قمر زمان کائرہ ایسے سیاستدان ہیں جن پر نیب کی طرف سے کوئی الزام نہیں۔پڑھے لکھے دانشور سیاسی لیڈر ہیں۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا اسامہ کائرہ ٹریفک حادثے میں اپنے اللہ کریم سے جا ملا۔ ''انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب کا یہ جملہ حوصلوں کو ہمالیہ بنا دینے والا ہے کہ ہم سب اللہ کی تخلیق ہیں‘ اسی کی ملکیت ہیں‘ اسی کی دی ہوئی زندگی کی وجہ سے زندہ ہیں اور آخر کار اسی کی جانب واپسی کا سفر اختیار کرنے والے مسافر ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ (اپنے بندے کو خوشخبری دیتے ہوئے) آگاہ کرتے ہیں۔ میرے اس مومن بندے کے لئے میرے پاس جنت کے علاوہ اور کوئی بدلہ نہیں جس کی کوئی محبوب اور پیاری چیز میں دنیا سے قبض کر لوں اورو ہ اس پر صبر کر کے ثواب کی امید رکھے‘‘۔ (بخاری:6424)۔حدیث میں ''صفیّہ‘‘ کا لفظ ہے جس کا معنی انتہائی پیاری اور محبوب نعمت ہے کہ جس سے جدائی انسان کو کسی صورت اور کسی قیمت پر گوارا نہ ہو۔ جی ہاں! سرفہرست بیوی اور اولاد ہے۔اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ کی چار بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹی حضرت فاطمہؓ تھیں۔ حضورؐ کو ان سے بہت زیادہ محبت تھی۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنی زندگی میں تین بیٹیوں کو اپنے سے جدا ہوتے ہوئے دیکھا۔ تین بیٹوں کی جدائی کے غم کو برداشت فرمایا۔ جب حضورؐ اپنی آخری بیماری میں اپنے اللہ کے پاس تشریف لے گئے تو اس دوران آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ خاندان میں سے حضور کے بعد سب سے پہلے دنیا کو چھوڑنے والی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہؓ ہوں گی۔ پھر ایسا ہی ہوا چھ ماہ بعد حضرت فاطمہؓ بھی اپنے اللہ سے جا ملیں۔
صحافی سہیل وڑائچ کا پروگرام دیکھا تو اپنے گھر کے دروازے پر ابتدائی استقبال اسامہ کائرہ نے کیا۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ باپ کا کیسا اور کس قدر لاڈلا تھا۔ اب یہ اور اس طرح کی دیگر بہت ساری یادیں ہیں جن کے ساتھ اسامہ کے والدین کو باقی زندگی گزارنی ہے۔ جدائی کی جب یاد آئے گی ذہن میں بیٹے کا خاکہ بنے گا۔ اس موقع پر سہارا اور دلاسا و تسلی صرف ایمان کی ہوگی۔ ایمان جس قدر مضبوط ہوگا اسی حساب سے حوصلے اور برداشت کا گراف بلند اور بالا ہوگا۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنے ایک صحابی کے حوصلے کو کیسے بلند کیا۔ دکھی ماں باپ کی خدمت میں سیرتِ رسولؐ کا واقعہ حاضر ہے ''حضرت قرۃؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا تو اپنے بچے کو اپنے ساتھ لایا کرتا تھا۔ حضورؐ نے ایک بار اس سے پوچھ لیا کہ لگتا ہے تمہیں اپنے اس چھوٹے بچے سے بڑی محبت ہے۔ جواب میں کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے اپنے اس بیٹے سے اس قدر محبت ہے کہ میں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ آپؐ سے بھی اسی طرح محبت کرے جس طرح میں اپنے اس بیٹے سے محبت کرتا ہوں۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ مذکورہ شخص ایک عرصے تک حضورؐ کی مجلس میں نہیں آیا۔ حضرت قرۃؓ کہتے ہیں پھر ایک دن حضورؐ نے مجھے مخاطب کر کے پوچھا: وہ فلاں آدمی کوکیا ہوا کہ عرصے سے دکھائی نہیں دے رہا۔ اس پر بتایا گیا کہ مذکورہ آدمی کا وہ بیٹا فوت ہو گیا جس کے ساتھ وہ آیا کرتا تھا۔ اس پر حضورؐ اس آدمی سے ملے اور فرمایا اللہ کے بندے (بچے کی جدائی کے غم میں گھر ہی بیٹھ گیا) کیا تو اس بات سے راضی نہیں ہو تاکہ (صبر کرے اور پھر) جنت کے جس دروازے سے بھی جائے گا اسی پر تیرا بیٹا تیرا انتظار کر رہا ہوگا۔ تجھے دیکھتے ہی دوڑتا چلا آئے گا اور تیرے لئے جنت کا دروازہ کھول دے گا۔ (مسند احمد: 15680، مسند علی بن جعد۔صحیح) ۔حضرت ابو سنان رحمہ اللہ کہ جو تبع تابعی ہیں کہتے ہیں کہ میرا لڑکا جس کا نام سنان تھا فوت ہو گیا۔ میں نے اسے قبر میں اتارا۔ اس وقت جناب ابو طلحہ خولانی رحمہ اللہ قبر کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ جب میں قبر سے باہر نکلنے لگا تو ابو طلحہ خولانی نے میرا ہاتھ تھاما اور میں قبر سے باہر آ گیا۔ خولانی کہنے لگے: اے ابو سنان! تجھے خوشخبری نہ سناؤں۔ میں نے کہا کیوں نہیں؟ کہنے لگے: مجھے حضرت ضحاکؓ نے بتلایا اور کہنے لگے کہ میں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ''جب کسی بندے کا بیٹا یا بیٹی فوت ہوتے ہیں تو (فرشتے روح کو لے کر اللہ کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں) تب اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں۔ تم نے میرے بندے کے بچے کی روح کو اپنے قبضے میں لیا؟ وہ عرض کرتے ہیں جی ہاں! (اللہ کریم دوبارہ پوچھتے ہیں! اچھا۔ تم نے میرے بندے کے دل کا پھل توڑ لیا۔ فرشتے کہتے ہیں جی ہاں! اللہ پوچھتے ہیں: بتلاؤ! تب میرے بندے نے کیا کہا۔ وہ کہتے ہیں: آپ کی تعریف کی اور انا للہ... پڑھا تب اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں فرشتو! میرے اس بندے کے لئے جنت میں محل بنا دو اور اس پر تختی لگا دو کہ یہ ''بیت الحمد‘‘ ہے۔ (ترمذی: 1021۔ حسن) یعنی میرے بندے نے مشکل ترین وقت میں میرا شکوہ نہیں کیا بلکہ الحمد للہ کہا اور انا للہ و انا الیہ راجعون کہا۔ قارئین کرام! قمر زمان کائرہ کے ریمارکس پڑھ کر میں نے ایسا کالم لکھنے کا فیصلہ کیاکہ جس سے اسامہ اور حمزہ بٹ کے والدین ہی نہیں بلکہ اس دنیا کو چھوڑ جانے والے ہر اسامہ اور حمزہ کے والدین کو سہارا دوں تو حضرت محمد کریمؐ کے پیغام سے سہارا دوں۔ اصل اور حقیقی سہارا یہی ہے ‘باقی میں کہیں دور تھاحاضر نہ ہو سکا ۔اسامہ اور حمزہ بٹ کے والدین کی خدمت میں ضرور حاضر ہوں گا(ان شاء اللہ)
اصل شہید تو معرکے کا شہید ہوتا ہے کہ جسے غسل، کفن اور جنازے کی ضرورت نہیں مگر قربان جاؤں حضور رحمت دو عالمؐ پر کہ آپؐ نے شہادت کی اقسام میں اضافہ کرتے ہوئے حادثاتی موت کا شکار ہونے والے کو بھی شہید قرار دیا۔ معلومات کے مطابق اسامہ کائرہ دو موٹر سائیکل سواروں کو بچاتے ہوئے خود حادثے کا شکار ہو گیا یعنی دو زندگیوں کو بچا کر خود اور اپنے دوست کے ہمراہ آخرت کی سڑک پر چل پڑا اللہ تعالیٰ اس کو دو زندگیاں بچانے کا اجر و ثواب عطا فرمائے اور دونوں دوستوں کو فضیلت والی شہادت کا مقام عطا فرمائے (آمین)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ''جب کسی شخص کی موت کسی خاص جگہ پر آنا مقدر ٹھہر جاتی ہے تو اس کی کوئی دنیاوی ضرورت اسے وہاں لے جاتی ہے۔ جب وہ اپنے آخری قدم تک پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ قیامت کے دن زمین کہے گی۔ میرے مالک! آپ نے میرے پاس جو امانت رکھی تھی وہ یہ حاضر ہے۔ (ابن ماجہ: 4263۔ترمذی:صحیح)
جی ہاں! اسامہ اور حمزہ بٹ کے آخری قدموں کی منزل حادثے والے درخت کی زمین تھی۔ تقدیر یہی تھی۔ باقی سب باتیں ہیں۔ اب اگلی منزلوں پر ملاقاتوں کا یقین اور امید رکھنی چاہیے۔ مرنے کے بعد علّیّین یا جنت میں ملاقات ہوگی۔ قیامت کے دن جب زمین اپنی امانت پیش کرے گی تو روح آسمان سے آئے گی اور زمینی جسم کے ساتھ نئے انداز سے مل کر انسان کی صورت میں کھڑی ہو جائے گی۔ پھر آخری اور تیسری منزل پر جنت میں ایک ملاقات نہیں ملاقاتیں ہوا کریں گی۔ آئیے! سب اس کے لئے تیاری کریں۔ رمضان تیاری ہی کا تو مہینہ ہے۔