حضرت عبداللہ بن عباسؓ بتاتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں بکنے کیلئے کچھ اونٹ آئے۔ حضورؐ نے ان میں سے ایک اونٹ خرید لیا۔ جب آپؐ نے اس کو فروخت کیا ‘تو چاندی کے سکوں میں نفع حاصل ہوا۔ آپؐ نے نفع کی وہ ساری رقم اپنے دادا جناب عبدالمطلب کے خاندان کی بیوہ خواتین میں تقسیم فرما دی اور فرمایا ''میں وہ چیز نہیں خریدتا‘ جس کی قیمت میرے پاس نہ ہو‘‘ (مسند احمد بن حنبل:2093)۔
قارئین کرام! غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت محمد کریمؐ مدینہ کے حکمران ہیں۔ آپؐ کے پاس جو تھوڑے بہت پیسے ہیں‘ وہ صرف اس قدر ہیں کہ ایک ہی اونٹ خرید سکیں۔ وقت نکال کر منڈی میں تشریف لے گئے۔ اونٹ خریدا‘ پھر اس کو بیچا اور جو نفع ملا‘ اس کو خاندان کی بیوہ خواتین میں تقسیم فرما دیا۔ حضورؐ مدینہ کے سرکاری بیت المال سے سب ضرورت مندوں کی خدمت فرماتے تھے‘ مگر اپنے خاندان کی مستحق عورتوں کیلئے خود تھوڑا سا کاروبار کر لیا اور وہ لوگ کہ جو شدید لالچ اور ہوس میں مبتلا ہو کر کاروبار کرتے ہیں کہ اپنے پاس معمولی پیسے ہوتے ہیں‘ منصوبہ بنا کر دوسروں کے پیسوں سے کاروبار کرتے ہیں‘ پھر مزید ظلم یہ کرتے ہیں کہ لوگوں کا پیسہ جس منصوبے کیلئے حاصل کرتے ہیں ‘اس میں تھوڑا سا خرچ کر کے باقی رقم اپنے کسی اور منصوبے میں لگا دیتے ہیں۔ عموماً ہائوسنگ سکیموں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ پلاٹ ملنے کو ترس جاتے ہیں اور یہ لیٹ سے لیٹ ہوتا چلا جاتا ہے۔
حضورؐ نے ایسا ظلم کرنے والوں پر واضح کر دیا کہ میں وہ چیز نہیں خریدتا‘ جس کے پیسے میرے پاس نہ ہوں۔ لوگ چیک دے دیتے ہیں‘ مگر بینک میں پیسے نہیں ہوتے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں اس پر قانون بن گیا کہ چیک کیش نہ ہوا تو جیل یاترا ہوگی اور جب تک پیسوں کی ادائیگی نہ ہوگی‘ جان نہ چھوٹے گی۔ اس قانون سے کاروبار میں بہتری آئی‘ مگر یہ قانون بعد میں آج تک تنفیذ کے میدان میں ناکارہ ہو کر رہ گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدینے کی ریاست کیسے بنے گی؟
مکہ فتح ہو چکاہے اور اللہ کے رسولؐ سارے جزیرۃ العرب کے حکمران بن چکے ہیں۔ آج کا سعودی عرب‘ سلطنت عمان‘ عرب امارات‘یمن‘ بحرین‘ قطر وغیرہ سب اللہ کے رسولؐ کی حکمرانی میں شامل ہیں۔ حضورؐ اپنی ازواج ِمطہرات کے ساتھ حج کرنے مکہ تشریف لے گئے ہیں۔ حج ادائیگی کے بعد حضرت عائشہؓ اپنے حکمران شوہر سے ایک گزارش کرتی ہیں کہ ''میں نے عرض کی؛اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ کی تمام بیویاں بیت اللہ شریف کے اندر داخل ہو چکی ہیں۔ میں (ایک عذر کی وجہ سے) محروم رہ گئی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: تم شیبہ کو پیغام بھیجو۔ وہ تمہارے لئے دروازہ کھول دیں گے؛ چنانچہ میں نے پیغام بھیجا‘ تو اس نے واپسی کا جواب یوں بھیجا؛ ہم نے تو جاہلیت کے زمانے میں بھی رات کو کعبہ کا دروازہ کھولنے کی جرأت نہیں کی اور نہ ہی اب ‘اسلام لانے کے بعد ایسی جرأت کی۔ حضورؐ نے یہ بات سن کر حضرت عائشہؓ سے فرمایا: ''حجر (حطیم) میں نماز پڑھ لو۔ تمہاری قوم نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے بیت اللہ سے باہر رہنے دیا تھا‘‘ (مسند احمد:24888)۔
شیبہ چابی بردار خاندان کا فرد تھا۔ حضورؐ نے فتح مکہ کے موقع پر احسان کر کے چابی مستقل طور پر مذکورہ خاندان کو دی تھی۔ اس کے باوجود حضورؐ نے انہیں کچھ نہیں کہا۔ لوگو! ذرا غور کرو کہ آج کے بادشاہ کی رعایا صدر یا وزیراعظم کی خاتون اول کی بات کو کوئی افسر ٹال دے تو اس کا کیا حال ہوگا؟ اللہ اللہ! میرے حضورؐ نے کوچ فرمایا اور سرکار مدینہ‘ مدینہ کی جانب چل دئیے۔ جب تک پاکستان کے حکمرانوں میں ایسا حوصلہ اور برداشت دکھائی نہ دے گی‘ مدینہ کی ریاست نہ بن سکے گی!
حضرت انس بن مالکؓ بتاتے ہیں کہ ایک بار حضورؐ کی خدمت میں (بھنے یا پکے ہوئے) تین عدد پرندوں کا تحفہ آیا۔ آپؐ نے ان میں سے ایک پرندہ گھر کی خادمہ کو دے دیا۔ اگلے دن اس نے وہی پرندہ حضورؐ کے سامنے رکھ دیا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ''میں نے منع کیا تھا کہ اگلے دن کیلئے کچھ سنبھال کر مت رکھو۔ ہر آنے والے دن کا رزق اللہ دیتے ہیں‘‘ (مسند احمد: 13074)۔
صدقے قربان حضورؐ کے مہربان اور پررحمت رویے پر کہ آپؐ گھر کی خادمہ پر اس لئے ناراض ہو رہے ہیں کہ تم نے اسے کھایا کیوں نہیں؟ میرے لئے اسے سنبھال کر کیوں رکھا؟ لوگو! جب تک میرے پاکستان میں کمزوروں کے ساتھ طاقتوروں اور مالداروں کے رویے ایسے نہیں ہو جاتے‘ ہمارا ملک مدینہ کی ریاست نہیں بن پائے گا۔ جہاں سود مافیاسے لے کر آج تک آٹا اور چینی مافیاز سے جان نہ چھوٹ سکے ‘وہاں مدینے کی بہار کیسے آئے گی؟
حضرت سوادہ بن ربیعؓ بتاتے ہیں کہ میں ایک بار حضور رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور تعاون کی درخواست کی۔ آپؐ نے مجھے ایک اونٹ عطا فرمایا اور نصیحت فرمائی کہ جب تم واپس اپنے گھر میں جائو ‘تو خاندان والوں سے کہو کہ اپنے جانور کی غذا اچھی رکھیں۔ ناخن کاٹا کریں‘ تاکہ اپنے مویشیوں کا دودھ نکالتے وقت ان کے تھنوں کو ناخنوں سے خون آلود نہ کر دیں‘‘ (مسند احمد:16057)۔
محسوس ہوتا ہے کہ حضور رحمت دو عالمؐ کو کوئی شکایت ملی ہوگی کہ بعض دیہاتوں میں لوگ دودھ نکالتے ہوئے اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں کی وجہ سے گائے‘ بکری اور اونٹنی کے تھنوں کو خون آلود کر دیتے ہیں۔ میرے حضورؐ نے جانوروں کے حقوق کا بھی تحفظ کیا اور دودھ پینے والے انسان کے بچوں کو بھی خون آلود دودھ پینے سے محفوظ فرمایا۔ گائے‘ اونٹنی اور بھیڑ‘ بکری کے بچوں کا بھی تحفظ کیا کہ وہ خون آلود تھن کو منہ میں ڈال کر دودھ پئیں گے تو جہاں ان کی ماں تکلیف میں ہوگی ‘ان کی اپنی صحت پر بھی اثر پڑے گا۔ یہ ہیں؛ مدینہ منورہ کے حکمران‘ جو بے حد مہربان ہیں۔ رفیق اور رقیق ہیں۔ رحیم تو ہیں ہی‘ ریشم سے کہیں بڑھ کر نرم اور ملائم دل والے ہیں۔
لوگو! جب تک رعایا کے جانوروں کی اس حد تک خبر رکھنے والا حکمران ہم لوگوں کو نہ ملے گا؛ پاکستان‘ مدینے کی ریاست نہیں بن پائے گا۔ ہالینڈ کے اس سیاستدان کا نام ''ارناڈورن‘‘ ہے کہ جس نے حضورؐ کی مبارک سیرت کے خلا ف باتیں کی تھیں۔ وہ باتیں سنی سنائی اور غلط تھیں۔ جب اس نے حضورؐ کی اصل سیرت ملاحظہ کی تو اپریل 2013ء میں اس نے اسلام قبول کیا اور حضورؐ کی مسجد مدینہ منورہ میں اس نے فضیلۃ الشیخ عبدالرحمان السدیس سے سیرت کے تحفے لیے اور ریاض الجنۃ میں جب وہ میرے حضورؐ کے روضہ مبارک کے پاس کھڑا ہو کر درود پڑھ رہا تھا تو زاروقطار روتے ہوئے اس کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ کاش! ہم حضور کی مبارک زندگی کے مبارک گوشوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا سکیں۔ مدنی ریاست تو تبھی بن سکے گی!!
حضرت ابو رافعؓ کہتے ہیں کہ مکہ کے قریش نے مجھے سفیر بنا کر مدینہ میں حضرت محمد کریمؐ کے پاس بھیجا۔ میں مدینہ گیا۔ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو جونہی آپؐ کا چہرہ مبارک دیکھا تو اسلام میرے دل میں بیٹھ گیا۔ میں بول اٹھا؛ اے اللہ کے رسولؐ! میں تو قریش کی جانب واپس نہیں جائوں گا۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا؛میں عہد کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ سفیروں کو اپنے پاس روک نہیں سکتا۔ اس لئے آپ کو اس بار بہرصورت واپس ہی جانا ہوگا۔ ہاں! تمہارے دل میں اسلام پختہ رہے تو آ جانا‘‘ (مسند احمد: 24358) ۔
قارئین کرام! جب میرے حضورؐ کی حکمرانی صرف مدینہ اور اطراف میں تھی تب کا منظر بھی ہم نے دکھلایا۔ جب میرے حضورؐ کی حکمرانی مکہ میں قائم ہوگئی‘ تب کا منظر بھی ملاحظہ ہوا۔ جب سارے جزیرۃ العرب پر حکمرانی قائم ہوئی ‘تب بھی ہم نے نظارہ کیا تو سارے نظارے ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسے عظیم رسول کریمؐ کا کلمہ پڑھ کر ایسے حکمران بنتے کیسے ہیں کہ وزیر بن کر گالیاں دیتے ہیں۔ تھپڑ مارتے ہیں۔ بوٹ میز پر رکھ کر طعنے دیتے ہیں۔ برے القاب بولتے ہیں۔ پردے کھول کھول کر الزام لگاتے ہیں۔ جھوٹ کے نظام کی اصلاح کرتے نہیں۔ عوامی بہبود کے منصوبے اور ان پر گفتگو کرتے نہیں۔ علمی اور سائنسی گفتگو کرتے نہیں۔ مدینے کی ریاست کیسے بنے گی؟