"AHC" (space) message & send to 7575

انسان کب مرتا ہے؟

نبض بند‘ دل کی دھڑکن ختم‘ سانس کی آمد و رفت مفقود پھیپھڑے نہیں رہے پھول۔ ان واضح علامتوں کے بعد کون کہتا ہے کہ مذکورہ انسان زندہ ہے۔ ہر کوئی یہی کہے گا کہ انسان مر گیا ہے۔ جی ہاں! عمومی طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ مذکورہ علامتوں کے بعد انسان کو مُردہ سمجھا جاتا ہے اور وہ مُردہ ہی ہوتا ہے ‘مگر بعض اوقات مذکورہ علامتوں کے باوجود انسان زندہ ہوتا ہے۔ ایسا کئی بار ہوا کہ مُردے کو غسل دیا جا رہا تھا کہ اس دوران وہ زندہ ہو گیا۔ قبر میں ڈالا جا رہا تھا کہ زندہ ہو گیا۔ مُردہ خانے کے ریفریجریٹر میں رکھا گیا اور پھر وہ زندہ ہو گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مردے کیسے زندہ ہو گئے؟ جبکہ جو مردہ ہو گیا‘ اس کا زندہ ہونا‘ قیامت سے قبل ناممکن ہے۔ ناممکن ہے تو سمجھا جائے گا کہ جس کو مردہ سمجھ کر غسل اور کفن دیا گیا اور پھر وہ زندہ ہو گیا تو وہ مُردہ نہیں تھا‘ بلکہ زندہ تھا۔ اسے مُردہ سمجھا گیا‘ تو لاعلمی کی وجہ سے مُردہ سمجھا گیا۔ 1950ئ‘یعنی 70سال تک ایسا ہی سمجھا جاتا رہا کہ دل اور سانس بند ہو گیا تو اسے مردہ سمجھ لیا گیا۔ 
1959ء میں جدید میڈیکل ریسرچ سامنے آئی تو موت کی تعریف بھی بدل گئی۔ دل اور سانس کی بندش کو ناکافی سمجھا گیا۔ جس طرح درخت کا ایک تنا ہوتا ہے۔ تمام شاخوں اور پھلوں پھولوں کا انحصار اسی تنے پر ہوتا ہے‘ اسی طرح دماغ کا بھی ایک تنا ہوتا ہے۔ اب موت کی تعریف یہ ٹھہری کہ دماغ کے تنے کی موت واقع ہو تو یہ موت ہے۔ یاد رہے‘ 2008ء میں دو معروف ڈاکٹروں نے اپنی ریسرچ میں مذکورہ تعریف کی توثیق کی۔ یہ ڈاکٹر مسٹر مارکل اور مسٹر سینٹون تھے۔ اس کے بعد ''سی این این‘‘ نے ایک رپورٹ نثر کی ‘جس کا عنوان تھا: (Do We Die Every Night) کیا ہم ہر رات فوت ہوتے ہیں؟ یعنی ہر رات کی نیند‘ ایک موت ہوتی ہے؟ پھر بتلایا کہ نیند میں یادداشت کے عمل میں وقفہ آ جاتا ہے اور دماغ کے تنے کی حرکت میں بھی وقفہ آ جاتا ہے‘ لہٰذا نیند بھی ایک قسم کی موت ہے۔ نیشنل جیو گرافک کی رپورٹ کے مطابق‘ مذکورہ تعریف کی حمایت ڈاکٹر موریس جولون اور ڈاکٹر بیرمولریٹ نے بھی کر دی ‘دونوں فرانسیسی ڈاکٹر ہیں۔ 19جنوری 2014ء کو ایک سائنسی میگزین ''لائیو سائنس‘‘ نے کلینکلی موت‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا۔ اس میں لکھا کہ زندگی اور موت کے درمیان دھندلا پن جیسی صورتحال درپیش ہے۔ ہمیں جو سچی خبر ملتی ہے‘ وہ یادداشت سے ملتی ہے۔ موت کی تعریف یہ ہے کہ جس میں یادداشت مکمل طور پر ختم ہو جائے اور نیند کی تعریف یہ ہے کہ جس میں وقتی طور پر یادداشت کا خاتمہ ہو جائے۔ دوسرے لفظوں میں حقیقت یہ سامنے آئی کہ یادداشت کا خاتمہ مشترک ہے۔ مزید برأں!... دونوں صورتوں میں یادداشت کا ذمہ دار دماغی تنا ہے‘ لہٰذا نیند بھی ایک موت ہے۔
