"AHC" (space) message & send to 7575

قرآن پاک اور آسمانی سائنس

اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ''بدیع‘‘ بھی ہے ‘یعنی وہ بغیر کسی مادے وغیرہ کے اور بغیر کسی نمونے کے اپنی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی مذکورہ صفت کا اظہارقرآن مجید فرقان حمید میں یوں ہوا ہے : 
مفہوم : وہ(اللہ) آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہی اور جب اللہ کسی کام کو (وجود میں لانے کا) فیصلہ کر لیتا ہے‘ تو بس ''کُن‘‘ کہتا ہے اور وہ کام وجود میں آجاتا ہے۔ (البقرہ:117)۔
جی ہاں! ساڑھے چودہ سو سال قبل مندرجہ بالا قرآنی آیت حضرت محمد کریمؐ کی طرف سے الہام بن کر سامنے آئی۔ اس میں دو بنیادی حقیقتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کو عدم‘ یعنی(Nothingness) سے وجود میں لایا گیا ہے۔ آج تمام سائنسدان جو فلکیات سے متعلق ہیں‘ اس حقیقت کے ساتھ متفق ہو چکے ہیں کہ کائنات عدم سے وجود میں لائی گئی ہے۔
معروف امریکی فلکیاتی سائنس دان Lawrence Maxwell Krauss نے اس موضوع پر باقاعدہ کتاب لکھی ہے۔ اس کا عنوان کچھ یوں ہے:
A Universe from Nothing.
آج سے ایک صدی یا ڈیڑھ صدی پہلے تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ‘یعنی یہ مادی کائنات ایک طرح سے معبود تھا اور اس کے اجزا ‘یعنی سورج‘چاند‘ زمین وغیرہ کی پوجا بھی کی جاتی تھی۔ آج بھی بعض ملکوں میں ہوتی ہے۔ اسے عبادت کے درجے سے نیچے گرایا تو حضرت محمد کریمؐ پر نازل ہونے والے قرآن نے گرایا؛ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ آج کی سائنس انتہائی ادب و احترام کے ساتھ حضرت محمد کریمؐ کے علمی دربار میں آنکھیں نیچی کر کے کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔
قرآنی آیت میں جو دوسری حقیقت ہے‘ وہ ''آسمان‘‘ ہے۔انسان جو ہزاروں زبانیں اور بولیاں بولتے ہیں‘ ان میں آسمان بلندی اور خلا کے معنوں میں ہے‘ یعنی یہ ایسی بلندی اور رفعت ہے‘ جو کسی شے سے خالی ہے۔ اب ‘خالی خلا کو کوئی کیا پوجتا؟ اس خلا کی کوئی حیثیت سائنسدانوں اور عام انسانوں کے ہاں نہ تھی‘ مگر قرآن نے جب اس کی اہمیت بنائی اور فرمایا:
''کہ ہم نے اس آسمان کوایک عظیم طاقت کے ساتھ بنایا اور اسے لگاتار وسیع کرتے چلے جا رہے ہیں‘‘ (الذاریات:47) ۔
اللہ اللہ! 1929ء میں‘ یعنی آج سے صرف 90سال قبل سائنس بولی اور دنگ رہ گئی کہ یہ خلا یا آسمان تو وسیع ہوتا چلا جا رہاہے اور اس میں کہکشائیں اور ان کے چاند‘ سورج اور زمینیں سب بھاگ رہے ہیں۔ 
جی ہاں! سائنس پھر سر پکڑ کر میرے حضور کی علمی یونیورسٹی میں بیٹھ گئی کہ میں اس یونیورسٹی میں ساڑھے تیرہ صدیاں لیٹ اور تاخیر سے پہنچی ہوں۔ قرآن کہتا ہے:
''حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے کہیں بڑھ کر (بڑی اور شدید ترین) تخلیق ہے ‘مگر اکثر لوگ علم نہیں رکھتے‘‘ (المومن 57)۔
جی ہاں! مندرجہ بالا بات کے بعد قرآن مجید فرقان حمید نے دلیل کے طور پر یوں آگاہ کیا:
''اس آسمان کی قسم جو جالی دار ہے‘‘ (الذاریات7) ۔
جالی دار کیلئے لفظ ''حبک‘‘ آیا ہے۔ اس کا معنی آسمان میں ستاروں کے راستے بھی ہیں (قاموس) اس کا معنی کسی چیز کوباندھنا بھی ہے۔ کپڑے کو مضبوطی اور خوبصورتی کے ساتھ بننا بھی ہے۔ پانی یا ریت پر ہوا کی لہریں بھی ہیں۔Stephen Hawking کی کتاب: The Universe in a Nutshellمیرے سامنے کھلی پڑی ہے۔ اس میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ آسمان جالی دار ہے‘ پھر وہ کپڑے جیسی جالی بنا کر اس میں سورج چاند وغیرہ دکھاتے ہیں۔
سبحان اللہ! سائنس پھر میرے حضورؐ کی چوکھٹ پر جھکی ہوئی نظر آئی کہ وہ حضورؐ پر نازل ہونے والے قرآن سے ساڑھے تیرہ صدیاں پیچھے رہ گئی ہے۔یہاں ایک سٹیفن ہاکنگ کیا سب سائنسدان کو اعتراف کرنا پڑا:
Space : The Biggest Mystery in the Universe.
آسمان (Space) ایسی سب سے بڑی ناسمجھ میں آنے والی شے ہے‘ جو کائنات میں موجود ہے۔
مندرجہ بالا قول سب سائنسدانوں کی نمائندگی میںAlex Filippenkoکا ہے۔ اسی طرح نامورفلکیاتی سائنس دان Sylvester James Gates کہتے ہیں؛ فزکس میں سب سے بڑھ کر جو انتہائی گہری طلسماتی شے ہے وہ سپیس ہے۔ 
جی ہاں! اللہ تعالیٰ نے ایسے نہیں قسم اٹھائی۔ آسمان کی تخلیق کی عظمت کو ظاہر کرنے کیلئے قسم اٹھائی‘ پھر یہ بھی فرما دیا کہ یہ آسمان ''انشقت‘‘ پھٹ جائے گا۔ یہ ذکر سورہ انشقاق کی پہلی ہی آیت میں ہے۔ ''انفطرت‘‘ بھی کہا‘ جو سورت انفطار کی پہلی آیت کا لفظ ہے۔
آج سائنسدان کہتے ہیں کہ ڈارک انرجی کی وجہ سے سپیس کا پھیلائو ہو رہا ہے۔ آخرکار یہ پھیلائو رکے گا اور یہ آسمان پھٹ جائے گا۔ اس کیلئے سائنسدانوں نے Rip اور Split کے الفاظ استعمال کیے ہیں؛ حالانکہ وہ Blast کا لفظ بھی بول سکتے تھے۔ Blownup اور Expload کے الفاظ بھی کہہ سکتے تھے‘ مگر انہوں نے نہیں کہے‘ کیونکہ ان کے معنوں میں دھماکہ خیزی پائی جاتی ہے ‘جبکہ سائنسدانوں کے دونوں الفاظ انشقاق اور انقطار کے زیادہ قریب اور مماثل ہیں۔
فلکیاتی سائنسدان ڈاکٹر مائیکل ٹرنر (Dr. Michael Turner) کے الفاظ بھی سنے جا سکتے ہیں۔ میں نے ریسرچ کرتے ہوئے نوٹنگھم یونیورسٹی برطانیہ کے فلکیاتی سائنسدان Herbert Faulkner Copeland اور Alexei Vladimir کے الفاظ سنے؛ جو رپ اور سپلٹ ہی تھے‘ اسی طرحBrian Randolph Greene سائنسدان نے اپنی لیبارٹری مین تجربہ کر کے دکھلایا کہ آسمان کیسے Split کرے گا؟
جی ہاں! آج کی لیبارٹریاں‘ تجربہ گاہیں‘ یونیورسٹیاں اور سائنسدان اپنے الفاظ تک کے ساتھ حضرت محمد کریمﷺ کی صفہ یونیورسٹی کی علمی دہلیز پر کھڑے اپنے دانتوں میں انگلیاں دبائے حیران کھڑے ہیں کہ ہم تو ہزار سال سے بھی زیادہ دور کھڑے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ان سائنسدانوں کو عنقریب کہنا پڑے گا کہ اگر سائنس دو زانو ہو کر مدینے میں ادب و احترام کے ساتھ میرے حضورؐ کی شاگردی کے رشتے میں بندھ جاتی تو آج سائنس کی تاریخ سینکڑوں سال آگے ہوتی‘ بلکہ میں کہتا ہوں آج بھی اگر شاگردی اختیار کر لے تو دنوں کا سفر لمحوں میں‘ہفتوں کا دنوں میں اور مہینوں کا ہفتوں میں طے ہو جائے۔ بہرحال عملی صورتحال اور حقیقت بہرحال یہی ہے کہ میرے حضورؐ کی تلاش میں سائنس آج بھی بھاگم بھاگ جھولی پھیلائے ہوئے ہے جستجو کی‘ تو قرآن اور حدیث میرے حضورؐ کی قیامت تک علم کا اک سمندر ہے۔ 
میں نے انڈیا کے ایک نوجوان عالم جناب ابراہیم صاحب کے پروگرام ''قرآن کا پیغام‘‘ سے استفادہ کیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی انڈیا سے دیس نکالا دے دئیے گئے۔ ہندوستان کے مسلمان مشکل میں ہیں۔ قصور ان کا حضرت محمد کریمؐ کا کلمہ پڑھنا ہے۔ 
میں کہتا ہوں ہندوستان کو علم اور تہذیب ملی تو مسلمانوں سے ملی۔ اس دعا کے ساتھ رخصت چاہوں گا کہ میراوطن عزیز پاکستان محفوظ رہے۔ مقبوضہ کشمیر کو آزادی ملے اور ہندوستان کے مسلمانوںکو بھی اک ''نیا پاکستان‘‘ ملے۔ (آمین)
آج کی لیبارٹریاں‘ تجربہ گاہیں‘ یونیورسٹیاں اور سائنسدان اپنے الفاظ تک کے ساتھ حضورؐ کی صفہ یونیورسٹی کی علمی دہلیز پر کھڑے اپنے دانتوں میں انگلیاں دبائے حیران کھڑے ہیں کہ ہم تو ہزار سال سے بھی زیادہ دور کھڑے ہیں۔ ان سائنسدانوں کو عنقریب کہنا پڑے گا کہ اگر سائنس دو زانو ہو کر حضورؐ کی شاگردی کے رشتے میں بندھ جاتی تو آج سائنس کی تاریخ سینکڑوں سال آگے ہوتی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں