سندھ کے وزیراعلیٰ جناب مراد علی شاہ کے کردار کو ہر کوئی خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔ بدھ کے روز‘ ان کی گھنٹہ بھر کے قریب پریس کانفرنس سن کر محسوس ہوا کہ وہ کردار کے ساتھ گفتار کے بھی غازی ہیں۔ انہیں سندھ ہی نہیں ہر پاکستانی کی جان کے تحفظ کی فکر دامن گیر تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ '' ایک جان کو بچانے سے پوری انسانیت کی جان بچانے کا مقام ملے گا‘ تو اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمائیں گے‘ ہم سے غلطی ہو سکتی ہے‘ مگر ہماری نیت ٹھیک ہے۔ وہ تنقید کرنے والوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہے تھے کہ ہم پر تنقید کریں‘ ہم اس سے اپنی اصلاح کرتے ہیں‘ مگر ایسے حالات میں بدتمیزی کا طوفان مناسب نہیں اور میں ایسی کسی بدتمیزی کا جواب نہیں دوں گا‘‘۔
الغرض! ان کی زبان کا بیان اور اظہار ان کے دل کے اخلاص کا پیغام و پیام بنا ہوا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ اس وقت ساری پاکستانی قوم یک جان اور دو قالب ہے۔ کاش! سیاستدان اور حکمران کہ جن کے پیچھے قوم نے چلنا ہوتا ہے۔ آج وہ قوم کے پیچھے چل کر دکھا دیں کہ ہر کوئی دوسرے کا خیال کر رہا ہے۔ تمام سیاستدان اور حکمران اس حقیقت کو نوٹ کر لیں کہ قوم اس وقت اخلاق‘ محبت‘ کارکردگی اور باہمی یگانگت کی گفتگو سننا چاہتی ہے۔ الزامات اور نفرتوں بھری گفتگو کو نفرت سے دیکھ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ٹرینڈ پاکستانی قوم کی عظمت کا ٹرینڈ ہے۔ اس مبارک رجحان پر یہی کہہ سکتا ہوں۔ پاکستان اور پاکستانی قوم: زندہ باد!!۔
یاد رہے! کورونا وائرس کا اصل اور حقیقی علاج اس کی ویکسین ہے اور ویکسین اس کے علاوہ کچھ نہیں کرتی کہ وہ برباد ہو جانے والے امیون سسٹم یا مدافعاتی نظام کی مرمت کرتی ہے‘ اسے درست کرتی ہے۔ بدتمیزی‘ لڑائی جھگڑا‘ حسد‘ بغض‘ کینہ اور دماغ کی ہنڈیا میں بدگمانیوں کے سالن کا اُبال اور جوش بدن کے امیون سسٹم کو تباہ کرتا ہے۔ جب تک ویکسین نہیں ملتی ‘تب تک لازم ہے اور انتہائی ضروری ہے کہ امیون سسٹم کو بچایا جائے‘ تاکہ وہ کورونا کے خوفناک حملے کا دفاع کر سکے‘ یعنی معافی‘ درگزر‘ اچھے اخلاق اور اعلیٰ کردار سے ہم نا صرف اپنی دنیا کا تحفظ کر سکتے ہیں‘ بلکہ اپنے اللہ سے جنت بھی حاصل کر سکتے ہیں اور جنت میں بھی حضورِ رحمت دو عالمؐ کی پاکیزہ مجلس میں نشست حاصل کر سکتے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا:جنت میں میری مجلس میں میرے سب سے قریب وہ ہو گا‘ جس کا اخلاق سب سے اعلیٰ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں آج مراد علی شاہ کی عاجزانہ طبیعت اور اعلیٰ اخلاق پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں قوم کی خدمت کی اور توفیق دے۔(آمین ثم آمین)
الحمد للہ! میں پچھلے دو ماہ سے متواتر کورونا پر کالم لکھ رہا ہوں۔ آج کی میری تحقیق بیالوجیکل واچ پر ہے۔ ہم اس گھڑی کی بات مان لیں گے تو ہمارا امیون سسٹم مضبوط ہوگا۔ تحقیق یہ ہے کہ انسانی جسم کے ہر خلیے میں بیالوجیکل گھڑی ہے۔ اسے سرکیڈین واچ اور سرکیڈین رِدم بھی کہتے ہیں۔ انسانی جسم میں کوئی دس کھرب خلیات ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر انسان کے جسم میں دس کھرب گھڑیاں ہیں۔ ڈاکٹر ڈیوڈ گالف جو ''یو ایس نیشنل ہارٹ‘ لنگز اینڈ بلڈ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے سربراہ ہیں؛سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
Every cell in your body has a sense of time.
(یعنی تمہارے جسم میں موجود ہر خلیہ وقت کی سمجھ رکھتا ہے)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم جو وقت صرف کر رہے ہیں اور جس کام میں صرف کر رہے ہیں۔ ہمارا ہر خلیہ اس سے واقف ہے۔ ہمارا گزرنے والا ٹائم ‘اگر اچھے کردار اور گفتار سے گزر رہا ہے تو ہر خلیے پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اگر سچائی‘ دیانت اور اعلیٰ اخلاق کے برعکس ہمارا ٹائم گزر رہا ہے۔ وہ جھوٹ اور حسد اور بغض پر مبنی ہے تو خلیے پر برے اثرات پڑ رہے ہوتے ہیں‘ نیز یہ ایک ریکارڈ بھی ہے‘ جو کل کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے والا ہے۔ ڈاکٹر گالف یہ بھی بتاتے ہیں کہ مذکورہ گھڑی انسان کے سونے جاگنے کے چکر کو 24گھنٹوں میں مکمل کرتی ہے۔ یہ دماغ کے اعلیٰ ترین اَپر سسٹم کے تحت اپنا کام کرتی ہے یہ گھڑی جسم کے ٹمریچر پر بھی نظر رکھتی ہے‘ لہٰذا سرکیڈین سسٹم کو صحت مند رکھنے کے لیے نیند کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
قارئین کرام! میڈیکل سائنس کی ریسرچ یہ ہے کہ سرکیڈین سسٹم انسان کے جسم سے باہر کی دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے اور یہ تعلق نیند کے حوالے سے روشنی اور اندھیرے سے متعلق ہوتا ہے‘ یعنی جونہی رات پڑتی ہے تو بقول ڈاکٹر ڈیوڈ گالف کے مذکورہ سسٹم رات کے اُلُّو کو اشارہ کرتا ہے کہ بستر پر سو جاؤ۔ ڈھیٹ انسان اپنی دس کھرب گھڑیاں کی بات کو نہیں مانتا تو وہ گھڑیاں جسم میں سستی پیدا کرتی ہیں۔ اونگھ کا باعث بنتی ہیں‘ مگر وہ پھر بھی نہیں مانتا تو گھڑیاں پسپائی اختیار کر لیتی ہیں‘ مگر اس سے دماغ پر برا اثر پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر جسم کا امیون سسٹم کمزور ہونا شروع کر دیتا ہے۔ یاد رہے! جو لوگ علمی تحقیق یا کبھی کبھار ضرورت کے تحت ایسا کرتے ہیں‘ ان کا معاملہ الگ ہے ‘مگر ڈاکٹر ڈیوڈ رات کے اُلُّو ان انسانوں کو کہتے ہیں ‘جو بغیر کسی وجہ اور مجبوری کے راتوں کو جاگنے کا معمول بنائے ہوئے ہیں۔ جی ہاں! موجودہ کوروناوبا کے دور میں دنیا بھر کے اعلیٰ ترین میڈیکل سائنسدان کہہ ہیں کہ کورونا وائرس سے تحفظ کی خاطر امیون سسٹم کی مضبوطی اور بربادی میں نیند کا اہم ترین کردار ہے۔ انہوں نے نیند کو پانچ مرحلوں میں تقسیم کیا ہے: (1) سونے کے لئے بیڈپر لینا ‘(2) لیٹنے کے بعد آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو ریلیکس کرنا‘ (3) ہلکی نیند میں داخل ہونا ‘(4) گہری نیند میں چلے جانا ‘(5) آر‘ ای‘ ایم سلیپ ‘یعنی انتہائی گہری نیند کہ جس کا دورانیہ 30سے 40منٹ ہوتا ہے۔ اس سے لطف اندوز ہونا۔اس کی علامت یہ ہے کہ بندہ جب جاگے تو کہے:
Where Am I Now?
(میں اب‘ کہاں ہوں؟)
یاد رہے! R.E.M کا مطلب ہے ''ریپڈ آئی موومینٹس‘‘ جس میں آنکھ کے پپوٹے انتہائی تیز تیز حرکت کرتے ہیں۔ یہی وہ ٹائم ہوتا ہے ‘جب انسان کو خوبصورت اور اچھے سچے خواب آتے ہیں۔ یہ ٹائم عموماً تہجد اور فجر کاہوتا ہے۔یہ بہت بڑی نعمت والی نیند ہوتی ہے۔ یہ نعمت اس کو ملتی ہے جس کا جسم سرکیڈین واچ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس تعلق کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جونہی مغرب کے بعد والی شفق ‘یعنی سرخی غائب ہو اور پھر عشا کا وقت ہوجائے۔ رات کا اندھیرا چھا جائے تو سرکیڈین واچ کے اشارے پر بندہ نیند میں چلا جائے اور نیند کے پانچوں مرحلے مکمل کر کے تہجد نہیں‘ تو کم از کم فجر کے وقت بیدار ہو جائے۔
تمام میڈیکل سائنسدانوں کی ریسرچ کا نچوڑایک جملہ ہے ‘جس پر وہ سو فی صد متفق ہیں۔ ہم ان کا مذکورہ جملہ نوٹ کئے دیئے ہیں:
A consistent sleep schedule is a powerful strategy to maintain better immunity.
(مسلسل نیند کا شیڈول اچھے مدافعاتی نظام کو درست رکھنے کی ایک مضبوط حکمت ِعملی سے ہی حاصل ہو سکتاہے)
یاد رہے! ایسی اچھی نیند وہی شخص لے سکتا ہے ‘جس کا ضمیر صاف ہو۔ بات درست اور دو ٹوک ہو۔ کسی کا دل نہ دکھایا ہو۔ ظلم نہ کیا ہو۔ وہ دن کی کارکردگی پر نظر ڈالے تو دل مطمئن ہو کہ میرا اللہ کریم مجھ پر راضی ہے۔ اب وہ رات کے اذکار کرتا ہوا سو جائے تو سکون کی نیند کے پانچوں مرحلے طے کر جائے گا اور جب اٹھے گا تو سوچے گا کہ میرا شہر کون سا ہے۔ میرا گھر کون سا ہے۔ کمرہ کون سا ہے کہ جہاں میں موجود ہوں؟ سٹاماٹا کی ایک خاتون ہیں جو وائرل امیونولوجسٹ ہیں۔ ان کا ایک آرٹیکل برطانوی جریدے حالیہ ''گارڈین ‘‘میں شائع ہوا ہے۔ ان کا ایک جملہ ملاحظہ ہو‘ لکھتی ہیں:
Circadian disruption dampens your immune system and makes a virus harder to defeat.
(سرکیڈین واچ کی بدنظمی امیون سسٹم کو سست بھی کرتی ہے اور پھر وائرس کو شکست دینا بہت مشکل ہو جاتا ہے)
قارئین کرام! میڈیکل ریسرچ یہ بھی ہے کہ سارے دن کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو رات صاف کرنا شروع کرتی ہے۔ درخت اس مضر صحت گیس کو اپنے اندر لینا شروع کرتے ہیں۔ انسان کو بھی کم آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے ‘کیونکہ وہ سویا ہوا ہوتا ہے۔ پچھلی رات کو آکسیجن بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ تہجد کے وقت کافی زیادہ اور فجر کے وقت بھرپور ہوتی ہے‘ مگر جان بوجھ کر بغیر کسی وجہ کے بعض لوگ اگلی رات جاگتے ہیں۔ اپنا نقصان کرتے ہیں کہ کم آکسیجن لیتے ہیں اور جب آکسیجن بھرپور ہوتی ہے ‘صاف ہوتی ہے ‘ توہم سوئے رہتے ہیں۔ یوں امیون سسٹم ناکارہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
آئیے! اخلاق بھی ٹھیک کریں اور عادات بھی ٹھیک کریں‘ تاکہ ہم سب کا امیون سسٹم مضبوط رہے ۔حکومتِ پاکستان کے ضابطے ہمیں اسی طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ ہم اچھے نہیں ہیں۔ رات کو جلدی سوئیں اور صبح کو جلدی بیدار ہوں۔ جی ہاں! دنیا اور آخرت کی کامرانی حضرت محمد کریمؐ کے طریقے سے ہی ملے گی اور حضورؐ کا معمول یہی تھا کہ عشا کے بعد سو جانا اور تہجد کے وقت بیدار ہو جانا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)