قارئین کرام! ملاحظہ ہو ‘اس موقع پر بی بی سی کی معروف اناؤنسر فوریسٹر جو قرآن کی ایک آیت پیش کرتی ہے۔ ترجمہ ملاحظہ ہو۔ مولا کریم فرماتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے۔ اور ان جانوں کو بھی ان کی نیند میں قبض کرتا ہے کہ جن پر (مستقل) موت کا وقت ابھی نہیں آیا۔ پھر‘ جس کی موت کا وقت آ چکا ہوتا ہے‘ اس کو (اپنے پاس) روک لیتا ہے اور دوسری جانوں کو (ان کے) طے شدہ وقت تک چھوڑ دیتا ہے۔ اس میں ایسے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں‘جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘ ۔(الزمر:42)
محترمہ فوریسٹر کہتی ہیں کہ آج سے ستر سال پہلے سائنسدان ایک حقیقت کے قریب پہنچے اور 2014ء تک وہ حقیقت ثابت شدہ صورت میں سامنے آئی‘ جبکہ قرآن نے چودہ سو سال قبل موت کی حقیقت بتا دی اور نیند کو بھی موت قرار دیا۔ دونوں کا تعلق دماغ سے ہے؛ چنانچہ جب تک دماغ کی موت واضح نہ ہو‘ کسی کو مُردہ نہیںکہا جا سکتا۔ اور یہ وہ حقیقت ہے ‘جو اللہ تعالیٰ نے قرآن بھیج کر اپنے آخری نبی حضرت محمد اکرمؐ کی زبان مبارک سے ساری دنیا کے لوگوں کو بتا دی۔ سائنسدان کہتے ہیں؛ زندگی ہر انسان کا قیمتی حق ہے۔ اس کا تحفظ کرنا انسانیت کی ذمہ داری ہے۔ جی ہاں! اسلام نے 14سو سال قبل اس ذمہ داری کے بارے میں آگاہ فرما دیا ہے۔
موت کے قریب تجربات کے ضمن میں اہل مغرب نے بڑی تحقیق کی ہے۔ اسے موت سے واپسی کا نام دیا ہے۔ اس پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ عرب علماء کا بھی اس پر کام ہے‘ مگر یہ سارے تجربات انہی لوگوں کے ہیں ‘جن کے دل ‘یعنی نبض اور سانس بند ہو گئے ‘مگر وہ دماغی طور پر زندہ تھے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے انہیں بعض نظارے کروا دیئے۔ جنت کے نظارے بھی ہیں اور جہنم کے مناظر ہیں اور بعض کو سرنگ میں داخل کیا گیا ہے‘ جس کے آخر پر روشنی ہے۔ الغرض! یہ موت نہیں ہے۔ حقیقی موت سے پہلے ایک مہلت دی گئی ہے کہ اپنی تیاری کر لو۔ آج سے 20سال قبل ‘ایک امریکی یا غالباً برطانوی انجینئر ریاض میں ملازم ہو کر آیا۔ اس کی ملاقات یمن کے معروف مرحوم عالم دین شیخ عبدالمجید زندرانی سے ہوئی اور مذکورہ آیت پر غور کرتے ہوئے انجینئر مسلمان ہو گیا۔ یو ٹیوب پر یہ ویڈیو ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ انگریز انجینئر کہتا ہے کہ زندگی اور موت کے درمیان‘ جن حقائق تک بڑی مشکل کے بعد میڈیکل سائنس پہنچی ہے۔ قرآن نے ایک آیت میں اس کو واضح کر دیا ہے۔ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ حضرت محمدؐ نے لکھنا پڑھنا کسی سے نہ سیکھا تھا۔ وہ دور انتہائی ناقص معلومات کا دور تھا‘ مگر آج کی علمی‘ طبی اور سائنسی حقیقت کو جس طرح قرآن نے بیان فرمایا ہے۔ یہ کتاب یقینا اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور جس ہستی پر آیا ہے‘ وہ حضرت محمد اکرمؐ ہیں ‘جو سچے اور آخری رسول ہیں۔ میں ان کی صداقت کی گواہی دیتا ہوں اور پھر وہ شیخ عبدالمجید زندرانی کے سامنے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتے ہیں۔
