انسان کا جسم کوئی دس کھرب خلیات کا حامل ہے‘ ہر خلیہ اپنی جگہ پر ایک جہان ہے‘ ان دس کھرب خلیات کا ایک دشمن ہے‘ جس کا نام ''کورونا وائرس‘‘ ہے۔ دس کھرب خلیات سارے کے سارے زندہ ہیں اور ان میں سے ہر خلیہ اپنی ضروریات کے مطابق‘ مکمل اور تمام تر سامان کے ساتھ زندہ ہے۔ اس کا جو دشمن ہے‘ وہ نا مکمل بھی ہے اور نیم مردہ بھی ہے۔ وہ ادھورا اور مفلوج دشمن‘ کسی نہ کسی طرح سے زندہ خلیہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے‘ تووہ باری باری انتہائی تیزی کے ساتھ دس کھرب خلیات کو ناکارہ کر دیتا ہے اور دس کھرب خلیات کا وجودوینٹی لیٹر پر پڑا موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
آج سات ارب انسان اس سے خوفزدہ ہیں۔ مختلف ملکوں کے حکمران‘ وزراء‘ اٹلی اور پولینڈ کی فوجوں کے سالار قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک کا وزیراعظم خصوصی نگہداشت کے وارڈ میں اپنے دس کھرب خلیات کے ساتھ سنگل وائرس کورونا کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ گویا یہ وائرس ساتوں براعظموں میں اعلان کر رہا ہے کہ مجھ سے بچنا چاہتے ہو تو گھر میں دبک کر بیٹھ جائو۔ تم اگر اکٹھے ہو کر میدان میں آئے تو مجھے نیم مردہ کہنے والو! تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ یعنی اس سے بچتا ہی وہ ہے‘ جو اسے چیلنج کرتے ہوئے گروپوں اور جتھوں کے ساتھ جمع ہونے والی جگہوں سے دور ہے۔ یہ ایسا دشمن ہے کہ جو شاہی ایوانوں کو کچھ نہیں کہتا۔ ایوان صدر‘ وزیراعظم ہائوس‘پینٹا گان جیسے دنیا بھر کی فوجوں کے ہیڈ کوارٹرز اور نظام عدل کی عمارتوں کو بھی کچھ نہیں کہتا۔ یہ پلازوں‘ محلات‘ کوٹھیوں کو بھی کچھ نہیں کہتا۔ یہ غریبوں کی جھگیوں اور کچّے مکانوں سے بھی کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ نہ یہ سائیکل کو کچھ کہتا ہے اور نہ ہی لینڈ کروزر‘ مرسڈیز اور شیور لیٹ وغیرہ پر دھیان دیتا ہے‘ نہ باغات کو‘ نہ زمین کی مٹی کو آلودہ کرتا ہے‘ نہ دریا کے پانی کو گندہ کرتا ہے‘ نہ ہی فضا میں موجود آکسیجن کو کچھ کہتا ہے۔ یہ صرف انسان کو مارتا ہے‘ اسے ڈراتا ہے۔ خوفزدہ کرتا ہے اور نفسیاتی مریض بناتا ہے۔ ذرا سوچئے! اگر انسان نہ رہے۔ اللہ نہ کرے کہ کورونا‘ انسان کو بیکار کر کے زمین کی تہہ میں پہنچا دے تو زمین کی سطح پر پڑی ہوئی تمام وہ دولتیں کہ جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا؛وہ کس کام کی ہیں؟
قارئین کرام! ثابت یہ ہوا کہ اس زمین پر اہم ترین حقیقت حضرتِ انسان ہے۔ اسے اہم بنایا ہے تو اس زمین کے خالق نے بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سارے انسانوں کے لیے ایک آخری رسول گرامی کو بھیجا اور انہیں ساری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ انہوں نے مندرجہ بالا حقیقت سے انسان کو آگاہ کیا۔ انسان کو بتلایا کہ ترجیح ِاوّل انسانیت ہے۔ صرف اور صرف انسانیت ہے۔ اس حقیقت سے حضورؐ نے پردہ اٹھایا تو جغرافیائی طور پر زمین کے مرکز میں پردہ اٹھایا۔ شہر کا نام ''بلد الامین‘‘ ہے۔ یعنی امن والا شہر۔ بیت اللہ شریف میں داخل ہو کر ترجیح ِ اوّل کا ذکر فرمایا۔ دو احادیث پیش کرنے لگا ہوں۔ ایک کے راوی حضرت عبداللہ بن عمروؓ ہیں۔ دوسری حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہیں۔ دونوں حدیثوں کی سند کو امام ناصر الدین البانیؒ نے حسن کہا ہے اور راویوں کو امام بخاریؒ اور مسلمؒ کے راوی کہا ہے۔ آئیے! پہلی حدیث دیکھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں: ''میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسولؐ‘ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور اسے مخاطب کر کے فرما رہے ہیں: ''(اے کعبہ) تیری خوشبوئیں کس قدر پاکیزہ ہیں۔ تو کس قدر پاک صاف ہے۔ تو کس قدر عظمت کا حامل ہے اور تیرا احترام کس قدر عظیم ہے‘ مگر اس ذات کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مومن کی عزت تیری عزت سے بہر صورت کہیں بڑھ کر ہے۔ اس کے مال کی حرمت اور اس کے خون کی حرمت و عزت بڑھ کر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن کے بارے میں برا گمان کر لینا بھی حرام ہے۔ ‘‘ (ابنِ ماجہ:3932) حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ جب اللہ کے رسولؐ نے کعبہ کی جانب دیکھا تو فرمایا: '' بیت اللہ کو خوش آمدید۔ (اے کعبہ) تیری عظمت کے کیا کہنے اور تیری حرمت کی عظمت کے بھی کیا کہنے ‘مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ ایک حرمت کو وابستہ کیا ہے ‘جبکہ مومن کے ساتھ تین حرمتوں کو وابستہ کیا ہے؛ (1 اس کا خون‘ (2 اس کا مال‘ (3 یہ کہ اس کے ساتھ بدگمانی کر کے بغیر اس سے پوچھے اور تحقیق کیے اس کو تسلیم کر لیا جائے۔ (بیہقی۔ شعب الایمان۔ سلسلہ: 3420)
