کوئی 14ارب سال پہلے ایک دھماکہ '' بگ بینگ‘‘(Big Bang) ہوا اور ہماری کائنات وجود میں آ گئی۔ امریکہ کی کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنسدان کہتے ہیں کہ دھماکے سے پہلے نہ خلا ء تھا اور نہ ہی ٹائم تھا‘ یعنی سپیس اور ٹائم دھماکے کے ساتھ پیدا ہوئے۔ آسمان‘ یعنی خلاء اور وقت میں بھی اربوں کھربوں کہکشائیں‘ کہکشائوں میں بے شمار ستارے‘ سیارے اور ان کے لاتعداد چاند گردش کر رہے ہیں۔ زمین پر رہنے والا انسان اسی ٹائم اور سپیس میں اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ اس کی سوچ اس سپیس اور ٹائم سے باہر نہیں جا سکتی ہے۔ معروف سائنس دان رابرٹ ہرٹ اور دیگر سب سائنسدان بھی یہی کہتے ہیں کہ دھماکے کے بعد خلاء اور وقت دونوں ساتھ ساتھ پھیلے ‘لہٰذا پوری کائنات اسی کے اندر موجود ہے۔
معروف سائنسدان John C. Mather کہتا ہے ''بگ بینگ سے پہلے کیا تھا ؟ہمیں اس کا کوئی آئیڈیا ہی نہیں‘‘۔ دیگر تمام سائنسدان اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اعتراف کرتے ہیں کہ بگ بینگ سے باہر کیا ہے؟ ہم کبھی بھی معلوم نہیں کر سکتے‘ اسی طرح امریکہ کے دو معروف سائنسدان‘ جن میں پہلے نمبر پر David J. Helfand ہیں‘ وہ کولمبیا یونیورسٹی کے سائنسدان ہیں ‘جبکہ دوسرے نمبر پر Nobel Laure ہیں‘ جو امریکی خلائی سائنسدان ہیں‘ کہتے ہیں '' بگ بینگ سے پہلے کوئی تو تھا ‘مگر وہ کون تھا؟ وہ کیسا ہے اور کس طرح کا تھا؟ اس کی حقیقت کے بارے میں سوال ہی بے معنی ہے ‘کیونکہ اس وقت سپیس اور ٹائم نہ تھا اور جب سپیس اور ٹائم وجود میں آیا تو ہم اس کے اندر رہتے ہوئے باہر کی قوت کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے۔ یہی بات Stephen William Hawkingسے پوچھی گئی کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ تو انہوں نے کہا '' انسان سپیس اینڈ ٹائم سے باہر کا کچھ بھی نہیں سوچ سکتا۔ اس کے بارے میں سوچنا انسان کے ذہن کی صلاحیت سے باہر ہے۔ دماغ جو سپیس اور ٹائم کے اندرہے‘ باہر کی چیز کے بارے میں کچھ نہیں سوچ سکتا‘‘۔
قارئین کرام! موجودہ دور کے عظیم سائنسدانوں کے اقتباسات آپ نے ملاحظہ کر لئے۔ انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کر دیا۔ بتلا دیا کہ ہماری علمی حد محدود ہے اور ایسی محدود ہے کہ مذکورہ حد کے باہر مکمل لاعلمی ہے۔ اب ‘سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو خالق کا انکار کرتے ہیں‘ وہ بغیر علم اور دلیل کے انکار کرتے ہیں اور بغیر علم کے کسی شے کا انکار کرنا پرلے درجے کی جہالت اور نادانی ہے‘ یعنی جو لوگ ایک خالق کا انکار کرتے ہیں‘ وہ بہت بڑے جاہل اور نادان ہیں۔ ہاں! زیادہ سے زیادہ وہ شک کا اظہار کر سکتے ہیں ‘مگر شک کا علمی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ علمی حقیقت جو انسان کے تجربات پر مبنی ہے‘ وہ یہی ہے کہ کوئی بھی صنعت صنائع کے بغیر نہیں۔ کوئی بھی تخلیق‘ خالق کے بغیر نہیں ہوتی۔ اتنی بڑی کائنات خالق کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی اور وجود میں آ کر لمحہ بھر کیلئے قائم نہیں رہ سکتی‘ اگر اسے کوئی متواتر اور مسلسل سنبھالنے والا نہ ہو۔
اور لیجئے! ہم ایسے لوگوں کو جو شک کے مرض میں مبتلا ہیں۔ آج کے دور کی تازہ ترین سائنسی حقیقت بتلائے دیتے ہیں:۔
برطانیہ کی معروف زمانہ عظیم ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق ہے کہ انسان کے ڈی این اے میں جو وراثتی جین ہے‘ اس میں ایک خالق پر ایمان کا عقیدہ موجود ہے اور یہ انسان کی زندگی کیلئے بے حد مفید ہے ‘جبکہ ایک خالق پر ایمان نہ رکھنا انسان کی فطرت میں اجنبی نظریہ ہے۔ اللہ اللہ! ایک خالق کو ماننا انسان کی فطرت ہے اور وہ قرآن جو حضرت محمد کریمؐ پر نازل ہوا‘ اس نے یہی بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تمام اولاد کو اپنے سامنے حاضر کر کے عہد لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سب نے بیک آواز کہا ؛کیوں نہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح کر دیا کہ (ایک اللہ پر ایمان) اللہ کی وہ فطرت ہے کہ جس پر اس نے تمام انسانوں کو پیدا فرمایا۔
لوگو! بوئنگ طیارے میں ہیلی کاپٹر کا انجن فٹ کر دیا جائے‘ وہ نہیں اڑے گا۔ مرسیڈیز کار کے انجن کا کوئی پرزہ ہنڈا یا ٹویوٹا کے انجن میں اجنبی ہوگا۔ کام نہیں چلے گا۔ پولیس کا آئی جی صحافت میں چیف ایڈیٹر بنا دیا جائے تو وہ صحافتی ادارے میں اجنبی ہو جائے گا۔ جی ہاں! اللہ کو نہ ماننے کا نظریہ ہر انسان میں اجنبی ہے۔ اللہ کے بارے شک کا شکار ہو جائے تو ڈبل مائنڈڈ بن کر جئے گا۔ جسم کی صحت پر اس کے تباہ کن اثرات ہوں گے۔ میڈیکل ریسرچ نے واضح کر دیا کہ جس انسان کا اللہ پر ایمان ہوتا ہے‘ اس کو بیماری لگ جائے‘ تو جلدی صحت یاب ہو جاتا ہے۔ اللہ کے بارے میں شک کے مرض میں مبتلا انسان جلدی ٹھیک نہیں ہوتا۔جی ہاں! امید‘ حوصلہ اور صبرو ثبات ایمان سے ملتا ہے۔
امام زبیدیؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ''شہرۃ الاحیاء‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت بلالؓ اپنی وفات کے موقع پر زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے تو بیوی نے کہا کہ ہم پر تو غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑنے کو ہے۔ اس پر حضرت بلالؓ نے فوراً کہا ؛کل کا دن شادمانی کا دن ہوگا کہ میں حضرت محمد کریمؐ اور آپؐ کے صحابہؓ سے ملاقات کروں گا۔ اسی طرح جب ہم سب کی روحانی اماں جان حضرت عائشہؓ پر آخری وقت آیا تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ ان کے پاس حاضر ہوئے اور کہا؛ اماں جان! مبارک ہو‘ حضرت محمد کریمؐ سے ملاقات کرنے جا رہی ہیں۔ بس آپ کے اور حضورؐ کے درمیان ملاقات کیلئے رکاوٹ صرف اس قدر ہے کہ جونہی آپؓ کی روح جسم سے الگ ہوگی تو ملاقات کی راہ میں رکاوٹ دم توڑ دے گی۔
یہ ہے ‘ایمان اور ایمان کے مظاہرے اور نظارے‘ جو انتہائی ایمان افروز ہیں۔ انتہائی خوشبودار ہیں‘ مگر یہ ایمان کے خوبصورت گلدستے دل کے اس باغ سے وجود میں آتے ہیں۔ اس گلستان اور چمنستان سے بہاریں دیتے ہیں۔ جس دل میں ایمان کا باغ ہو‘ جو اپنے دل میں ایسا باغ لگانا چاہے‘ وہ حضرت محمد کریمؐ پر نازل ہونے والے قرآن کا باغ لگائے۔ حضور کے فرمان کا باغ لگائے۔اور جو اس سے محروم رہ گیا‘ وہ دل بنجر اور ویران رہے گا۔ سپیس اور ٹائم سے باہر ایمان کی حقیقی خبر صرف حضرت محمد کریمؐ سے ملے گی!