"AHC" (space) message & send to 7575

امریکی یونیورسٹی میں اگلی زندگی پر ریسرچ کا رزلٹ

ڈاکٹر سٹیون ہرٹ واٹس ایک ایسے امریکی کا نام ہے‘ جو موجودہ ماڈرن دور میں سرجری اور گائیناکالوجی کے ماہر پروفیسر تھے‘ وہ یونیورسٹی آف ورجینیا میں مذکورہ شعبے کے چیئرمین تھے۔ 1907ء میں منصب پر فائز ہوئے‘ 1967ء میں انہوں نے مذکورہ یونیورسٹی میں ایک ایسے شعبے کی بنیاد رکھی‘ جس کا مقصد موت کے بعد زندگی پر تحقیق تھا۔ یہ نیا شعبہ ''ڈی او پی ایس‘‘ کے مخفف سے ورجینیا یونیورسٹی کی ایک فیکلٹی تھا۔ اس شعبے میں 50سال تک تحقیق کا کام جاری رہا۔ مذکورہ فیکلٹی کے تحت ایک میڈیکل سنٹر بھی قائم ہوا‘ اسے ''یو وی اے میڈیکل سینٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ایک بہت بڑا ہسپتال بھی ہے۔ قارئین کرام! تحقیق ہوتی رہی اور پھر سات مارچ 2017 ء کو فیکلٹی کے سات ممتاز سائنس دانوں نے اپنی ریسرچ کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ سوالوں کے جوابات دیئے۔ مائنڈ‘ یعنی سوچ اور برین‘ یعنی دماغ کے مابین تعلق پر تحقیق کی صورت میں جو سامنے آیا‘ وہ یہ تھا کہ جسم سے ماوراء شعور کا واضح فنکشن معلوم ہوتا ہے۔ میرے خیال میں بہتر رہے گا کہ میں مذکورہ پچاس سالہ تحقیق کو انگریزی میں پیش کر دوں اور پھر اپنی کمزور ہمت اور استطاعت کے مطابق‘ ترجمہ نہیں ‘بلکہ مفہوم بیان کر دوں۔ ملاحظہ ہوں‘ اصل الفاظ:۔ 
To study what, if anything, of the human personality survives after death over fifty years of research, suggests that consciousness may Indeed survive bodily death and the mind and brain appear to be distinct and separable.
تحقیق اور مطالعہ کا نچوڑ بہرحال یہی ہے۔ پچاس سالہ ریسرچ یہی بتاتی ہے کہ موت کے بعد بھی انسانی شخصیت محفوظ رہتی ہے۔ جسمانی موت اپنی جگہ‘ شعور سروائیو کرتا محسوس ہوتا ہے‘ جبکہ سوچ اور دماغ قدرتی طور پر الگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
قارئین کرام! مذکورہ اعلان میڈیکل سائنسدانوں کی سات رکنی ٹیم نے کیا۔ ٹیم میں چار مرد حضرات اور تین عدد خواتین تھیں۔ پچاس سال میں مذکورہ ادارے کے سائنسدان دنیا بھر کے سائنسدانوں سے رابطے میں رہے۔ ان ممتاز اور عالی دماغ سائنسدانوں کے ساتھ جو مائنڈ اور برین کے مانے ہوئے ڈاکٹر تھے۔ نفسیاتی علوم کے ماہرین سے بھی رابطے رہے۔ یہ رابطے اب بھی جاری ہیں اور جاری رہیں گے۔ وہ رابطوں کی دعوت دے رہے ہیں۔ پچاس سالہ دور میں مذکورہ ادارے نے کئی تحقیقی کتابیں شائع کیں‘ان میں نمایاں آٹھ کتابیں ہیں۔ آٹھ میں سے پانچ کتابوں کے نام ہم درج کئے دیتے ہیں‘ تاکہ عنوان سے ہی اندازہ ہو کہ ریسرچ کا رُخ کدھر کو جا رہا ہے۔ پہلی کتاب کا عنوان ملاحظہ ہو‘ اسے سات رکنی ٹیم کے ایک ممبر ڈاکٹر ایڈورڈ کیلی نے لکھا ہے؛ Beyond Physicalism‘یعنی جسمانیت سے بہت دُور۔ دوسرے لفظوں میں کتاب کا نام واضح کر رہا ہے کہ جسم تو ختم ہو جاتا ہے ‘جبکہ شخصیت باقی رہ جاتی ہے۔ اس شخصیت کو اسلام نے ''روح‘‘ کہا ہے۔ دوسری کتاب کا نام ہے؛ Life Before Life( زندگی سے پہلے) یعنی زمین پر انسان جو زندگی گزارتا ہے‘ اس سے پہلے بھی یہ زندہ تھا۔
قارئین کرام! ہم کتاب و سنّت کی روشنی میں زندگی اور موت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو وہ اس طرح ہے کہ روح اور جسم کی جدائی کا نام موت ہے‘ جبکہ دونوں کے ملاپ کا نام زندگی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا انسانوں کے نام فرمان ہے ''تم لوگ کیسے اللہ تعالیٰ کا انکار کر سکتے ہو‘ جبکہ تم مردہ تھے تو اس نے تم کو زندگی عطا فرمائی‘ پھر وہ تم کو موت دے گا‘ پھر تم لوگوں کو زندہ کرے گا اور پھر تم لوگ اسی کی طرف وپاس لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ (البقرہ:28)
