کورونا وائرس قریب قریب ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس انسان دشمن نے انسانوں کے باہم سماجی تعلقات کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں۔ انسان جو انسان کا دشمن ہے۔ اس کے خون کا پیاسا ہے‘ اسے جلا وطن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے شہریتی حق کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لاکھوں انسانوں کے علاقے کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ایسے غیر انسانی رویوں پر مجموعی اعتبار سے دنیا خاموش رہتی ہے۔ آہ! اس انسان نے جو ایک باپ حضرت آدمؑ کی اولاد ہے۔ حضرت حوّا علیہا السلام کے بچّے ہیں۔ اس نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو بارود میں بھسم کر کے اس کے وجود کی راکھ کو گیس بنا دینے کے لیے اس قدر ایٹمی ایندھن تیار کر لیا ہے کہ سات ارب انسان بیسیوں بار زمین پر وجود میں آتے چلے جائیں تو یہ ایندھن اتنی مقدار میں بن چکا ہے کہ بیسیوں بار سات سات ارب انسانوں کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے‘ مگر یہ انسان ایسا ظالم ہے کہ یہ برباد کن ایندھن کی مقدار بنانے سے باز نہیں آ رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسانوں کے خالق نے جو بے حد مہربان ہے۔ اس نے کورونا اس لیے بھیجا ہے ‘تا کہ انسان کی غیر انسانی اور ظالمانہ سوچ کے کڑاکے نکل جائیں۔ اسے انسان دشمنی سے روکا جائے۔ اس کے حسد اور بغض کے لیول کو سو فی صد سے کم کر کے پچاس فیصد سے نیچے لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے کورونا اپنی ڈیوٹی اس انداز سے دے رہا ہے کہ دنیا بھر کی سپر پاورز اور منی سپر پاورز نے کورونا کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کر دیا ہے۔ کہنے کو سب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مقابلہ کریں گے‘ مگر مقابلہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کورونا آ رہا ہے‘ ہٹ جائو‘ بچ جائو۔ دنیاوی ادارے بھی بند‘ مذہبی عبادت گاہیں بھی بند۔ گھروں میں بیٹھ جائو۔ اپنے ہاتھ اپنے چہروں پر مت لگائو۔ گھروں کے اندر بھی ایک دوسرے سے چند فٹ دور رہو۔ برتن الگ کر لو۔ تقریبات بند۔ ملکوں کے ملک ایک دوسرے کے لیے بند۔ ہر ملک کے صوبے بند‘ ضلع کی سطح‘ پھر تحصیل کی سطح‘ شہروں تک؛ حتیٰ کہ گھر گھر بند--- ہاتھوں کو صابن سے دھو کر بھی مصافحہ نہ کرو--- اے انسانو! یہ ایک انتباہ ہے کہ انسان کی قدر کر لو۔ سماجی تعلقات کے یوں بخیے ادھیڑنے سے اپنا جائزہ لے لو۔ دشمنیاں ختم کر لو۔ ایک دوسرے کے لیے سلامتی کے پیامبر بن جائو۔
دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے ملک کے 35 کروڑ انسانوں کے ہمراہ ویڈیو لنک کے ذریعے دعا کی کہ مولا کریم! اس دشمن سے نجات دے دے۔ ہاتھ انہوں نے کسی سے نہ ملایا۔ دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر نمستے کہہ دیا۔ نریندر مودی کا طریقہ اختیار کر لیا۔ اسرائیل کے وزیراعظم نے بھی دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کہہ کر مودی کا طریقہ اختیار کر لیا۔ نمستے کا معنی دیکھا تو وہ یہ تھا کہ میں تیرے سامنے جھکتا ہوں۔ ساتھ ہی سر کو قدرے نیچے جھکا کر جنبش دی جاتی ہے‘ مگر نریندر مودی کا یہ انداز تو چانکیائی ہے کہ بات جھکنے کی کرو ‘مگر عملی طور پر جونہی دائو لگے‘ کمزور بھیڑوں کے باڑے میں داخل ہو کر بھیڑیئے کی طرح سب کی گردنوں کے منکے توڑ ڈالو۔
جی ہاں! لگتا یہی ہے کہ کورونا وائرس سے کچھ فرق تو پڑے گا ‘مگر ظالم انسان کی سرشت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔
کورونائی زمانے میں وزیراعظم عمران خان اور مولانا طارق جمیل کی ملاقات ہوتی ہے۔ دونوں کوئی دس فٹ کے فاصلے پر ہیں۔ السلامُ علیکم اور و علیکم السلام کے جملے ادا ہوئے۔ ہاتھوں کے اشاروں سے ایک دوسرے کے ساتھ اپنائیت کا اظہار ہوا۔ گویا اسلامی اور حکومتی سطح پر اہل ِپاکستان کے نام یہ ایک پیغام تھا کہ کورونا دشمن سے تحفظ کے لیے حالات کا تقاضا یہی ہے اور اسلام کے منافی نہیں‘ بلکہ اس کے مطابق ہے۔ جلیل القدر صحابی حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو پیدا فرمایا۔ ان کا قد ساٹھ ہاتھ (90 فٹ) تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: اے آدم! وہ جو فرشتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہے ‘اسے سلام کہو اور دیکھو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ تمہارا اور تمہاری اولاد کا یہی سلام ہوگا۔ حضرت آدمؑ نے کہا: السلام علیکم۔ فرشتوں نے جواب میں کہا: السلام علیک و رحمۃ اللہ۔ انہوں نے ''رحمۃ اللہ‘‘ کا اضافہ کر دیا‘‘۔ (بخاری الادب الفرد: 978 مسلم: 2841)