اللہ اللہ! آج کورونا جو سبق یاد کروا رہا ہے۔ کیا ہم انسان اس سبق کو یاد کرنے پر تیار ہیں؟ انسانیت کو ترجیح اول بنانے کے لیے تیار ہیں؟ کیا دنیا کے دو سو ممالک کہ جہاں کورونا کا ڈر اور خوف مسلّط ہے‘ وہاں کے حکمران Humanity is first کے سلوگن کو اختیار کریں گے؟ کیا دو سو ممالک اپنے آئین اور دستور میں یہ لکھنے پر تیار ہوئے ہیں کہ ہمارا خالق اللہ تعالیٰ ہے؟ اور ہماری ریاست میں اولین ترجیح انسانیت کو حاصل ہوگی؟ اس کے حقوق اور رائٹس کا احترام ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سبق تو ساری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آنے والی ہستی نے دیا۔ کیا ہم مسلمانوں کی 57 ریاستوں نے حضورؐ کے انسان دوست رویے اور انسانی تکریم کے حامل سنہری فرمان کو اپنا سلوگن بنایا۔ اپنے آئین اور دستور کے چہرے کا سہرا بنایا۔جی ہاں! نہیں بنایا یا روایتی طور پر اس کا کچھ خیال رکھا‘ مگر صحیح معنوں میں اسے سامنے نہیں رکھا۔ اسے قانون نہیں بنایا تو اے ساری دنیا کے انسانو‘ خصوصاً حکمرانو! آئیے اپنی اصلاح کریں۔ عراق کے لوگوں سے معافی مانگیں کہ غلط انٹیلی جنس کی بنیاد پر لاکھوں عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کر دیا گیا۔ برما اور شام میں اسی طرح کا کھیل جاری ہے۔ افغانستان امن کو ترس رہا ہے۔ فلسطین کے لوگ سالہا سال سے لاک ڈائون میں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ گزشتہ آٹھ ماہ سے کرفیو میں ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان‘ مسیحی ‘ سکھ اور دلت ہندو اپنی مٹتی شناخت کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اے کاش! دنیا آگے بڑھے۔ یو این کی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی صحت سے متعلق ہدایت کے متوازی مظلوم انسانیت کے دکھوں کا مداوا کر دے۔ کروڑوں انسان مودی جیسے حکمرانوں کے جبر اور ظلم کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔ ان کے امیون سسٹم کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ ایسے لوگوں کو ترجیح ِاوّل کے طور پر دنیا (Stress) سے نکالے‘ تا کہ ان کا امیون سسٹم بہتر ہو۔ وہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ کرنے کے قابل ہوں۔ زمین کی ساری انسانیت کا مستقبل ایک ہے۔ سات ارب انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ سب کے خلیات اور امیون سسٹم ایک جیسے ہیں۔ سب ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں‘ لہٰذا سب کی بھلائی کا سوچنا ہوگا۔ دو سو ریاستوں کو اپنے اپنے اندر بھی اور ریاستوں کے درمیان بھی ترجیح ِاوّل انسانیت کو بنانا ہوگا۔ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی ر حمت آئے گی۔ کورونا سے نجات ملے گی۔ کورنٹائن کا طریقہ رحمت دو عالمؐ کا طریقہ ہے۔ چین نے اسی کو اختیار کر کے نجات حاصل کی ہے۔ باقی دنیا بھی اسی کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ انسانیت کے لیے مہربان بن جائیں تو اللہ تعالیٰ کسی بھی ملک کے کسی بھی سائنسدان یا سائنسدانوں کی ٹیم کے دل میں ویکسین کی تیاری کا ماڈل دے کر اسے عزت دے دیں گے۔ رحمت کسی بھی طریقے سے ہو سکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حصولِ رحمت کا طریقہ تو اپنائیں۔ حضورؐ نے فرمایا! ''اللہ تعالیٰ رحیم آدمی پر ہی رحم فرماتے ہیں اور رحیم وہ ہے ‘جو صرف اپنوں کے لیے نہیں سب پر مہربانی کرے‘‘ (صحیحۃ: 167)‘ مزید فرمایا! جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا‘ جو غلطی معاف نہیں کرتا‘ اسے غلطی معاف نہیں کی جاتی‘ جو (انسانیت) پر توجہ نہیں دیتا۔ اس پر بھی (مشکل میں) توجہ نہیں دی جاتی (اللہ کی طرف سے)‘ (صحیحۃ: 483)۔