دو ہی موتیں ہیں اور دو ہی زندگیاں ہیں۔ ایک روحانی دنیا ہے اور دوسری مادی دنیا ہے۔ دونوں کا خالق اللہ ہے۔ وہ واحد اور احد ہے۔ لاشریک ہے۔ مخلوق جوڑا جوڑا ہے‘ یعنی مخلوق باہم ایک دوسرے کی شریک ہے۔ روحانی دنیا کی طرف جائیں تو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل ؑ کو بھی ''روح‘‘ کہا ہے۔ وحی کو بھی ''روح‘‘ کہا ہے اور حضرت آدمؑ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ''روح‘‘ کو پھونکا۔ جی ہاں! ہماری اس دکھائی دینے والی مادی دنیا سے بالکل الگ اور لطیف ترین شئے روح ہے ‘جو ہمارے اندر ہے‘ مگر ہم اسے سمجھنے سے عاجز اور قاصر ہیں۔ اس لئے کہ مادی دنیا میں مادی حواس کے ساتھ۔ خلاء اور وقت کے مادی حصار میں رہتے ہوئے ‘ہم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ اس کے برعکس مادی دنیا ملاحظہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے ''کُن‘‘ کہہ کر کائنات کو بنایا۔ سائنسی اعتبار سے Big Bang ہوا اور کائنات کے وجود کا آغاز ہوا‘ پھر اس پر ایک ایسا وقت آیا کہ انرجی اور گیس باہم ملی ہوئی تھی۔ یہ الگ ہوئی۔ قرآن نے ملی ہوئی حالت کو ''رتق‘‘ کہا۔ اور الگ الگ کرنے کو ''فتق‘‘ کہا۔ اس جوڑے کے دوسرے حصے سے مادہ وجود میں آیا۔ کہکشائیں وجود میں آئیں۔ ان میں ستارے بنے۔ ہماری زمین بھی ایک سورج سے الگ ہوئی۔ آگ کا دہکتا ہوا گولہ تھا‘ یہ ٹھنڈا ہوا اور پھر اس زمین کی سطح پر مٹی وجود میں آئی۔ جس میں پانی ملا تو خلیات کی صورت میں زندگی وجود میں آئی۔ اب‘ اسی پانی ملے ہوئے گارے سے اللہ نے آدمؑ کو پیدا کیا۔ اس میں روح کو پھونکا‘ پھر اس کی نسل کو ایک خاص پانی سے چلا دیا۔ جی ہاں! جب مادہ اور روح الگ تھے تو انسان مردہ تھا۔ جب دونوں کے درمیان ماں کے شکم میں ملاپ ہوا تو انسان زندہ ہو گیا۔ دنیا میں بوڑھا ہو کر پھر مر جائے گا۔ روح آسمان کی جانب اور جسم اپنی اصل ‘یعنی مٹی میں مٹی ہو جائے گا۔ قیامت کے دن پھر روح اپنے زمینی جسم کے ایک محفوظ ذرّے کے ساتھ ملے گی اور زندگی شروع ہو جائے گی۔ اللہ کی طرف انسان بھاگ اٹھے گا۔ اب‘ سائنسدانوں نے زندگی سے پہلے جو زندگی کہا‘ وہ دراصل روح کی طرف اشارہ ہے۔ اصلاح ہم نے اسلام کی روشنی میں کر دی ہے۔ (الحمد للہ)
تیسری کتاب کا نام؛Return to Life ہے‘ یعنی اگلی زندگی کی جانب واپسی۔ چوتھی کتاب کا نام ہے؛The Handbook of Near-Death Experiences جی ہاں! اس میں تقاضا ہے‘ ایک ایسی بحث کا ‘جو کم از کم ایک کالم پر مشتمل ہو۔ یہ پھر کسی وقت سہی ان شاء اللہ۔ آخری اور پانچویں کتاب کا عنوان ہے؛Science, the Self, and Survival after Death میں اپنے الفاظ میں وضاحتی ترجمہ کروں تو یوں بنتا ہے '' سائنس بھی بول اٹھی کہ موت کے بعد انسانی زندگی کا خاتمہ نہیں ہے‘‘۔ ہم سب لوگ مٹی سے مل جانے والے جسم کیلئے بے چین رہتے ہیں۔ اس کی راحت کیلئے ظلم کرتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ طعن و تشنیع کے بازار میں آوازے کستے ہیں۔ عام تو رہے ایک جانب‘ بعض راہنمایانِ قوم کے دعویداروں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ معافی‘ درگزر‘ پردہ پوشی اور حوصلہ و احترام انسانیت ایک بھولی ہوئی یادداشت رہ گئی ہے۔ یاد رکھو! کسی بھی قوت جسم سے روح نکلنے والی ہے تب تک کیلئے وقت ہے کہ اس پر بھی توجہ کر لے اے نادان انسان۔ 
یا اللہ! ہم سب کو آخرت کی فکر والا عقلمند بنا دے ۔(آمین)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں