اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے مدینہ منورہ کا صفاتی نام طیبہ بھی رکھا اور ''طابہ‘‘ بھی رکھا۔ تھوڑے سے فرق کے ساتھ دونوں کا معنی ایک ہی ہے ‘یعنی پاکیزہ اور عمدہ۔ 1947ء میں جب برصغیر کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک آزاد ریاست عطا فرمائی‘ تو حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ نے اس کا نام پاکستان رکھنے کی منظوری دی۔ پاکستان کا معنی بھی پاکیزہ اور عمدہ مقام ہے‘ یعنی پاکستان کا عربی میں ترجمہ کریں تو طیبہ ہے اور طیبہ کا فارسی میں ترجمہ کریں تو وہ پاکستان بن جاتا ہے۔ ایسے پاکستان کی اساس ''لا الہ الا اللہ‘‘ ہے۔ ''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کو کلمہ طیبہ کہا جاتا ہے‘ اسی طرح جب حضرت قائداعظم رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان میں کون سا دستور اور قانون اپنائیں گے ؟تو انہوں نے فوراً جواب دیا کہ ہم مدینے کی ریاست کا تجربہ کریں گے۔
پاکستان کا آئین ‘جو 1973ء میں بنایا گیا ‘وہ اسی تجربے کا آئینہ دار ہے۔ وہ ایک الگ داستان ہے کہ ہم اس پر عمل پیرا نہیں ہو سکے۔ ایسی ریاست کے حکمران اور عوام کیسے کردار کے حامل ہوں۔ قرآن ِپاک اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک مثال کے ساتھ سمجھاتا ہے۔ فرمایا '' میرے پیارے رسولؐ! آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اچھے کلمے کی مثال بیان کی ہے کہ وہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہوتا ہے۔ وہ اپنا پھل اپنے رب کے حکم سے ہر وقت دیتا ہے اورلوگوں کے لئے ایسی مثالیں اس لئے بیان فرماتے ہیں ‘تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں‘‘۔ (ابراہیم: 25,24)
یہاں شجر طیبہ‘ یعنی پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے‘ کیونکہ اللہ کے رسولؐ نے صحابہ کو تعلیم دیتے ہوئے ایک بار سوالیہ انداز میں پوچھا کہ ''درختوں میں سے ایک درخت ہے۔ اس کے پتّے نہیں گرتے۔ اس کی مثال (کردار کے لحاظ سے) مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ۔ وہ کون سا درخت ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمرؓ (جو تب ایک نوخیز لڑکے تھے اور حضورؐ کی مجلس کے رکن ہوتے تھے) کہتے ہیں کہ میرے دل میں یہ آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے‘ لیکن (بڑے بڑے صحابہ کی خاموشی کی وجہ سے) میں شرم کے مارے خاموش رہا ؛حتیٰ کہ صحابہ نے عرض کی:اے اللہ کے رسولؐ! ہمیں خود ہی آگاہ فرما دیجیے۔ آپؐ نے بتایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جب مذکورہ بات اپنے باپ حضرت عمرؓ کو بتائی تو وہ کہنے لگے؛ اگر تم مجلس میں بتا دیتے تو مجھے بے پناہ خوشی ہوتی۔ (بخاری و مسلم)
کھجور کے درخت کی خوبی یہ ہے کہ اس کی جڑ نیچے زمین میں سیدھی جاتی ہے۔ باقی کئی درختوں کی طرح اس کی جڑ مضبوط شاخیں نہیں بناتی کہ جس سے شاخیں اردگرد دور دور تک پھیل جاتی ہیں اور فرش اور دیواریں تک اکھاڑ دیتی ہیں‘ اسی طرح اس کی شاخیں لمبے تنے کے سرے پر آسمان میں ہوتی ہیں۔ پتّے نہیں گرتے۔ یہ سارا سال سبز رہتے ہیں۔ پھل انتہائی میٹھا اور غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ سورہ ابراہیم میں شجرِ طیب سے مراد کھجور کے علاوہ بھی ایسے درخت مراد ہیں‘ جو کھجور جیسی صفات کے حامل نہیں ‘یعنی اس کے پتّے سارا سال سبز رہتے ہیں اور گرتے نہیں ہیں ‘تو وہ انسان دوستی کی اعلیٰ ترین مثال ہیں کہ وہ سارا سال‘ یعنی ہر لمحہ آکسیجن دیتے ہیں اورکاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر لیتے ہیں۔
قارئین کرام! امریکہ کی یونیورسٹی آف فلاڈلفیا نے پتّے کے ایک خلیے کے اندر کا جہاں الیکٹرونک خوردبین کے ذریعے دنیا کو دکھلایا ہے۔ میں نے اس خلیے کو کہ جو انسان کی آنکھ کو دکھائی نہیں دیتا‘ خوردبین کی آنکھ سے یوٹیوب پر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ کس طرح اس خلیے کا منہ آکسیجن چھوڑ رہا ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر رہا ہے۔ اس خلیے میں صرف اتنی بات نہیں ہے‘ اس میں ایک چھوٹا سا جہان آباد ہے‘ جو انتہائی سرسبز ہے۔ یوں سمجھیے کہ سبز رنگ کے طرح طرح کے چمنستان ہیں اور ایک ایسا چمن بھی ہے کہ جہاں انتہائی ننھے رنگین یوں نظر آتے ہیں‘ جیسے وہ اپنے خالق کی شان میں سبحان اللہ کا ورد کر رہے ہیں۔
اللہ اللہ! میرے حضورؐ کو درخت بھی وہ پسند آیا‘ جو ساری زندگی آکسیجن دیتا ہے‘ یعنی جانداروں کے لئے زندگی اور خیر کا باعث بنتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی صورت میں جو کانٹے بکھیرے گئے ہیں ‘وہ ان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور اسے آکسیجن میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ خیر اور بھلائی کا کارخانہ ہے۔ مومن کو ایسا ہونا چاہیے۔ اس کی زبان میں کھجور کی مٹھاس ہونی چاہیے۔ کردار بھی کڑوا نہیں‘ بلکہ میٹھا ہونا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ‘ قائداعظم‘ؒ لیاقت علی خان: اور ان کے اہم ترین مخلص ساتھیوں نے پاکستان بنایا تو ایسا ہی خواب دیکھا؛ چنانچہ پاکستان نے اپنی 73سالہ زندگی میں جارحیت کے خلاف اپنا دفاع ہی کیا اور بھرپور دفاع کیا۔ وہ آج بھی اپنا دفاع ہی کر رہا ہے۔ مظلوموں کے حق میں اپنی آواز بلند کرتا ہے اور امن کی دعوت دیتا ہے۔ پاکستان کا سب سے لمبا بارڈر انڈیا کے ساتھ لگتا ہے ‘وہاں سے آئے روز ہمارے فوجی جوانوں اور عام شہریوں کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کو اپنے دفاع میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ دوسرا بڑا بارڈر افغانستان کے ساتھ لگتا ہے۔ وہاں سے بھی دہشت گردانہ جارحیت ہوتی ہے۔ پاکستان نے اب‘ وہاں باڑ لگانا شروع کی ہوئی ہے‘ یعنی یہاں بھی پاکستان امن کی باڑ کے ذریعے آکسیجن چھوڑ رہا ہے اور ہائیڈروجن کو اپنے اندر جذب کر رہا ہے۔ تیسرا بارڈر ہمارا ایران کے ساتھ لگتا ہے۔ اس وقت ایران اور امریکہ دونوں جنگ کی حالت میں ہیں۔
پاکستان نے اپنے موقف کا برملا اظہار کر دیا ہے کہ وہ جنگ میں کسی کا ساتھی نہیں بنے گا‘ بلکہ امن کے لئے اپنی استطاعت کی حد تک کردار ادا کرے گا۔ میں کہتا ہوں کہ جنگ میں کسی کے خلاف کسی کا ساتھی نہ بننا بھی امن و امان کا کردار ہے کہ جنگ میں کسی کا ساتھ دینے سے جنگ کو شعلے ملتے ہیں اور ساتھ نہ دینے کے اعلان سے بھڑکنے والے شعلے بھسم ہوتے ہیں۔ یوں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بننے کا موقع نہیں ملتا ‘جبکہ آکسیجن کے پتّے بدستور اپنا کردار ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔
جنرل ضیا الحق مؤمنانہ بصیرت کے حامل حکمران تھے۔ انہوں نے ایران عراق جنگ میں صلح کی کوشش کی‘ مگر حصہ بننے سے انکار کیا۔ وہ امت کو متحد کرنے میں لگے رہے۔ افغانستان میں کمیونسٹ روس نے جارحانہ قبضہ کیا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے روسی فوج کو وہاں سے نکلتے ہوئے دیکھا‘ یعنی اپنے پاکستان کو جنگ کی آگ سے بھی بچایا اور افغانستان کی آزادی کا مقدمہ بھی لڑا۔ ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی جارحیت کرنے سے روکنے میں کامیاب رہے۔ امریکہ کے مائیک پومپیو نے پاک فوج کے سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کیا‘ تو انہوں نے واضح الفاظ میں امن و امان کا پیغام دیا اور پاکستان کے حصہ دار بننے کو واضح الفاظ میں مسترد کر دیا۔
یہ ہے؛ پاکستان کے سدا بہار درخت کا کردار کہ دنیا کے ماحول کو ہم سے آکسیجن ملے نہ کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ۔یاد رہے وزیراعظم عمران خان نے جنرل باجوہ صاحب کو پرامن کردار ادا کرنے کا کہا ہے۔ ہماری فوج ایٹمی پاور کی حامل ہے‘ مضبوط اور ایمان کی بنیاد پر طاقتور میزائل ٹیکنالوجی کی حامل فوج ہے۔ اس کے باوجود حلم و حوصلے اور امن و امان کی علمبردار فوج ہے۔ جنرل ضیاء الحق بڑے حوصلے اور اعلیٰ اخلاق والے حکمران اور جرنیل تھے۔ جنرل باجوہ بھی ایسے ہی جرنیل ہیں‘ جب وہ پہلی بار میاں نواز شریف کے ہاتھوں آرمی چیف بنے تھے تو میں نے لکھا تھا کہ وہ بلند حوصلہ‘ نڈر‘ مگر کھلے ذہن اور نرم مزاج قسم کے آدمی ہیں۔
میری دعا ہے کہ اس فوج کی حفاظتی باڑ میں پاکستان اور اس کے عوام محفوظ رہیں‘ مگر اس حفاظتی چھتری کو یقینی بنانے کیلئے ہمیں بھی بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ دنیا کے موجودہ حالات میں ہمیں سچا مسلمان اور پکا پاکستانی بننا ہو گا۔ پاکستان کا استحکام‘ پاکستان کے دشمنوں کو تکلیف دیتا ہے ‘مگر ہمیں متحد ہو کر دشمنوں کی تکلیف میں کمی نہیں‘ بلکہ اضافہ کرنا ہے۔ کھجور کے درخت کا تنا جس طرح مضبوط ہے‘ اسی طرح ہمارے فوجی کا سینہ مضبوط ہے۔ ہمیں مضبوط کا پشتیبان بھی بننا ہے‘ آکسیجن کو چھوڑ کاربن کو جذب بھی کرنا ہے اور گفتار کو کھجور کی مٹھاس سے میٹھا بھی کرنا ہے۔ (ان شاء اللہ)