قرآن میں شفاء کا لفظ چار بار آیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ قرآنی ترتیب میں پہلی دو آیات کا تعلق عام انسانیت سے ہے ‘ جبکہ اگلی دو آیات کا تعلق ان لوگوں سے ہے‘ جو قرآن کو اللہ کی طرف سے حضرت محمد کریمؐ پر نازل ہونے والی آخری کتاب مانتے ہیں۔ قرآنی ترتیب کے مطابق ‘ہم پہلے ان دو آیات کا ذکر کرتے ہیں‘ جس میں عام انسانیت کو مخاطب کیا گیا ہے۔ فرمایا ''اے انسانو! تمہارے رب کی جانب سے تمہارے پاس ایک خیرخواہی کا حامل کلام آ چکا ہے۔ سینوں میں موجود بیماریوں کے لیے یہ سراسر شفاء ہے‘‘ (یونس:57)۔ایک دوسری جگہ فرمان ِ باری تعالیٰ ہے کہ ''شہد کی مکھیوں کے پیٹوں سے مختلف رنگوں کا شہد نکلتا ہے۔ اس میں انسانوں کے لیے شفاء ہے‘‘ (النحل:69)۔
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عام انسانوں کے لیے شفاء قرار دیا‘ اسی طرح قرآن میں ہی شہد کو بھی عام انسانوں کے لیے شفاء قرار دیا۔ اب‘ شہد کی بہت ساری اقسام کا بھی قرآن نے ذکر فرما دیا۔ ظاہر ہے ہر قسم کی تاثیر الگ ہوگی۔ آموں کے باغ میں شہد کی تاثیر الگ ہوگی۔ مالٹے کے باغ میں لگے شہد کا مجھے ایک بھائی نے تحفہ دیا اس میں سے مالٹے کی خوشبو آ رہی تھی۔ طبیعت کو فرحت بخشنے میں اس کی تاثیر نرالی تھی‘ پھر شہد میں دیگر چیزیں ملا کر مختلف امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ماہرین اور حکماء کا کام ہے۔ الغرض! شہد اور اس کی مختلف مصنوعات سے عام انسانوں کو شفاء ملتی ہے اور بعض کو شفاء نہیں بھی ملتی‘ اسی طرح قرآن عام انسانوں کے لیے شفاء ہے۔ اب ‘یہ قرآن کے عالموں کا کام ہے کہ کون سی آیات کس مرض میں شفاء کا تیربہدف علاج ثابت ہوں گی۔ ساتھ اللہ کے رسولؐ سے ثابت کون سی دعائیں اور مناجات شامل کی جائیں ‘تو شفاء ملنے کے مواقع کس قدر زیادہ ہو جائیں گے؟۔ جی ہاں! قرآن تو سارے کا سارا شفاء ہے‘ مگر قرآن سننے اور پڑھنے سے کس کو شفاء کامل ملتی ہے‘ کس کو شفاء کا ایک حصّہ ملتا ہے اور کون محروم رہتا ہے؟ یہ سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ قرآن اور شہد ہر انسان کے لیے شفاء کا باعث ہیں ‘مگر شفاء اللہ کے پاس ہے۔
قارئین کرام! قرآنی ترتیب میں اب ان دو آقات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں‘ جن میں شفاء کا تعلق صرف ایمان والوں سے ہے۔ فرمایا ''یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں۔ مومنین کے لیے سراسر شفاء اور رحمت ہی رحمت ہے‘‘ (بنی اسرائیل:82)۔ شفاء سے قرآن کی چوتھی اور آخری آیت کا ترجمہ اس طرح ہے۔ فرمایا ''(میرے رسولؐ) کہہ دو کہ یہ (قرآن) تو مومنوں کیلئے سراسر ہدایت اور شفاء ہی شفا ہے‘‘ (حٰم السجدہ:44)۔ ثابت یہ ہوا کہ وہ لوگ جو قرآن پر ایمان رکھتے ہیں ‘وہ روحانی ہدایت بھی حاصل کرتے ہیں۔ جسمانی شفاء بھی پاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصہ دار بھی بنتے ہیں۔ یاد رہے! میڈیکل کی دنیا میں اس اصول کو تجرباتی بنیادوں پر تسلیم کیا گیا ہے کہ شفاء کے حصول میں آدھا کام دوائی کا ہوتا ہے ‘جبکہ آدھا کام مریض کا اعتقاد اور نظریہ کرتا ہے کہ مجھے شفاء مل جائے گی۔ اس میں ڈاکٹر کی مہارت اور خوش اخلاقی کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ تیمار داری کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ اب‘ اگر ڈاکٹر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امید کی بات کرے۔ تیماردار بھی اللہ کی رحمت کا یقین دلا کر حوصلہ دیں تو بات آخر کار اعتقاد اور نظریے پر ہی ختم ہو گی۔ ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ اچھا ماحول اور اس میں اچھی آوازیں بھی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اس میں پرندوں کی آوازیں‘ چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں‘ آبشاروں‘ جھرنوں اور پہاڑی علاقوں میں پتھروں کو چھو کر گزرنے والے دریاؤں کی آوازیں‘ سمندر کی لہریں‘ رِم جِھم کرتی یا موسلادھار بارش کی آوازیں‘ درختوں کے پتّوں کو چھو کر گزرنے والی ہوا کی آوازیں ‘بھی انسانی صحت پر خوشگوار اثر ڈالتی ہیں۔ قارئین کرام! میں کہتا ہوں کہ ان آوازوں میں بھی تو ''سبحان اللہ‘‘ کا ذِکر ہے۔ قرآن کہتا ہے ''آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے‘ سب سبحان اللہ کہہ رہے ہیں ‘لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو نہیں جانتے‘‘ اسی طرح پرندوں کے بارے میں بھی فرمایا کہ وہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ مغرب سے ذرا پہلے کسی باغ میں‘ پارک وغیرہ میں جائیں تو چڑیوں کی چہچہاہٹ سنیں۔ جونہی سورج غروب ہوگا۔ یہ خاموش ہو جائیں گی اور پھر صبح جب فجر طلوع ہوگی تو یہ سورج کے نکلنے سے پہلے پھر شروع ہو جائیں گی اور سورج نکلنے سے ذرا پہلے بند ہو جائیں گی۔ قرآن پاک نے یہی ٹائم مومنوں کو ذکر کرنے کا بتایا ہے۔ سبحان اللہ! مومن کے عمل اور فطرت میں کس قدر ہم آہنگی اور یکسانیت ہے۔
قارئین کرام! سب سے خطرناک مرض سرطان‘ یعنی کینسر ہے۔ کسی جگہ انسانی خلیات میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ وہ کنٹرول سے باہر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جسم کا دفاعی نظام جسے ''امیون سسٹم‘‘ کہا جاتا ہے ‘وہ دفاع میں ناکام ہوتا چلا جاتا ہے تو آخر کار انسان مفلوج ہو کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ کورونا وائرس بھی ایسا ہی ایک وائرس یا جراثیم ہے‘ جو انسانی خلیے پر حملہ آور ہوتا ہے۔ دفاعی نظام ناکام ہوتا چلا جاتا ہے اور آخر کار انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ یاد رہے! انسانی جسم میں کوئی دس کھرب خلیات ہوتے ہیں۔ ہر خلیہ ڈی این اے اور ڈی این میں ''جین‘‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ترجمان میگزین (The Harvard Gazette) نے یکم فروری 2013ء کو انسانی جینوم کے بارے میں بھی اپنی تحقیق میں چارلس واٹس کے حوالے سے لکھا تھا کہ جین کے ایک حصے میں خالق کا پیغام دریافت ہوا ہے۔ ہمارا خالق ہم سے جینوم کی تحریر کے ذریعے ہم سے باتیں کر رہے ہیں‘اسی طرح یہ تحقیق بھی سامنے آ چکی ہے کہ انسانی ڈی این اے میں الحاد کا عقیدہ اجنبی ہے‘ جبکہ خالق کو ماننے کا عقیدہ فطری ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں میڈیکل سائنس کی مزید حقیقت یہ ہے کہ انسانی خلیات آواز کے ذریعے منفی اور مثبت اثرات قبول کرتے ہیں۔ انسان کی اپنی زبان کی آواز اور دوسرے انسانوں کی مثبت آوازیں کانوں کے ذریعے دماغ تک جاتی ہیں۔ دماغی خلیات آوازوں کے اثرات کو سارے جسم کے خلیات تک پہنچاتے ہیں۔ جی ہاں! قارئین کرام! یہاں ذرا سوچئے کہ جب دوائی ہمارے مرض کے مطابق ہوتی ہے ‘تو شفاء مل جاتی ہے‘ بالکل اسی طرح جب دماغی سوچیں انسانی جسم کے دس کھرب خلیات کے مطابق ہوتی ہیں تو شفاء کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ معروف عالمی سکالر عبدالدائم کحیل اپنی ریسرچ میں واضح کرتے ہیں کہ انسانی خلیات میں سب سے زیادہ شفاء کا اثر قرآن کی آوازوں کا ہوا ہے۔ یہ حقیقت تجربات سے ثابت ہو چکی ہے۔
میں کہتا ہوں ایسا کیوں ہو کہ انسانی خلیات میں بھی اللہ کو ماننے کی تحریر ہے اور قرآن جو آسمانی پیغام ہے‘ اس کا تعلق اللہ سے ہے کہ وہ اللہ کا کلام ہے۔ یوں روحانی کلام کا پیغام جب دماغ کے ذریعے مادی خلیات تک جاتا ہے تو ایسی ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے کہ باہر کے جراثیم کو وہ کورونا وائرس ہو یا کوئی اور اس کے لیے سروائیو کرنا اور موجودگی کو دوام دینا مشکل ہو جاتا ہے‘ لہٰذا شفاء کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ قرآن کو اللہ کا کلام نہ ماننے والے کا المیہ یہ ہے کہ اس کے خلیات میں ایک خالق کی تحریر تو موجود ہے ‘مگر ماحول اور شیطان نے اس کو اللہ کا منکر بنا دیا ہے‘ لہٰذا اس کے اندر ایک کشمکش ہے اس کشمکش یا جنگ میں شفاء کا اثر کم سے کم تر ہو جاتا ہے‘ جبکہ مومن کے لیے کہ مومن کی بھی ایمانی سیڑھیاں ہیں‘ اسی کے مطابق ہی شفاء ملتی ہے۔
اور آخری بات یہ ہے کہ آخری فیصلہ قرآن بھیجنے والے اور ڈی این اے پر تحریر لکھنے والے اللہ ہی کا ہے۔ اس پر ایمان کس درجے کا ہے۔ شفاء کو حاصل کرنے والے کو سوچنا ہوگا۔ تیربہدف شفائیہ سورت کا ذکر اگلے کالم میں! (اِن شاء اللہ)
وہ لوگ جو قرآن پر ایمان رکھتے ہیں ‘وہ روحانی ہدایت بھی حاصل کرتے ہیں‘جسمانی شفاء بھی پاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصہ دار بھی بنتے ہیں۔ یاد رہے! میڈیکل کی دنیا میں اس اصول کو تجرباتی بنیادوں پر تسلیم کیا گیا ہے کہ شفاء کے حصول میں آدھا کام دوائی کا ہوتا ہے ‘جبکہ آدھا کام مریض کا اعتقاد اور نظریہ کرتا ہے کہ مجھے شفاء مل جائے گی۔