جی ہاں! اس میں مصافحہ نہیں ۔ صرف زبان کے ساتھ سلام ہے۔ یہ پہلا سلام تھا ‘جو خاکی اور نوریوں کے درمیان تھا اور اللہ کے حکم سے تھا۔ یہی سلام حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں زمین پر چلتا رہا۔ ہاتھ ملانے ‘یعنی مصافحہ کرنے کا طریقہ صحابہ میں موجود تھا۔ اللہ کے رسولؐ کے خادم حضرت انس بن مالکؓ اس کے راوی ہیں۔ اس روایت کو امام بخاری ''الادب المفرد‘‘ میں لائے ہیں۔ الغرض! ہاتھ ملانا‘ گلے ملنا‘ ایک دوسرے کو بوسہ دینا؛یہ سارے انداز انسانوں کے درمیان سماجی محبت کے اظہار ہیں‘ جو بنیادی اور اصل چیز ہے‘ وہ زبان سے ''السلام علیکم‘‘ کہنا ہے۔ حضورؐ کے فرمان کے مطابق ‘ایسا کہنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں۔ ''ورحمۃ اللہ‘‘ کا اضافہ کر لیا جائے‘ تو دس نیکیوں کا مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور اگر ''وبرکاتُہُ‘‘ کہہ دیا جائے تو دس کا اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں تیس نیکیاں بن گئیں (بخاری‘ الادب المفرد:986 ابن حبان:493 صحیح)‘ یعنی اللہ پر ایمان رکھنے والے دو انسان جب حضرت محمد کریمؐ کی سنت پر عمل کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں: تم پر سلامتی ہو۔ دنیا کی ہر آفت سے سلامت رہو۔ بیماری سے سلامت رہو۔ وبا سے سلامت رہو۔ کورونا وائرس سے سلامت رہو! پھر اس سلامتی کے ساتھ ساتھ تم پر اللہ کی رحمت ہو اور صرف رحمت ہی نہیں برکت بھی ہو۔ اب ‘اس میں جان کا تحفظ‘ مال و اولاد اور گھر میں برکت کی دعا کا مطلب کہ سب متعلقہ لوگ بھی شامل ہو گئے۔ اس لیے کہ بیوی‘ بچے اور دیگر غیر محفوظ رہے تو اکیلے کے لیے رحمت و برکت کا کوئی معنی نہیں ‘لہٰذا سب شامل ہو گئے اور ''السلامُ علیکم‘‘ میں ''کُم‘‘ کی ضمیر جمع کے لیے ہے ‘یعنی تم سب پر سلامتی ہو۔
سبحان اللہ! مذکورہ بالاکیا خوبصورت اور زبردست دعا ہے کہ جس میں سلامتی کی کثرت کا ایک سمندر موجیں مار رہا ہے۔
قرآن میں اللہ کا ایک نام ''السلام‘‘ بھی ہے‘ یعنی سلامتی ملے گی‘ تو اللہ سے وابستہ ہو کر ملے گی۔ حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے: ''اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ''السلام‘‘ ہے۔ اللہ نے اس کو زمین میں ر کھا ہے‘ لہٰذا اپنے درمیان ''السلام‘‘ کو پھیلائو‘‘۔ (بخاری‘ الادب المفرد: 989۔ معجم کبیر طہرانی:10392 حسن) ۔
اللہ اللہ ! ہمارے خالق کا نام ''السلام‘‘ ہے‘ یعنی سلامتی کے سر چشمے اس سے پھوٹتے ہیں۔ ہمارا دین اسلام ہے۔ یہ بھی سلامتی والا ہے۔ باہم ملنے کا جملہ بھی ''السلام‘‘ ہے‘ یعنی سلامتی ہی سلامتی ہے۔ حضور نے فرمایا: تم السلامُ علیکم عام کر دو اور ''دارالسلام‘‘ میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جائو۔ جنت کا ایک نام ''دارالسلام‘‘ ہے‘ یعنی ہم باہم ایک دوسرے کی سلامتی کے خواہش مند بن جائیں۔ اپنی خواہشوں کو عمل سے ثابت کر دیں تو دنیا میں بھی سلامتی اور آخرت میں سلامتی کا گھر مل جائے گا اور یہ ساری خوشخبریاں ہم جس عظیم ہستی سے حاصل کر رہے ہیں‘ وہ تمام اہل جہان کے لیے‘ سراسر رحمت ہی رحمت ہیں۔ اسم گرامی حضرت محمد کریمؐ ہے ‘جو پوری انسانیت کے لیے آخری رحمت اور آخری رسولؐ ہیں۔
قارئین کرام! کورونا وائرس کی آزمائش میں ہمارے حکمران تمام اہم علما سے مشاورت کے بعد قدم اٹھا رہے ہیں۔ یہ سب ہماری سلامتی میں ہے۔ قومی یکجہتی کے ساتھ ہم ان شاء اللہ اس آزمائش سے نکل جائیں گے۔ بخاری و مسلم میں ہمیں حضورؐ کا یہ فرمان بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ ''مسلمان وہ ہے ‘جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ جی ہاں! اب جب ہمیں معلوم نہیں‘ ہمارا دشمن کس کس ہاتھ سے لگ کر آگے نقصان پہنچا سکتا ہے تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ہاتھ کو روک لیں اور زبان کے ساتھ سنت پر عمل کریں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کے وائرس خود کچھ نہیں‘ وہ اللہ کے حکم کے بغیر از خود نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ عقیدہ یہ ہونا چاہیے‘ مگر اسباب کی دنیا میں احتیاط اور پرہیز حضورؐ کی سنت اور حکم ہے۔ دونوں احکام کو اپنا کر ہم اللہ کی مدد کے ساتھ سرخرو ہوں گے۔ اے اللہ کریم! ساری انسانیت کو اس دشمن سے محفوظ فرما۔ (آمین)