اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے چہرے کا گیارہ بار ذکر فرمایا ہے: (1) مشرق و مغرب اللہ ہی (کی فرمانبرداری) کیلئے ہے‘ لہٰذا (قبلے کا رُخ معلوم نہ ہو) تو تم لوگ جس سمت کی جانب رُخ کر لُو اُدھر کو ہی اللہ کا چہرہ ہے (البقرہ:115)‘ (2) تم لوگ (میرے رسولؐ کے صحابہ) جو بھی خرچ کرتے ہو ‘اللہ کے چہرے کے (دیدار کی) طلب میں خرچ کرتے ہو (البقرہ:272)‘ (3) ان لوگوں کی کیا بات ہے کہ جنہوں نے اپنے رب کے چہرے کو دیکھنے کی خواہش میں نماز کو قائم کر لیا‘ پھر ہم نے انہیں جو کچھ عطا کیا اس میں سے کبھی چپکے اور کبھی اعلانیہ خرچ کر ڈالا۔ مزید یہ کہ وہ ایسے لوگ ہیں‘ جو برائی کو اچھائی کے ساتھ دور کرتے ہیں؛ یہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کیلئے اجر اگلے جہان کی رہائش ہے (الرّعد:22)‘ (4) (رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ لہٰذا اسے مومن) قریبی رشتہ دار کو اس کا حق دو‘ مسکین اور مسافر کو (اپنے مال میں سے) دو‘ ایسا کرنا ان لوگوں کیلئے سرا سر خیر کا باعث ہے ‘جو اللہ کے چہرے کو دیکھنے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں(الرّوم:38)‘ (5) زکوٰۃ میں سے تم لوگ جو مال بھی اس وجہ سے دیتے ہو کہ اللہ کے چہرے (کی دید) کا ارادہ کیے ہوئے ہو تو (یاد رکھو) ایسے لوگ ہی (اپنے مال کو دنیا و آخرت میں) کئی گنا بڑھانے والے ہیں (الرّوم:39)‘ (6) اس (زمین) پر جو کچھ بھی ہے‘ سب فنا ہو جانے والا ہے۔ باقی صرف تیرے رب کا چہرہ ہی رہے گا جو پُرجلال اور بھرپور عزت والا ہے (الرحمان:27-26)‘ (7) (نیک کردار لوگ) کہتے ہیں؛ ہم تم لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں تو صرف اللہ کے چہرے کی خاطر کھلاتے ہیں‘ لہٰذا ہم تم سے کسی بدلے اور شکریے کی خواہش نہیں رکھتے (الانسان:9)‘ (8) وہ ایسا مومن ہے کہ وہ اپنا مال محض (اس لئے ضرورتمندوں) کو دیتا ہے کہ پاک ہو جائے؛حالانکہ اس پر کسی کا احسان نہیں کہ بدلہ چکائے۔ وہ تو صرف اور صرف اپنے رب کے چہرے کو دیکھنے کی طلب میں ایسا کر رہا ہے‘ جو سب سے اعلیٰ ہے (اللّیل:20,19,18)‘ (9) (میرے رسول! ان مشرک سرداروں کے کہنے پر) ان لوگوں کو اپنے سے دور ہٹانے کا (خیال بھی نہ کرنا) کہ جو لوگ اپنے رب کو صبح و شام پکارتے رہتے ہیں؛ وہ تو اللہ کے چہرے (کو دیکھنے کا) پروگرام بنائے بیٹھے ہیں (الانعام:52)‘ (10) (میرے پیارے رسولؐ) اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے ساتھ رکھئے جو دن کے اگلے اور پچھلے وقت اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں؛ وہ اس کے چہرے (کا دیدار) چاہتے ہیں (الکہف:28)‘ (11) اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود بنا کر مت پکارو؛ اس کے سوا کوئی معبود نہیں؛ ہر شے ہلاک ہو جانے والی ہے‘ صرف اس (اللہ) کا چہرہ (باقی رہے گا) حکم اسی کا ہے اور اسی کی طرف تم لوگ واپس جانے والے ہو (القصص:88)۔
