پاکستان میں 15 فروری کے بعد موسم بہار ہوتا ہے۔ پودوں اور درختوں کے شگوفے پھوٹ رہے ہیں۔ پھول اپنے جوبن پہ آ کر خوشبوئیں بکھیرنے والے ہیں۔ دماغ کو نشاط انگیز اور آنکھوں کو تراوت دینے والے ہیں۔ خزاں کا موسم رخصت ہو چکا ۔بہار کا موسم آ گیا ہے۔ جی ہاں! میرے وطن ِعزیز میں دہشت گردی کا موسم خزاں کئی سال ڈیرے جمائے رہا۔ سرسراتی سردی میں‘ دہشت گردی کی آندھی نے ادھم مچائے رکھا‘ مگر اس ظالمانہ اور دہشت گردانہ موسم کو بدلنے کے لیے پاک سر زمین پر پاک خون بہتا رہا۔نتیجہ یہ نکلا کہ آج 2020ء کا سال پاکستان کے لیے امن کا پیغام لایا ہے۔ بہت ساری اہم عالمی شخصیات پاکستان تشریف لائیں۔ انہوں نے پاکستان میں امن کے موسم ِ بہار کو تسلیم کیا۔
آخر پر ساری دنیا کے ملکوں کا سیکرٹری جنرل آیا۔ محترم انتونیو گوتریس نے بھی چار دن یہاں قیام کر کے امن کے موسم بہار کو عملی طور پر خراج ِتحسین پیش کر کے دنیا بھر کو پیغام دیا کہ پاکستان سے خزاں کا موسم رخصت ہو چکا اور امن کا موسم ِ بہار آ گیا ہے۔ قارئین کرام! ایسی شخصیات کا تذکرہ بعد میں۔ سب سے پہلے تذکرہ ان شاہبازوں اور شاہینوں کا کہ جنہوں نے امن کے گلستانوں کو بہار کا موسم دینے کے لیے اپنے خون سے سیراب کیا۔ میں کہتا ہوں ان کا تذکرہ نہ ہوگا تو انہیں تو کوئی فرق نہ پڑے گا کہ وہ فردوس کی نورانی فضائوں میں جا پہنچے (ان شاء اللہ) انہیں ہمارے کالموں‘ ہماری تقریبات اور ہمارے خراج تحسین کی کیا ضرورت ہے۔ فرق تو ہمیں پڑے گا کہ ہم محسن کُش کہلائیں گے۔ محسن کش اور احسان فراموش سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی گھٹیا اور نیچ ہوگا؟
قارئین کرام! آئیے! کہ آغاز میں اپنے ہی کالموں کے چند اقتباسات سے کر رہا ہوں‘ جو روزنامہ ''دنیا‘‘ کی زینت بنے۔ ''اب میں کرنل (ر) سہیل کے گھر میں ہوں۔ کرنل صاحب کے اس بیٹے کا نام اذان ہے۔وہ اذان سنتے ہی جاگ جاتا۔ باپ کو بھی اٹھاتا اور فجر کی نماز کے لیے تہکال بالا کی مسجد کی جانب چل پڑتا۔ اذان (آرمی پبلک سکول پشاور سے) بحفاظت نکل گیا تھا‘ مگر بھائی کو بچانے پھر واپس چل پڑا اور پھر اک دہشت گرد کی گولی آئی۔ اذان کے سینے میں لگی کہ جس میں قرآن تھا۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اذان کا بابا کرنل سہیل بولا :حمزہ صاحب! میرا اذان تو اللہ کے عرش کے سائے میں چلا گیا ‘مگر مجھے غم اس بات کا ہے کہ امریکہ کے لوگ مسلمان ہو رہے ہیں۔ یورپ‘ بھارت‘ جاپان اور کوریا کے لوگ مسلمان ہو رہے ہیں۔ وہ میرے اذان اور اس کے معصوم ساتھیوں کے خون سے کیا پیغام لیں گے؟ حمزہ صاحب! میرا پیارا اسلام بدنام ہو رہا ہے۔ (میرا سب سے بڑا دکھ بس یہی ہے) (روزنامہ ''دنیا‘‘ یکم جنوری 2015ء)
