وزیراعظم پاکستان محترم عمران خان چین کے کامیاب دورے سے بھی واپس آ گئے ہیں۔ سعودیہ اور ایران کے درمیان بہتر فضا اور ماحول کاکریڈٹ بھی عمران خان کے کردار کا ایک حصہ ہے۔ امریکہ کے کامیاب دورے پر دو آراء نہیں۔ اب توقع ہے کہ ملک میں سالہا سال کے بگڑے ہوئے نظام کی اصلاح کی جانب بھی وہ وقت نکال پائیں گے۔ ان کی خدمت میں بگڑے ہوئے نظام کا ہلکا سا نقشہ پیش کروں تو وہ کچھ اس طرح ہے کہ تھانوں میں ظلم ہے‘ ایف آئی آر میں جھوٹ ہے‘ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں جعل سازی ہے‘ وکیلوں کے ہاں جھوٹ کی قیمت لگتی ہے‘ عدالتوں میں تاریخوں پر تاریخیں پڑتی ہیں‘ کمزور سالہا سال تک پستا چلا جاتا ہے۔ سب سے کمزور بچے ہوتے ہیں‘ معصوم ہوتے ہیں‘ بدمعاش انہیں ورغلاتے ہیں اور مبینہ زیادتی کا شکار کر کے قتل کر ڈالتے ہیں‘ یہاں 100بچوں کا قاتل بھی ماضی میں پکڑا گیا‘ مگر سزا نہیں پاتا‘ خودکشی سے مرتا ہے۔
قصور کے علاقے میں بچوں پر ظلم کے واقعات لکھے نہیں جاتے کہ قلم کانپتا ہے‘ کیوں نہ کانپے اور لرزے کہ ظلم ہی انتہائی بھیانک ہے‘ جوان بچیوں کے چہروں پر تیزاب پھینک کر چہرے مسخ کیے جاتے ہیں‘ صنف نازک کمزوری کا سمبل ہے‘ تیزاب کے حوالے سے سب سے زیادہ ظلم کا شکار وہی ہے۔ جی ہاں! سب سے زیادہ کمزور وہ بھی ہوتا ہے‘ جو ذہنی طورپر کمزور ہوتا ہے‘ مگر صلاح الدین جیسے کمزور کو بھی ہمارے پیشہ ور لوگ پہچاننے سے معذور ہو جاتے ہیں۔ ہسپتالوں میں کمزوروں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ہڈیاں ٹوٹی پڑی ہیں اور جوڑنے کیلئے دس دس‘ پندرہ پندرہ دن کا ٹائم دیا جاتا ہے۔ کمزور لوگ معمولی جرائم پر سالہا سال جیل میں پڑے رہتے ہیں۔ کوئی پرسان ِحال نہیں‘ جس کا نام ایک بار ممنوعہ فہرستوں میں ڈل گیا‘ وہ مدتوں نہیں نکلتا‘ نام ڈالنے والے بھول جاتے ہیں‘ جبکہ نکلوانے والا کمزور ہے‘ تو صورتحال یہ بھی ہو جاتی ہے کہ بندہ مر جاتا ہے اور اس کا نام ایسی فہرستوں میں بعد از مرگ بھی سالہا سال تک پڑا رہ جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران ایسے لاعلم اور بے خبر کیوں ہیں؟
الغرض! ملک کے ہر شعبے میں کمزور کا حال کچھ ایسا ہی ہے۔ حکمرانوں میں اچھے اور خدا ترس لوگ بھی بہت ہیں‘ مگر ظالموں کے مقابلے میں خدا ترس بہت تھوڑے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری حکمرانی اندرونی اور بیرونی طور پر شدید مشکلات کا شکار ہے۔ اس مشکل سے نکلنے کا ایک حل یہ ہے کہ حکمران انسان دوست ہو!
