور اہل حکمران ہیں ‘وہ حکمران بننے کے بعد یوں اپنی بیچارگی کا اظہار کرتے ہیں‘ جبکہ انسان کا حال یہ ہے کہ عام انسان بھی حکمران بننے کا خواب دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ حکمران بن گیا تو پاکستان کے تمام مسائل کو حل کر دے گا۔ ہم ایسے لوگوں کے سامنے اللہ کے رسولؐ کے فرامین رکھ رہے ہیں‘ تاکہ انہیں احساس ہو کہ حکمرانی کی مسند پر بیٹھنے والے لوگ کس قدر بیچارے ہیں۔ حضرت محمد ؐ نے فرمایا ''میری امت میں سے دو قسم کے ایسے حکمران ہیں کہ ان کو میری شفاعت سے محرومی ملے گی۔ یہ حکمران ظلوم اور غشوم ہوگا۔ دوسری قِسم کا حکمران وہ ہے‘ جو مبالغہ آرائی کرتے ہوئے حد سے نکل جانے والا ہے‘‘۔ (صحیحہ:470)
''لسان العرب‘‘ میں امام ابن منظور لکھتے ہیں کہ غشوم سے مراد وہ شخص ہے‘ جو عوام کو خبطی‘ یعنی اپنی پالیسیوں سے نفسیاتی طور پر تباہ حال کردے۔ وہ پوری طاقت استعمال کر کے ان کا مال چھین لے۔ غشوم ایسے شخص کو بھی کہتے ہیں‘ جو رات کو لکڑیاں اکٹھی کرے اور جب اگلا دن ہو تو بغیر دیکھے اور سوچے ‘ان لکڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردے۔ قارئین کرام! اب حکمرانوں کی بیچارگی ملاحظہ ہو۔ پانی والی بجلی جو انتہائی سستی ہے ‘وہ بنائی نہیں۔ تیل سے بنی بجلی انتہائی مہنگی ہے۔ ملک سود پر چل رہا ہے۔
سود کی قسطیں دینے کے لیے آئی ایم ایف جیسے اداروں سے مزید سود لے کر انہی کو لوٹا دیا جاتا ہے اور بجلی‘ تیل اور گیس وغیرہ کو مہنگا کر کے قسطیں ادا کی جاتی ہیں ‘یعنی قسطیں متواتر عوام دے رہے ہیں‘ جو قرض لیا گیا تھا‘ وہ حکمرانوں کی جیبوں میں جا کر باہر چلا گیا‘ یعنی عوام کی معاشی حالت کو کلہاڑے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ حکمران متواتر یہ کرتے چلے آ رہے ہیں اور قیامت کا دن‘ جو پچاس ہزار سال کا انتہائی مشکلوں بھرا دن ہوگا‘ اس دن رحمت دو عالمؐ کی شفاعت سے محرومی کا کوئی فکر ہی نہیں۔ آہ! کس قدر بیچارے اور مسکین یہ لوگ ہیں‘ جنہیں حکمران کہا جاتا ہے۔
میں جب مومنوں کی اماں جان حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بیان کی ہوئی روایت پڑھتا ہوں تو حکمرانوں کی بیچارگی پر مزید ترس آتا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ؛ میں نے اپنے اس گھر (حجرہ مبارک) میں حضورؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ''اے اللہ! جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے‘ پھر ان پر سختی کرے تو آپ بھی ان پر سختی کر دیں اور جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا اور اس کے ساتھ نرمی کر دی تو اس کے ساتھ نرمی کر دیں‘‘۔ (مسلم:4722)