کرنل ریٹائرڈ قاضی ظفر کے گھر پہنچا۔ وہ کہہ رہے تھے۔ حمزہ صاحب! میری بیوی تہجد گزار تھی۔ جس روز شہید ہوئی اس روز بھی تہجد پڑھ کر گئی۔ میں بوڑھا اکیلا رہ گیا‘ مگر مجھے فخر ہے کہ وہ سلامت نکل چکی تھی‘ مگر پھر واپس گئی اور اپنے بچوں کو بچاتے ہوئے شہید ہو گئی۔ اس کا روحانی بچہ بھی کس قدر دلیر تھا کہ جسے دہشت گرد نے تیل کی بوتل اور ماچس دی کہ اپنی پرنسپل پر تیل پھینکو اور آگ لگائو۔ معصوم شاگرد نے انکار کر دیا۔ ساتھ ہی اس کا سینہ گولیوں سے چھلنی ہو گیا۔ دوسری کے قریب کوٹلی ستیاں کے گائوں گیل پہنچا۔ بہنوں کا اکلوتھا بھائی کیپٹن ارسلان شہید جو دہشت گردی کے مقابلے میں شہید ہوا‘ اس کی ڈائری میرے سامنے رکھی گئی۔ شہید لکھتا ہے: '' جس کو شہادت چاہیے‘ وہ اپنی زندگی کو پاکیزہ بنائے۔ نظر کو حیا اور شرم کے زیور سے آراستہ کرے‘‘۔ (روزنامہ'' دنیا‘‘ 6 اکتوبر 2017ء) کیپٹن عبدالسلام جو لنڈی کوتل کے قریب میلوٹ کے مقام پر دہشت گردوں کی سرکوبی کر کے لڑتا ہوا شہید ہوا‘ اسے تمغہ بسالت دیا گیا۔ ان کے والد محترم محمد خالد خان سے ملا۔ راولپنڈی میں ان کے گھر گیا تو کہنے لگے: حمزہ صاحب! کیپٹن شہید کی ماں کا خواب بھی سن لیں۔ شہید کی والدہ بتانے لگی۔ بیٹے کی شہادت کے بعد میں نے خواب یہ دیکھا کہ ایک آواز آئی ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے آپ لوگوں کو دعوت پر بلایا ہے۔ میں اور خالد صاحب وہاں پہنچے تو ناقابلِ بیان خوبصورت شامیانہ لگا ہوا تھا۔ یہ پارک اور پھولوں میں گھرا ہوا تھا۔ کھانے کی کیا ہی بات تھی۔ روٹی چاند کی طرح (چمکتی ہوئی روشن) تھی۔ سالن شوربے والا تھا۔ اس میں بوٹیاں بھی چاند کی طرح گول (روشن اورچمکدار) تھیں۔ ایک خوبصورت بچّہ خدمت پر مامور تھا۔ ہمارے پیارے رسول سفید چادر مبارک اوڑھے ہوئے تشریف فرما تھے۔ میں حضورؐ کا مبارک چہرہ نہیں دیکھ سکی۔ میں نے تعبیر کی کہ حضورؐ کا دیدار اور ضیافت فردوس میں ہوگی‘‘۔(ان شاء اللہ) روزنامہ'' دنیا‘‘ 27 اکتوبر 2017ء)
الغرض! پاکستان کے طول و عرض میں ہر شعبہ زندگی سے کوئی 70 ہزار پاکستانی شہید ہوئے۔ شہدا کا یہ پاکیزہ خون ہے کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں امن کا موسم بہار دیا ہے۔ پاک فوج کے سابق سالار جنرل (ر) راحیل شریف نے بہت اچھا کیا کہ دہشت گردی کے خلاف ایک عملی تاریخ کا میوزیم بنا دیا۔ لاہور کینٹ میں گالف کورس کے ساتھ واقع ہے۔دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی ضرب عضب کے بد پاک فوج کے موجودہ سالار جناب جنرل قمر جاوید باجوہ نے ''ردّالفساد‘‘ کے عنوان سے اس مہم کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا۔ ''ردّالفساد‘‘ کے عنوانے سے میری کتاب انہی دنوں سامنے آئی تھی جو نظریاتی محاذ پر ایک چٹان ثابت ہوئی۔ الحمد للہ!
