چند دن قبل آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور صاحب نے ایک بھرپور پریس کانفرنس کی۔ پاک وطن کو جو اندرونی چیلنجز درپیش ہیں‘ ان پر اظہار خیال کیا۔ صحافیوں کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔ مذکورہ تفصیلات میڈیا میں آ چکیں‘ تاہم میرا موضوع ان کا یہ جملہ ہے کہ میرے چیف جناب محترم جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے مجھے ہدایت کی ہے کہ ''بیٹا پیار سے کام لینا ہے‘‘ میجر جنرل آصف غفور نے اس سے قبل بھی ایک پریس کانفرنس میں یہ جملہ بولا تھا کہ ''ہم حالت ِجنگ میں ہیں‘ ہم بھی انسان ہیں غلطی کر سکتے ہیں‘ آپ نشاندہی کریں‘ ہم اصلاح کریں گے‘‘۔
گزشتہ جمعۃ المبارک جو رمضان کریم کا پہلا جمعہ تھا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا ''ہمارے دل تمام لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہم ان خاندانوں کے دکھ میں برابرکے شریک ہیں اور لاپتا افراد کو تلاش کرنے کی کوششوں میں ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہزاروں فوجی جوانوں نے اپنے ہم وطن پاکستانیوں کے تحفظ کیلئے جانیں قربان کیں وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے‘‘۔
آج وطن ِعزیز جن حالات سے گزر رہا ہے‘ مدینے کی ریاست بھی اپنے قیام کے سال ڈیڑھ سال بعد ایسے ہی‘ بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر خطرناک اندرونی مسائل سے دوچار تھی۔ چیلنج کیا تھا اور اس کا حل کیسے نکالا گیا۔ اس ضمن میں ریاست ِمدینہ کے حکمران حضرت محمد کریمؐ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن کعب‘ حضورؐ کے صحابی سے روایت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مکہ کے کفار نے عبداللہ بن ابی اور انصار کے دونوں قبیلوں اوس اور خزرج کے بت پرست لوگوں کو ایک خط کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ تم لوگوں نے حضرت محمدؐ اور ان کے ساتھیوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔ ہم اللہ کی قسم کھا کر سکتے ہیں کہ تم ان لوگوں کے خلاف جنگ کرو یا ان کو اپنے علاقے سے نکال دو‘ ورنہ ہم سب مل کر تم پر حملہ کریں گے۔ یہ خط عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست دوستوں کو پہنچا تو وہ اللہ کے رسولؐ کے خلاف لڑنے کو ایک جگہ اکٹھے ہو گئے۔ اللہ کے رسولؐ کو یہ خبر ملی تو آپؐ ان کے مجمع میں تشریف لے گئے اور انہیں مخاطب کر کے فرمایا ''قریش کی دھمکی سے تم لوگ بہت زیادہ متاثر ہو گئے ہو‘ یاد رکھو! وہ تم لوگوں کو اس قدر نقصان نہیں پہنچا سکتے‘ جس قدر تم لوگ اپنے ہاتھوں کے ساتھ خود اپنا نقصان کر بیٹھو گے‘ کیا تم لوگ اپنے (مسلمان ہو جانے والے) بیٹوں اور بھائیوں سے جنگ کرو گے‘‘۔ ان لوگوں نے حضورؐ کی یہ بات سنی تو منتشر ہو گئے‘‘ (ابو داؤد:3004 صحیح)ریاست مدینہ کے حکمران رحمتِ دو عالمؐ نے اپنی ریاست کے شہریوں کو دلیل کے ساتھ سمجھایا۔ پیار کے ساتھ سمجھایا اور سارے باغیانہ منصوبے کو ناکام بنا دیا۔ فتنے کا سردارتو عبداللہ بن ابی تھا۔ وہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ اب اس مسئلے پر لوگ اسکے ساتھ نہ تھے‘ مگر میرے حضورؐ نے اسے بھی نہ چھوڑا۔ اس کی شرارتوں کے باوجود ہمیشہ اس کی عزت کا خیال رکھا۔ وہ پکا منافق تھا‘ مگر حضورؐ نے مدینے کی ریاست کے اندرونی استحکام کی خاطر پیار سے بھی کام لیا۔ ہاں! اگر وہ حملے کرتے تو تب ان کا کوئی لحاظ نہ تھا۔ تلوار کے ساتھ ان کے فتنے کا وجود ختم کر دیا جاتا۔ آج بھی جو لوگ انڈیا وغیرہ کی شہ پر پا کستان میں حملے کرتے ہیں‘خودکش دھماکے کرتے ہیں۔ ایسے دہشت گردوں کیلئے ادلے کے بدلے کی سخت سزا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری سول جمہوری حکومتوں کا جوکام تھا‘ انہوں نے نہیں کیا؛ چنانچہ مجبوری کے عالم میں جنرل (ر) راحیل شریف کے دور میں پارلیمنٹ سے فوجی عدالتوں کی منظوری لی گئی۔ دہشت گرد مجرموں کو پھانسیاں دی گئیں‘ پاکستان کو امن ملا۔ آج ہم اسّی نوّے فی صد تک امن کی زندگی اس لئے جی رہے ہیں کہ بقول آئی ایس پی آر ہمارے سات ہزار جوانوں نے جان کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ اب‘ فوجی عدالتوں کو توسیع نہیں دی گئی‘ مگر سوال یہ ہے کہ پولیس اور عدلیہ کے نظام کو ٹھیک کیا گیا؟ محترم چیف جسٹس سعید کھوسہ صاحب نے توجہ دلائی کہ ہم نے تجاویز دے دی ہیں‘ اب پارلیمنٹ سے منظوری عوامی نمائندوں کا کام ہے۔ جی ہاں! توسیع نہ دینے پر بھی آئی ایس پی آر نے پیار کا پیغام یوں دیا کہ عوامی نمائندے فوجی عدالتوں کو توسیع نہیں دیتے ‘تو یہ ان کی مرضی ہے۔ ہمارا اصرار نہیں‘ یعنی عدم اصرار میں بھی پیار ہے کہ ہم نے تو اپنے پیاروں کی قربانیاں دے کر امن دے دیا۔
پاکستان میں دہشت گردی کی جو جنگ مسلط ہوئی ‘اس میں دو طرح کے دہشت گرد تھے۔ ایک وہ جو مذہبی دہشت گرد تھے۔ انہیں اسلام میں ''خوارج‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ حضرت علیؓ پر فتویٰ لگا کر انہی لوگوں نے جناب عالی مقام کو شہید کیا تھا۔ دوسرے دہشت گرد وہ ہیں‘ جو قوم پرست ہیں۔ انہوں نے علیحدگی کے نام پر دہشت گردی کی ہے۔ آئی ایس پی آر نے ایسے لوگوں میں سے ان لوگوںکے ساتھ پیار کیا ہے ‘جو غلط پراپیگنڈے کا شکار ہوئے اور ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں میں چلے گئے ‘مگر وہ قتل میں شریک نہ تھے۔ انہیں کہا گیا کہ ہتھیار پھینکیں‘ ریاست انہیں سہولتیں فراہم کرتی ہے‘ وہ پرامن زندگی گزاریں۔ پاکستان کی ریاست نے تو یہاں تک بھی پیار کیا کہ ایک ایسے ہی گروہ کے دو لوگوں کو پارلیمنٹ میں بھی پہنچنے دیا۔ اب وہ قومی اسمبلی میں اپنی آواز بلند کرتے ہیں‘ مگر انہیں یہ تو خیال کرنا چاہیے جب ریاست ان کے ساتھ پیار کرتی ہے۔ آئی ایس پی آر کا ادارہ پیار سے بات کرتا ہے‘ تو وہ بھی اپنے جائز مطالبات اور زیادتی وغیرہ کی بات ضرور کریں‘ جیسا کہ وزیراعظم صاحب نے بھی کہا‘ مگر پاکستان کے خلاف اور ان سات ہزار شہیدوں کے ادارے کے خلاف مت بات کریں‘ جنہوں نے اہل پاکستان کو امن دینے کیلئے اپنا خون دیا۔
میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ حدوں کو کراس نہیںکرنا چاہیے۔ میں خود ایسے کتنے ہی شہیدوں کے گھروں میں گیا ہوں۔ کالم لکھے ہیں۔آرمی پبلک سکول پشاور کے ننھے شہیدوں سے لیکر سپاہیوں‘ افسروں اور کپتانوں کے گھروں میں گیا ہوں۔ میری اہلیہ محترمہ بشریٰ امیر نے ان کی عظیم ماؤں‘ بیویوں اور بہنوں کے فخریہ جملوں پر ایمان افروز مضامین لکھے ہیں۔ ان کی وردیوں کو دیکھا ہے۔ یہ ہم سب کا فخر ہے۔ اس کا خیال کیجئے۔ باقی اظہار ِرائے کی آزادی ہے‘ وہ کیجئے۔ زیادتی ہے ‘تو اسے بیان کیجئے۔آپ کو کون روکتا ہے؟آئی ایس پی آر نے لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے‘ تلاش کی کوششوں میں ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔وہ مددکی دعوت دے رہے ہیں‘ تو ان کی مدد اور تعاون کو حاصل کرنا چاہیے۔ گزارش یہ ہے کہ ہم سب مسلمان ہیں۔ اور پاکستانی ہیں۔ وطن ِعزیز کے شہری کی حیثیت سے ہم سب ایک خاندان ہیں۔‘جس طرح خاندان میں ایک بڑا خاندانی مسائل کو حل کر دیتا ہے‘ اسی طرح جناب میجر جنرل آصف غفور صاحب سے مکالمہ کر کے ایک مشفق اور متفق شخصیت کو ذمہ داری دے دی جائے اور وہ ہمدردی اور پیار کے ساتھ تمام دکھی دلوں پر مرہم رکھ دے‘ جو مسائل کا حل نکال دے۔ جی ہاں! غیروں کی طرف نہ دیکھیں۔ اپنے مسائل اپنے اندر حل کریں اور پاکستان کو مدینے کی ریاست بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ (پاکستان :زندہ باد!)