حضورؐ کا ایک اور ارشاد گرامی ہے ''اللہ تعالیٰ چار بندوں سے بغض رکھتے ہیں؛ -1 قسمیں کھا کر مال بیچنے والا -2 تکبر کرنے والا فقیر -3 بڈھا بدکار -4 ظلم کرنے والا حکمران‘‘۔ (سلسلہ صحیحہ:363) جی ہاں! پولیس اور عدالتوں کا نظام ٹھیک نہیں ہوا۔ ظالم آزاد اور مظلوم در در کے دھکے کھاتا ہے۔ معاشرے میں رواا یسے بہت سارے مظالم حکمران کے کندھے پر ہیں۔ اللہ جو شہنشاہ ہیں۔ ایسے حکمرانوں سے بغض رکھ لیا تو ان سے بڑھ کر بیچارہ کون ہوگا؟ جبکہ ریاست ِمدینہ کی حکمرانی کا طرز عمل تو یہ ہے کہ اونٹنیوں‘ گائیوں‘ بھینسوں اور بکریوں کے تھنوں پر ظلم نہ ہو۔ انسانی خون کی حرمت تو بہت بڑی چیز ہے ‘یہاں تو انسانی ہاتھ کا ناخن جانور کے تھن کو زخمی کر کے خون آلود کر دے تو ریاست ِ مدینہ کے حکمران حضرت محمد کریمؐ کو یہ بھی گوارا نہیں۔ حضرت سواد بن ربیعؓ کہتے ہیں؛ میں اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ سے دین کے مسائل دریافت کیے۔ آپؐ نے جوابات دیتے ہوئے یہ حکم بھی ارشاد فرمایا کہ '' جب تم مدینہ سے واپس اپنے (دیہاتی) علاقے میں جاؤ تو اپنے لوگوں کو (میری طرف سے) یہ حکم دو کہ وہ اونٹنی کے بچوں کا خیال کریں۔ ان کے ساتھ مشفقانہ سلوک کریں۔ یہ حکم بھی دیا کہ وہ اپنے ناخن اتار کر رکھیں ‘ایسا نہ ہو کہ دودھ دیتے ہوئے وہ اپنے مویشیوں کے تھنوں کو زخمی کر دیں۔ انہیں چاہیے شقاوت اور سختی سے بچ کر رہیں‘‘۔ (صحیحہ:317)
اللہ اللہ! کس قدر نچلی ترین سطح تک مدینہ منورہ کے حکمران حضرت محمد کریمؐ کی نظر ہے۔ اللہ لگتی بات یہ ہے کہ جس حکمران کی نظر اپنے لوگوں کی عادتوں پر ایسی معاشرتی سطح تک نہ ہو۔ اس شخص کو حکمران کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ایسی نظر‘ ایسی صلاحیت اور ایسی ہمدردی نہ ہونے کے باوجود وہ حکمران بنا پھرتا ہے‘ جبکہ معاشرے کی ہر سطح زیادتی اور ظلم کا شکار ہے تو ایسا حکمران بیچارہ اور مسکین نہیں تو اور کیا ہے کہ دنیا میں چند روز کی ٹھاٹھ کے عوض وہ ا پنی اس زندگی کا نقصان کر رہا ہے ‘جو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ کی زندگی ہے۔ ایسے عظیم اور ناقابل تلافی نقصان پر حکمران بیچارہ اور فقیر نہیں تو اور کیا ہے۔ قابلِ ترس نہیں تو اور کیا ہے؟
حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت محمد کریمؐ نے فرمایا ''جو شخص دس یا اس سے زیادہ افراد کا حکمران بنتا ہے‘ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندھے ہوں گے‘ جنہیں اس کی نیکی ہی کھول سکے گی ‘ورنہ اس کے گناہ اس کو ہلاک کر ڈالیں گے۔ سن لو! حکومت کا آغاز ملامت سے ہوتا ہے۔ درمیان میں ندامت ہوتی ہے اور اختتام قیامت کے دن رسوائی سے ہوگا‘‘۔ (مسند احمد۔ صحیحہ:349)
جی ہاں! دنیا میں ا قتدار کا اختتام ہر ایک کو حسرت کی یادوں کے ساتھ رہتاہے ‘مگر قیامت کے دن کی رسوائی کو وہ بھولا رہتا ہے۔ آہ! کس قدر قابلِ ترس اور بیچارہ ہے ایسا حکمران؟ حضرت محمد کریمؐ ایسے حکمران کے لیے اگلے جہان کا ایک منظر بیان فرماتے ہیں کہ ''عنقریب وہ وقت آنے والا ہے‘ جب حکمران تمنا کرے گا کہ کاش وہ ثریا (ملکی وے کہکشاں) سے (زمین پر) گِر جاتا‘ مگر لوگوں کے امور کی نگرانی کرتے ہوئے کسی معاملے کا حکمران نہ بنتا‘‘۔ (صحیحہ:361)
حکمرانوں کے بہت سارے شوق ہوتے ہیں‘ جن میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ کنکریٹ کے بڑے بڑے منصوبے بنائیں۔ حکومتی عمارات بنائیں سڑکیں‘ ائیر پورٹ وغیرہ بنائیں‘ پھر ان پر ان کے نام کی تختیاں لگیں‘ وہ اپنے دستِ مبارک سے افتتاح فرمائیں۔ یوں یہ ایک تاریخ بن جائے گی۔ اس کا نام زندہ رہے گا۔ نفس کی یہ خواہش اس قدر شدید ہوتی ہے کہ بعض حکمران نامکمل منصوبے پر افتتاح کی تختیاں لگا دیتے ہیں۔ آنے والا حکمران اپنی تختی لگا دیتا ہے۔ اب پرانا حکمران شور ڈالتا ہے کہ یہ تو منصوبہ میرا تھا۔ میں نے بنایا تھا۔ نیا حکمران کہتا ہے؛ وہ تو نامکمل تھا۔ ادھورے پر تم نے نام لکھوایا تھا۔ مکمل میں نے کیا ہے۔ میں کہتا ہوں فرشتے دیکھ کر کہتے ہوں گے۔ انسانی بچے کھلونوں پر نام لکھوانے کے چکر میں لڑ رہے ہیں۔ کسی فرشتے کی ؛اگر جناب اسرافیل سے ملاقات ہو اور وہ انسانی بچوں کی لڑائی کا بتائے تو وہ حیرت کا اظہار کرے کہ میں تو صور پھونکنے والا ہوں۔ ساری کائنات بھک سے ہوا ہو جائے گی۔ اپنا وجود کھو دے گی۔ قرآن بتلاتا ہے۔ آسمان نئے بن جائیں گے۔ زمین ایک اور زمین کے ساتھ بدل دی جائے گی۔ سب انسان اپنے اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہی کے لئے کھڑے ہوں گے۔ تاریخ کی کتابیں‘ ٹیکنالوجی ترقی کے زینے حکمران کے سفینے اور طنطنے کہاں ہوں گے کہ جہاں تھے‘ وہ زمین باقی نہیں‘ جس آسمان تلے تھے‘ وہ آسمان باقی نہیں۔ اب تو اعمال کا رجسٹر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھ لیا اگر کہ ذرا بتلا: مجھے اے حکمران کہلانے والے! پیسہ تو میرے مسکین بندوں کا تھا‘ جنہیں تو نے اکٹھا کیا۔ اس میں سے کروڑوں اور اربوں کی کرپشن بھی کی پھر اپنا نام بھی اے ریاکار! تو نے لکھوایا۔ اتنے ہزار تری فلاں فلاں نیکیوں کا یہ عوضانہ ہو گیا۔ باقی حساب دو۔ اللہ اللہ! حکمران سوچیں تو رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ صدقے قربان جاؤں اپنے محبوب گرامی حضرت محمد کریمؐ کی حکمرانی پر کہ نہ تاج تھا۔ نہ تخت تھا۔ نہ محل تھا۔ نہ کسی بلڈنگ۔ نہ کسی پہاڑ پر نام لکھا تھا ‘مگر حکمرانی کا انداز ایسا پُر رحمت اور عادلانہ تھا کہ پتھر سلام کرتے تھے۔ فضاؤں میں آج بھی اذان کی صورت نامِ مصطفی ''محمد رسول اللہ‘‘ گونجتا ہے۔ ہر زباں پر درود شریف کا ورد ہوتا ہے۔
حکمرانو! بیچارگی سے بچنا چاہتے ہو تو سرکارِ مدینہؐ کی حکمرانی جیسا طرزِ عمل اپنا لو۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں۔ اپنے حکمرانوں کی ہمدردی میں سب کے لئے دعا گو ہوں۔