اے اہلِ پاکستان! آج ہم امن کے رنگ دیکھ رہے ہیں۔ سعودیہ اور امارات‘ قطر اور بحرین ہماری مالی مدد کر چکے ہیں۔ ملائیشیا اور ترکی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ مہاتیر محمد اور طیب اردوان کشمیر کے مسئلے کو جرأت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ دونوں رہنما پاکستان آ چکے ہیں۔ یورپی یونین کشمیر کے مسئلے پر ہمارا ساتھ دے رہی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کی رکن ڈیبی بھرپور انداز سے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا ساتھ دیتی ہیں۔ انڈیا انہیں دہلی ایئر پورٹ پر بدتمیزی کے ساتھ واپس کر دیتا ہے؛ حالانکہ وہ برطانوی پارلیمنٹ کی نمائندہ کے طور پر وہاں گئی تھیں۔ ملکہ برطانیہ کے پوتے شہزادہ ولیم اپنی اہلیہ کیٹ مڈلٹن کے ساتھ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ پاکستان کو پر امن ملک قرار دے چکے ہیں۔ ان کے دورے کے بعد پاکستان کی سیاحت کا عالمی رجحان بڑھ گیا ہے۔ یو این کی طرف سے اسلام آباد کو پر امن دارالحکومت قرار دیا جا چکا ۔ یورپ کے ایک ملک کی‘ ملکہ بھی پاکستان آ کر امن کی بات کر گئی ہیں۔ انڈیا کی کبڈی کی ٹیم پر امن لاہور میں شکست کھا چکی ہے۔ چین اور ایران ہمسایہ ہیں۔ امن کے حوالے سے چین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ایران نے کبڈّی کی ٹیم بھیجی تھی۔ اس نے تیسری پوزیشن لی۔ امن میں یہ اچھا تعاون ہے۔ ہالینڈ کے سفیر نے پاکستان کو فیٹف سے نکالنے میں بھرپور مدد کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ الغرض! امن کے یہ اور دیگر بہت سارے رنگ آج میرے وطن ِعزیز میں اس لیے نظر آ رہے ہیں کہ پاکستان کی افواج اور عوام کا لہو اس کے سنگ ہے۔ آئیے! اب آخری رنگ ملاحظہ کرتے ہیں!
یورپی سیکرٹری جنرل کا پورا نام ''انتونیو مینوئل ڈی اولیویریا گوتریس‘‘ ہے۔ وہ پرتگال کے سیاستدان‘ سفارتکار اور سابق صدر ہیں۔ وہ یو این ہائی کمشنر برائے مہاجرین 2005ء تا 2015ء رہے۔ عمر 70 سال ہے۔ یو این کے 9ویں سیکرٹری جنرل ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا کہ اس نے گزشتہ چالیس سال سے چالیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کی خدمت کی ہے۔ اس میں یقینا گوتریس صاحب کا بھی زبردست کردار ہے کہ وہ ہائی کمشنر تھے۔ انہوں نے متنازع کشمیر کا حل یو این قراردادوں کو قرار دیا اور یہی پاکستان کا موقف ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بڑی اچھی بات کہی کہ انڈیا وہاں کے مسلمانوں کو پاکستان جانے کا کہہ رہا ہے۔ وہاں خونریزی کا خطرہ ہے۔ جی ہاں! ایسا ہوا تو 30 کروڑ مہاجر مسلمانوں کو کون سنبھالے گا۔ دنیا کو اس پر سوچنا ہوگا۔ جناب گوتریس نے عالمی سطح پر بھی پاکستان کے امن مشن کی خدمات کو سراہا۔ انہوں نے سلامتی کونسل کے 5 مستقل ممبران جو ویٹو پاور رکھتے ہیں‘ اس کی بجائے مساوات کی بات کی۔ انہوں نے مہاجروں اور مظلوموں کے پناہ حاصل کرنے کے بارے میں قرآن کو الہامی کتاب کہا اور فرمایا کہ اس کتاب میں حضرت محمد کریمؐ کو کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ان سے پناہ طلب کرے تو وہ اسے پناہ دیں۔ یاد رہے! قرآن کی سورۂ التوبہ آیت نمبر 6 ہے‘ جس میں مکمل ترجمہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
جناب محترم سیکرٹری جنرل صاحب نے جو آخری زبردست بات کہی‘ وہ یہ ہے کہ اسلام کو دہشت گردی سے نہ جوڑاجائے۔ قارئین کرام! میں آج کے کالم کو کرنل (ر) سہیل کے نام کرتا ہوں کہ آرمی پبلک سکول کے شہید اذان کے بابا کو اسلام کی بدنامی پر جو پریشانی تھی۔ میرے رب کریم نے اس پریشانی کی ایسی لاج رکھی کہ دنیا بھر کے ملکوں اور قوموں کے سیکرٹری جنرل‘ نمائندے اور سربراہ کی زبان سے مذکورہ جملہ ادا کروایا تو پاک سر زمین پر اورصوبہ کی زمین پر۔ واہ! میرے مولا! اذان کے پاکیزہ خون اور اس کے بابا کی پاکیزہ بات کو آپ رب کریم نے ایسا رنگ دیا کہ مجھ جیسے کمزور‘ ناتواں اور عاجز و خاکسار کو اس کا گواہ بنایا اور میرے قلم سے اس گواہی کو'' دنیا‘‘ اخبار کے صفحہ پر دنیا بھر کیلئے پاکستان کے امن کا جھومر بنا دیا (الحمد للہ)۔ اسلام زندہ باد‘ پاکستان پائندہ باد!!