اللہ کے رسولؐ جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے‘ فرماتے ہیں: ''کیا کمزوروں کے علاوہ بھی کسی اور کے ذریعے سے تم لوگوں کو رزق ملتا ہے اور تمہاری مدد ہوتی ہے؟‘‘ (مسند احمد:1493)۔
یعنی حکمرانوںکو سمجھ لینا چاہئے کہ معاشی حالت درست ہوگی‘ خوشحالی ملے گی‘ تنگدستی ختم ہوگی‘ جی ڈی پی بہتر ہوگی‘ برآمدات بڑھیں گی‘ درآمدات کم ہوں گی‘ تو کمزوروں کا خیال کرنے سے ہوں گی‘ ان کو عدل و انصاف دینے سے ہوں گی‘ ملک کے اداروں کا نظام میرٹ اور قانونی طورپر چلانے سے ہوں گی‘ قانون میں اگر ظلم و سقم ہے‘ تو قانون سازی بہتر کرنے سے ختم ہو گا۔ ریاست ِمدینہ کے اوّلین حکمران حضرت محمد کریمؐ نے کمزوروں کے جذبات کا کس قدر خیال رکھا۔ صحیح مسلم میں مذکور ایک واقعہ ملاحظہ فرما لیجئے۔ اس واقعہ میں تین صحابہ کی ایک ٹیم کا تذکرہ ہے‘ ان میں ایک حضرت سلمان فارسیؓ ہیں؛ یہ ایران کے شہر اصفہان کے مضافاتی علاقے سے سفر کرتے کرتے غلام بن جاتے ہیں اور پھر بکتے اور فروخت ہوتے ہوئے‘ مصائب اور مشکلات جھیلتے ہوئے ‘آخری رسول حضرت محمد کریمؐ کا سُن کر بالآخر ان کی خدمت میں پہنچ کر اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ غیر عربی تھے‘ کمزور تھے‘ لاوارث تھے‘ ان کو مدینے کا ایسا شفیق اور مہربان حکمران ملا کہ ماں باپ کی شفقت بھول گئے اور حضرت محمد کریمؐ کے آستانہِ رحمت و رافت کے ہی ہو کر رہ گئے۔
دوسرے حضرت صہیبؓ رومی ہیں۔ عراق کے عربی علاقے پر رومیوں نے حملہ کیا۔ یہ پانچ سال کے بچے تھے۔ قیصر و کسریٰ کی جنگ میں یہ روم پہنچ گئے۔ یونانی زبان سیکھ گئے۔ غلام بن گئے۔ بڑے ہوئے تو حضرت محمد کریمؐ کی دعوت کا سنا۔ موقع پا کر بھاگ نکلے۔ مکہ آ گئے اور دار ارقم میں حضرت محمد کریمؐ کے اوّلین صحابہ میں سے ایک بن گئے۔
تیسرے حضرت بلالؓ تھے۔ یہ بھی حبشہ کے رہنے والے حبشی تھے۔ غلام تھے۔ حضورؐ کی محبت میں توحید کی خاطر کفار کے ظلم و ستم برداشت کرتے رہے‘ لیکن حضورؐ کی محبت نہیں چھوڑی!
ذرا غور فرمائیں؛مکہ فتح ہو چکا ہے۔ مدینے کی ریاست سارے جزیرۃ العرب پر کنٹرول پا چکی ہے۔ حضرت محمد کریمؐ مضبوط ترین اور محبوب ترین حکمران ہیں‘ مگر اپنے کمزور ترین ساتھیوں کا خیال کیسے کرتے ہیں۔ اب حدیث ملاحظہ ہو''حضرت ابو سفیانؓ جیسے بڑے سردار ان تینوں کی مجلس کے پاس سے گزرتے ہیں تو تینوں ابو سفیانؓ کو دیکھ کر کہتے ہیں؛ اللہ کی قسم! اللہ کی تلواروں نے اللہ کے دشمن سے اپنا حق وصول نہیں کیا‘ یعنی ساری زندگی حضورؐ کے مخالف رہے اور فتح مکہ پر بچ نکلے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ (جو قریب تھے یہ سن کر) تینوں سے کہا؛ تعجب ہے ‘تم لوگ یہ بات قریش کے بزرگ اور سردار کے بارے میں کہہ رہے ہو؟ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ‘ اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں پہنچ گئے اور مذکورہ واقعہ کے بارے میں حضورؐ کو آگاہ کیا۔ حضورؐ نے سنتے ہی فرمایا: ''اے ابوبکرؓ! لگتا ہے کہ تم نے اُن تینوں کو ناراض کر دیا ہے۔ اگر واقعی تم نے ان کو ناراض کر دیا تو یاد رکھنا تم نے پھر اپنے رب کو ناراض کر دیا ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکرؓ ان تینوں کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے؛ میرے پیارے بھائیو! کیا میں نے آپ لوگوں کو ناراض کر دیا؟ تینوں بولے؛ پیارے بھائی‘ بالکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے‘‘۔ (صحیح مسلم: کتاب فضائل الصحابہ) آفرین ہے‘ حضرت ابوبکرؓ کے خوبصورت کردار کے لئے کہ انہوں نے جملہ کہہ تو دیا‘ مگر دل میں کھٹک پیدا ہو گئی کہ کہیں غلطی تو نہیں کر بیٹھا؛ چنانچہ فوراً دربار ِرسالتﷺ میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان کیا اور پھر کمزوروں کے حق میں حضورؐ کا فرمان سن کر فوراً واپس بھاگے اور جا کر تینوں کو منایا ‘ تب جا کر ان کے دل کو سکون ہوا۔
ذرا سوچئے! طاقتور سے کوئی ناحق قتل ہوتاہے‘ ناانصافی ہوتی ہے‘ ظلم ہوتا ہے‘ میڈیا پر آتا ہے تو نمائشی اقدام کر کے دبا دیا جاتا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پولیس کا مورال ڈائون ہو گا! کمزور کو حق دلانے سے مورال گرتا ہے؟ ایسی دلیل دینے والے سوچ لیں کہ دنیا چند روز کی ہے۔ ریٹائرمنٹ کا وقت آنے والا ہے‘ بڑھاپا بیماریوں کو لانے والا ہے‘ پھر کمزور اور نحیف جسم سے روح کو فرشتہ نکالنے والا ہے‘ اگر روح نکلتے ہی سامنے مظلوم آن کھڑا ہوا تو قبر میں ظلم کے حق میں دلیل کیا شکل اختیار کرے گی؟ قبر کے خوفناک اور بھیانک منظر کو کبھی نہ بھولنا چاہیے۔ حقدار مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دینے کا انجام سوچ لینا چاہیے۔ یہ انجام قبر کی تنگی اور سختی تک ہی نہ ہو گا۔ حشر کے دن بھی ہو گا اور پھرجہنم اس کے علاوہ ہے۔ دنیا میں بھی ظلم کا کوئی انجام رب جبار دکھلا دیتا ہے۔ آج معافی کا وقت ہے۔ قربان جائوں حضرت صدیق اکبرؓ پر کہ انہوں نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے پر پہلا خطبہ دیا تو فرمایا '' سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے‘ تمہارا ضعیف شخص میرے نزدیک طاقتور ہے‘ جب تک میں دوسروں سے اسے حق نہ دلوادوں اور تمہارا مضبوط شخص میرے ہاں کمزور ہے‘ یہاں تک کہ میں اس سے وسروں کا حق وصول ہ کر لوں‘‘۔ (البدایہ و النہایہ)
اللہ تعالیٰ کی پناہ! ہمارے ہاں تو عام عوامی چلن ہے کہ گھٹیا مفادات کی خاطر عدالتوں میں کیس ہی جھوٹے بنائے جاتے ہیں۔ امانت تو گئی اس لئے کہ حق اورسوچ کو ذبح کر دیا گیا اور جب امانت نہ رہی تو بددیانتوں کی مدد کہاں سے ہوگی؟ لہٰذا اچھی حکمرانی کا فرض بنتا ہے کہ آخرت کی بہتری کیلئے معاشرے کو انصاف والا بنایا جائے۔ تحریک انصاف اکیلی حکمران نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں حکمران ہے تو مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں ہے۔ سب حکمران اپنے اداروں کو اچھے اور دیانت دار سربراہ دیں۔ ٹی وی پر لوگوں کی تربیت کریں۔ تربیت کرنے سے اپنی تربیت بھی بہتر ہوتی ہے۔ نظام اور سسٹم میں عادلانہ اصلاحات کر کے اسے عوام دوست اور کمزور دوست بنائیں۔ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے: ''جو حکمران انصاف کرنے والا ہو اور اچھے اعمال (اقدامات) کی توفیق سے نوازا گیا ہو‘ وہ جنت والوں میں سے ہے‘‘۔ (صحیح مسلم: کتاب الجنہ) یا اللہ کریم! ہمارے حکمرانوں کو اچھی توفیق دے کر اہل جنت میں شامل فرما۔ (آمین)