جب کوئی انسان اسلام قبول کرتا ہے‘ تو شہادت کا کلمہ پڑھتا ہے‘ جس کا ترجمہ یوں ہے ''میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ ایک ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ حضرت محمدؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘۔اس گواہی میںایک عقیدہ اور نظریہ ہے؛ چنانچہ نظریے کیلئے مضبوط اور ٹھوس دلائل کا ہونا ضروری ہے۔ اب‘ اللہ تعالیٰ نظریاتی دلائل نازل فرماتے ہیں۔ یہ دلائل حضرت محمد کریمؐ پر نازل ہوتے ہیں۔ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس پر تین دلائل ہیں‘ ان لوگوں کیلئے جو اللہ کے ساتھ کچھ دیگر ہستیوں یا چیزوں کو شریک سمجھتے ہیں۔ آئیے! پہلی دلیل ملاحظہ کرتے ہیں۔ فرمایا ''اگر ان دونوں (آسمان و زمین) میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور بھی معبود موجود ہوتے تو زمین و آسمان میں فساد پیدا ہو جاتا ‘لہٰذا عرش کا رب ایسی باتوں سے کہیں پاک ہے ‘جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں‘‘۔ (الانبیاء:22)
قارئین کرام! ہم سات ارب انسان جس زمین پر رہتے ہیں‘ یہ ایک چھوٹا سا سیارہ ہے؛ اگرچہ کائنات کی وسعت میں اس کی حیثیت ایک ذرّے جتنی بھی نہیں ‘مگر ہم انسانوں کیلئے یہ بہت بڑی جگہ ہے۔ انسانوں نے اس پر کوئی دو سو ملک بنا رکھے ہیں‘ ان ملکوں کی تعداد گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے۔ تعداد کی کمی بیشی جنگوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ انسانوں کی باہم فتح اور شکست سے ہوتی ہے۔ ہزاروں خاندان بادشاہ بنے اور ہزاروں مٹتے رہے۔ لاکھوں انسان بادشاہ بنے‘پھر وہ فقیر بنے اور فقیر بادشاہ بنتے رہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس اقتدار پر قتل اور خونریزی آج بھی جاری ہے۔ آج ہماری دنیا میں زیادہ تر جمہوری حکمرانی کا دور ہے‘ مگر اس جمہوریت میں بھی زیادہ اقتدار کی خواہش جب انسان کی جبلّت بن جاتی ہے تو ملکوں میں فساد بپا ہو جاتے ہیں۔ مظاہرے ہوتے ہیں‘ دھرنے ہوتے ہیں‘ جلسے ہوتے ہیں۔ ان چیزوں کو انسانی گروہوں کا جمہوری حق تسلیم کیا گیا ہے ‘مگر اس میں تشدد اور خونریزی بھی کبھی کبھار سر اٹھا لیتی ہے‘جس سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ میرا وطن عزیز بھی کچھ استحکام کے بعد دوبارہ اور بار بار ایسے واقعات سے گزرتا چلا آ رہا ہے۔ آج پھر کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ اسلام آباد اقتدار کا مرکز ہے اور لوگ مرکز کی طرف ہی اقتدار اور قوت کے حصول کیلئے چڑھائی کرتے ہیں۔ یہ چڑھائی جمہوری اور پرامن رہنی چاہیے‘ مگر بہرحال ہے تو چڑھائی۔ یہ انسانوں میں ہوتی رہی ہے۔ ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ فساد بھی پیدا ہوتا رہے گا۔ ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں کا ایک جیسا ہی حال ہے۔ اقتدار میں انسان ایک دوسرے کے شریک ہیں۔ جہاں شریکا برداشت نہیں ہوتا۔ فساد شروع ہو جاتا ہے۔ شریکے کو برداشت کرنے کیلئے قوانین بھی بنائے گئے ہیں۔ ہر ملک کا مگر طاقتور جب اپنی طاقت میں شریکا برداشت نہیں کرتا‘ تو ٹکراؤ شروع ہو جاتا ہے۔ انسان اسی طرح ہی کرتے رہیں گے ‘مگر انسان اس وقت ایک بڑا گناہ کرتا ہے‘ جب اپنے انسانی سسٹم کے تحت اللہ تعالیٰ کے بھی شریک بنانے لگ جاتا ہے۔ (نعوذ باللہ)۔اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں فرمایا کہ اگر اللہ کے اقتدار میں بھی کوئی شریک ہوتا تو جس طرح زمین کا نظام انسانی اقتداروں نے بگاڑ رکھا ہے۔ کائنات کا نظام بھی بگڑ جاتا۔
اللہ واحد ہے ‘اس کا کوئی شریک نہیں۔ مولا کریم نے دوسری دلیل اپنے پیارے حبیبؐ پر یوں نازل فرمائی ''اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود موجود ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ضرور بر ضرور ہر معبود اپنی تخلیق کو لے کر الگ ہو جاتا اور پھر ایسا بھی ضرور ہوتا کہ وہ باہم ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے‘‘۔
''(اے انسانو!) بہت پاک ہے اللہ‘ ایسی باتوں سے جولوگ کرتے ہیں۔ وہ تو حاضر و غائب سے بخوبی واقف ہے اور بات یہ ہے کہ وہ بہت ہی بلند و بالا ہے ایسی ہستیوں سے جن کو وہ شریک بناتے ہیں‘‘۔ (المؤمنون:92,91)
جی ہاں! یونانیوں نے آسمان میں بعض ستاروں کے نام اپنے دیوتاؤں کے نام پر رکھ دیئے اور ان کی لڑائیوں کے قصے بھی بنا دیئے۔ اللہ تعالیٰ ایسی تمام داستانوں کی تردید فرماتے ہیں اور دلیل یہ ہے کہ آسمانوں کا نظام مستحکم ہے تو یہ ایک اللہ کی توحید کی وجہ سے ہے۔ تیسری اور آخری دلیل کا ترجمہ ملاحظہ ہو؛ ''(میرے رسولؐ! شرک کرنے والے ایسے لوگوں سے) کہہ دو‘اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی موجود ہوتے۔ جیسا کہ (شریک کے مرتکب لوگ) کہتے ہیں۔ تب وہ عرش والے کی طرف کسی راستے پر مارچ ضرور کرنے کی کوشش کرتے جو لوگ شرک کی ایسی گفتگو کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے انتہائی پاک بہت ہی بالا‘ بلند اور بڑا ہے۔ ساتوں آسمان اور زمین ہی نہیں۔ ان کے درمیان کی مخلوقات بھی اس کی تسبیح کرتی رہتی ہیں۔ ایسی کسی شے کا وجود ہی نہیں‘ جو اللہ کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکیزگی نہ بیان کرے‘ لیکن تم (اے انسانو!) ان کی تسبیحات کو نہیں سمجھتے۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ وہ بڑا حوصلے والا اور درگزر فرمانے والا ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل:42تا44)
پچھلی ایک صدی سے دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان آئن سٹائن ہے۔ ایٹم بم اسی کی ایجاد ہے۔ سپیس اور ٹائم‘ اسی کا دیا ہوا نظریہ ہے۔ آئن سٹائن کے بعد نظریاتی فزکس میں فلکیات کا سب سے بڑا سائنسدان سٹیفن ہاکنگ تھا‘ جو چند ماہ قبل فوت ہوا۔ ان کی اہم ترین بات ہم بعد میں نوٹ کرتے ہیں۔ پہلے اس حقیقت کو واضح کر دیں کہ موجودہ سائنس کے دور میں چند دہائیاں قبل تک سائنسدان کہتے تھے کہ یہ کائنات قدیم سے چلی آ رہی ہے اور چلتی رہے گی۔ ایسی کائنات میں کسی خالق کے وجود کی کوئی گنجائش نہیں۔ پھر جب خلاء میں حبل دوربین بھیجی گئی تو ایڈورڈ حبل تصویروں کا رزلٹ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تمام کہکشائیں دور بھاگی چلی جا رہی ہیں۔ اس سے رزلٹ یہ نکلا کہ کائنات تو وجود میں لائی گئی ہے‘ پھر بڑے دھماکے ‘یعنی بِگ بینگ کا نظریہ وجود میں آیا۔ اس پر تجربہ بھی کر لیا گیا۔ اب جدید حقیقت یہ سامنے آ گئی ہے کہ کائنات تیرہ اشاریہ سات ارب سال پہلے وجود میں آئی جب کچھ نہ تھا‘ پھر ایک نکتے سے اتنی بڑی کائنات سامنے آئی۔ یہ پھیلتی جا رہی ہے اور آخر کار یہ واپسی کا سفر شروع کر کے ایک نکتے پر ہی ختم ہو جائے گی اور زیرو ہو جائے گی۔ اب‘ سٹیفن ہاکنگ جو Bigbang سے پہلے کیا تھا۔ کون تھا۔ یہ تو بتلائیے۔ پھر جو سٹیفن نے بتلایا۔ اے قارئین کرام! اس کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے:۔
"There is nothing south of the South Pole, so there was nothing around before the Big Bang."
بِگ بینگ سے پہلے اردگرد کچھ نہ تھا۔ جس طرح زمین کے جنوبی پول کا کوئی جنوب نہیں۔ اسی طرح بِگ بینگ سے پہلے بھی کچھ نہ تھا۔ قارئین کرام! زیادہ تر سائنسدان اب مان گئے ہیں کہ بِگ بینگ سب قبل کائنات کا خالق تھا‘ جس نے کائنات کو پیدا کیا۔ کئی سائنسدان مسلمان ہو گئے ہیں کہ وہ خالق ایک اور لاشریک ہے۔ وہ کہ جس کا تعارف حضرت محمد کریمؐ نے کروایا ہے۔ جو نظام ایک ذرّے کا ہے۔ وہی کہکشاؤں کا ہے۔ سارا نظام ایک ہی طاقت کے ہاتھ میں ہے۔ وہ طاقت اللہ کی طاقت ہے۔ اگر کوئی متوازی طاقت ہوتی تو کائنات وجود میں آتے ہی تباہ ہو جاتی۔
جی ہاں! اربوں کھربوں درود و سلام حضرت محمد کریمؐ پر کہ جن پر قرآن آیا اور اللہ تعالیٰ کا تعارف ''وحدہٗ لاشریک لہٗ‘‘ آیا۔ اے اہل اقتدار اور اپوزیشن۔ ربیع الاوّل کا پُربہار مہینہ آیا ہے۔ چند روزہ اقتدار کی جنگ میں پاکستان کا استحکام فراموش نہ کرو۔ اہل کشمیر کے درد کو اپنے دل کا درد بنا کر لمحہ بھر بھی نہ بھولو۔ اللہ کریم کے دیئے ہوئے تحفے پاکستان کی قدر فراموش نہ کرو۔ باہمی احترام نہ بھولو۔ پاکستان... زندہ باد!ہم سات ارب انسان جس زمین پر رہتے ہیں‘ یہ ایک چھوٹا سا سیارہ ہے؛ اگرچہ کائنات کی وسعت میں اس کی حیثیت ایک ذرّے جتنی بھی نہیں ۔اے اہل اقتدار اور اپوزیشن! ربیع الاوّل کا پُربہار مہینہ آیا ہے۔ چند روزہ اقتدار کی جنگ میں پاکستان کا استحکام فراموش نہ کرو۔ اہل کشمیر کے درد کو اپنے دل کا درد بنا کر لمحہ بھر بھی نہ بھولو۔ اللہ کریم کے دیئے ہوئے تحفے پاکستان کی قدر فراموش نہ کرو۔ باہمی احترام نہ بھولو۔ پاکستان؛ زندہ باد!