قرآن کے گیارہ مقامات ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوا کہ نیک کردار مسلمانوں کا یہ وصف ہے کہ وہ سینوں میں اپنے خالق و مالک کے دیدار کی تڑپ لئے ہوئے ہیں؛ چنانچہ ان کی شدید ترین تڑپ والی خواہش کو اللہ تعالیٰ پورا کریں گے۔ حضرت محمد کریمؐ نے فرمایا ''جب اہلِ جنت جنت میں چلے جائیں گے اور جہنمی دوزخ میں چلے جائیں گے تو اس وقت ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا؛ اے جنت والو! اللہ نے تم سے ایک وعدہ کیا تھا‘ وہ چاہتا ہے کہ اسے بھی پورا کر دیا جائے۔ وہ کہیں گے؛ وہ کونسا وعدہ ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے میزان بھاری نہیں کر دیئے؟ کیا اس نے ہمارے چہرے روشن (خوبصورت) نہیں کر دیئے؟ ہمیں جنت میں داخل اور آگ سے محفوظ نہیں کر دیا؟ حضورؐ نے فرمایا؛ تب ان کیلئے پردہ ہٹا دیا جائے گا اور وہ اپنے رب کا دیدار کریں گے‘ پھر فرمایا: اللہ کی قسم! ان لوگوں کو اب تک (جنت میں) ایسی کوئی نعمت نہیں ملی ہوگی ‘جو اس دیدار سے بڑھ کر محبوب ہو اور ان کی آنکھوں کو دیدار سے بڑھ کر ٹھنڈک ملی ہو (مسلم:181۔ مسند احمد:18965)۔ قارئین کرام! دنیا میں موجودہ انسانی وجود کے ساتھ انسان اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا؛ حتیٰ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر رسول نے بھی طور پہاڑ پر اللہ کو دیکھنے کا اصرار کیا تو نہیں دیکھ سکے۔ معمولی سے نورانی جلال نے پہاڑ کو سرمہ بنا ڈالا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بیہوش ہو کر گر گئے۔ جنت میں ایسا وجود ملے گا کہ جو اپنے رب کریم کے دیدار کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔
اپنے خالق کے دیدار کی خواہش انسان کی فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فطری تقاضے کو جنت میں پورا فرمائیں گے۔ اس دنیا میں یہ تقاضا پورا نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ''اگر اللہ تعالیٰ کبریائی کی چادر کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی کرنیں حد نگاہ تک ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیں (مسلم: 179-445)‘ یعنی موجودہ وجود کے ساتھ انسان اپنے خالق کو کیا دیکھے گا یہاں تو ساری کائناتوں کا وجود ختم ہو جائے گا۔ باقی اللہ تعالیٰ کا چہرہ کیسا ہے اس کی کیفیت کو ہم جان نہیں سکتے ‘لہٰذا اللہ تعالیٰ کا چہرہ ویسا ہی ہے‘ جو اس کی عظیم ذات کے لائق ہے ہم صرف چہرے (وَجْہٌ) پر ایمان رکھتے ہیں۔
اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا (مسلم:2441)‘ بائبل میں ہے؛ ''خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا‘‘ (پیدائش:27)‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کے چہرے کو خصوصی تکریم اور عزت افزائی سے نوازا ہے‘ اسی لئے حضرت محمد کریمؐ نے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا ہے۔ یہودی‘ عیسائی اور مسلمان۔ تینوں کیلئے الہامی تعلیم یہ ہے کہ انسانی چہرے کی عزت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے نہ مارا جائے‘ اسی لئے جب امریکہ کے سابق صدر بش کے چہرے پر عراق میں ایک مسلمان صحافی نے جوتا مارنے کی کوشش کی تھی تو میں نے اسے برا جانا تھا۔ محترم وزیر اعظم عمران خان کو جب پنجاب یونیورسٹی کے چند طلبا نے مارا تھا اور ان کے معزز چہرے کا کوئی لحاظ نہ کیا تھا تو میں نے مذمت میں کالم لکھا تھا۔ میاں نواز شریف کو مدرسے میں بلا کر وہاں کے ایک طالبعلم نے جوتا مارنے کی کوشش کی تھی تو میں نے مذمت میں کالم لکھا تھا۔ اب تحریک انصاف کے ایک وزیر نے ملک کے معروف صحافی کے چہرے پر شادی کی تقریب میں طمانچہ مارا ہے تو سچی بات ہے دل کو یہ عمل دکھی کر گیا ہے۔ ایک وزیر نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ قومی اسمبلی میں جن ممبران نے وزیراعظم کی موجودگی میں سپیکر کے سامنے احتجاج کیا ہے انہیں جوتے مارنے چاہیں۔ میں ڈرا اور سہما ہوا ہوں کہ کہیں معزز ممبران ایک دوسرے کے چہروں پر طمانچے اور جوتے نہ مارنے لگ جائیں۔ محترم وزیر اعظم عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ اس روش کو روکیں اور انسانی چہروں کے احترام کو یقینی بنائیں۔
آج سے 25سال پہلے کی بات ہے‘ میں ایک ماہانہ میگزین کا ایڈیٹر تھا۔ دفتر میں ترسیل منیجر ضیاء اللہ تھے۔ وہ محترم شفیق صاحب کے دفتر میں سٹینو گرافر بھی تھے۔ محترم شفیق صاحب ‘مولانا ثناء اللہ امرتسری کے نواسے تھے۔ پنجاب میں پولیس کی سپیشل برانچ کے سربراہ تھے۔ ان کے ساتھ میرا شفقت بھرا تعلق تھا۔ بعد میں انہوں نے امریکہ سے پی ایچ ڈی کی اور پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ایک دن میں حسب ِمعمول اپنے دفتر میں آیا تو میرے دفتر کے ایک صاحب مجھے ملے تو چھم چھم آنسو گرنے لگے۔ میں نے پیار سے سینے سے لگایا اور وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ مجھے فلاں تھانے کے ایک کانسٹیبل نے روکا۔ میں رک گیا تو دوران گفتگو اس نے میرے چہرے پر سرعام تھپڑ رسید کر دیا۔ میں نے کہا: میرے چہرے پر سنت رسول ہے ‘اس کا بھی تم نے خیال نہیں کیا تو اس نے تکبر کے ساتھ ڈاڑھی کو بھی برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ میں نے اپنے ساتھی کو ہمراہ لیا۔ شفیق صاحب کو جا کر دکھڑا سنایا۔ انہوں نے لاہور سٹی کے انچارج کو فون کیا اور مجھے کہا: ان کے پاس چلے جائیں‘ میں نے لاہور شہر کے پولیس افسر کو جا کر ساری بات بتلائی۔ انہوں نے میرے بیٹھے بیٹھے واقعہ کی تصدیق کرلی اور کہا؛ آپ ابھی تھانے چلے جائیں۔ میں تھانے گیا تو ایس ایچ او نے سارا عملہ لائن میں کھڑا کر رکھا تھا۔ کہا؛ ان میں سے پہچان لو۔ کس نے طمانچہ مارا۔ میرے دفتر کے مذکورہ آدمی نے بندہ پہچان لیا۔ کانسٹیبل نے اعتراف کر لیا۔ تھانیدار نے کہا: اب آپ کی مرضی ہے‘ طمانچہ مار کر بدلہ لے لو یا معاف کر دو۔ میں نے تھانیدار کے سامنے کانسٹیبل کو سمجھایا۔ کمزوروں پر ظلم نہیں کرتے اور ساتھ ہی میرے ساتھی نے اسے معاف کر دیا۔ سارا مسئلہ ایک دن میں حل ہو گیا۔ میں اس دور کے ایسے پولیس والوں کو آج بھی دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے محترم وزیر فواد چودھری کو اللہ کے پرجلال چہرے کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں کہ سمیع ابراہیم صاحب نے آپ کے بارے میں چینل پر زیادتی والے بول بھی بولے ہیں تو اس کا جواب طمانچہ نہیں ڈائیلاگ ہے ‘لہٰذا سمیع ابراہیم صاحب نے پولیس کے ہاں جو ایف آئی آر درج کروائی ہے‘ اس کی آپ کے ہاں حیثیت نہ ہوگی۔ آپ اللہ کے ہاں درج ایف آئی آر کو سامنے رکھیں۔ اللہ ذوالجلال والا کرام کے جلالی چہرے سے ڈریں۔ سمیع ابراہیم کے سوالی چہرے سے معذرت کر لیں۔ عزت ‘اسی میں ہے۔ باقی آپ کی مرضی ہے۔ اللہ توفیق دے!( آمین)