قارئین کرام! سارے انسان جتنا ٹائم جاگ کر گزارتے ہیں اور آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں ‘اتنا ہی ٹائم سو کر گزارتے ہیں۔ ایک انسان کو آٹھ گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے‘ یعنی ہر انسان روزانہ کم و بیش آٹھ گھنٹے حالت موت میں گزارتا ہے۔ افسوس ہے کہ اس کے باوجود موت کو بھولا ہوا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے سونے سے قبل ایک دعا بتائی ہے۔ ''اے اللہ! تیرے نام کے ساتھ مرنے لگا ہوں اور تیرے نام کے ساتھ ہی زندہ ہوں گا‘‘ یعنی بستر پر لیٹتے ہی موت کی وادی میں جانے کی بات اور پھر جب صبح کو بیدار ہوتا ہے تو حضورؐ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے یوں کہتا ہے: ''سب تعریف اس اللہ کیلئے‘ جس نے مجھے موت کے بعد زندگی عطا فرمائی‘ اسی اللہ کی طرف آخر کار اٹھ کر پیش ہوتا ہے‘‘ یعنی یہ موت عارضی ہے۔ حقیقی موت کے بعد پھر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ یہ ہے؛ ایمان اور اعتقاد کہ جس کا آج میڈیکل سائنس اعلان کر رہی ہے۔ قربان جاؤں حضرت محمد کریمؐ پر کہ جنہوں نے ہمیں آگاہ کیا کہ قیامت کے دن موت کو بھی موت آئے گی۔ فرمایا: ''موت کو ایک ڈب کھڑبے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا۔ پھر اعلان کرنے والا اعلان کرے گا۔ جنت کے لوگو! چنانچہ اہل جنت گردن اٹھا کر دیکھیں گے تو وہ کہے گا؛ اس کو پہچانتے ہو؟ وہ کہیں گے۔ ہاں! یہ موت ہے۔ وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے (اس لئے پہچان لیں گے) پھر وہ اعلان کرے گا۔ اے آگ والو! وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے ‘تو وہ کہے گا؛ اسے پہنچانتے ہو؟ وہ کہیں گے؛ ہاں! یہ موت ہے۔ وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے۔ اب اس موت کو ذبح کر دیا جائے گا‘ پھر اعلان کرنے والا کہے گا؛ اے جنت والو! اب (تمہیں) ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔ موت کا وجود نہیں ہے۔ اے آگ والو! تمہیں بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔ موت نہیں ہے‘‘۔ پھر حضورؐ نے یہ آیت پڑھی:۔
ترجمہ: ''میرے نبیؐ! ان لوگوں کو پچھتاوے کے دن سے ڈرا دو‘ جب ہر عمل کا فیصلہ کر دیا جائے گا‘ جبکہ یہ لوگ سراسر غفلت کا شکار ہیں‘‘۔ (بخاری:4730)
1950ء تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ جس کادل اور سانس بند ہو گیا ‘تو اسے مردہ سمجھو‘ جبکہ 1959ء میں جدید میڈیکل ریسرچ سامنے آئی‘ تو موت کی تعریف بھی بدل گئی؛اب‘ دل اور سانس کی بندش کو ناکافی سمجھا گیا اور دماغ کی موت کو موت سمجھا جاتا ہے۔ اب موت کی تعریف یہ ٹھہری کہ دماغ کے تنے کی موت واقع ہو تو یہ موت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں