حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب شام کے علاقے میں طاعون پھیلا تو اوپر تلے دو گورنر طاعون کی وبا سے شہید ہوئے اور پھر تیسرے گورنر نے ایک ماڈل اپنایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو کامیاب کر دیا اور طاعون ختم ہو گیا۔ مذکورہ تینوں گورنر جو شام میں اسلامی فوج کے سالار بھی تھے‘ تینوں جلیل القدر صحابہ تھے‘ تینوں کے اسمائے گرامی اور اقدامات ملاحظہ ہوں: پہلے حاکم کا اسم گرامی ابو عبیدہ بن جراحؓ ہے۔ حضورؐ نے ان کو اُمت کے'' امین ‘‘ کا لقب دیا تھا اور جن دس صحابہ کو جنت کی بشارت دی ان میں حضرت ابو عبیدہؓ کا نام بھی لیا۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے صحیح مسلم میں موجود حضور کی اس حدیث پر پورا عمل کیا کہ وبائی علاقے شام کے لوگ دوسرے صحتمند علاقے میں نہیں گئے اور صحتمند علاقے کے لوگ شام میں نہیں آئے‘ مگر شام میں طاعون ایک سے دوسرے میں پھیلتا رہا۔ اس طاعون میں 30 ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے لوگوں کو صبر کی تلقین بھی کی اور حضورؐ کی یہ حدیث بھی بتائی کہ اس مرض سے وفات پانا مومن کے لیے رحمت اور شہادت ہے۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے جب اپنے بہت سے ساتھی صحابہ‘ عزیز و اقارب اور مسلمانوں کی وفات کو دیکھا تو ان کے بغیر زندگی کو بوجھل محسوس کرنا شروع کیا اور اظہار بھی کیا۔ آخر کار وہ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ جووہیں تھے‘حضرت عمرؓ نے اب ان کو حاکم بنا دیا۔ مورخ طبریؒ لکھتے ہیں کہ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں بھی شہید ہو گئیں۔ ان کا بیٹا کہ جس کا نام عبدالرحمان تھا‘ شہید ہوا تو حضرت معاذ بن جبلؓ کہنے لگے: اب دنیا میں کوئی شے پسندیدہ نہیں رہی۔ امام احمد بن جنبلؒ اپنی مسند میں حضرت معاذ بن جبلؓ کا واقعہ لائے ہیں کہ بخار وغیرہ کی علامات کے بعد جب ان کی انگلی پر طاعون کا زخم نمودار ہو گیا تو حضرت معاذ بن جبلؓ نے انگلی کو اپنی آنکھوں کے سامنے کیا اور اسے مخاطب کر کے کہا: ''اے انگشتِ شہادت! تم میرے لیے رحمت اور شہادت کا پیغام اور خوشخبری لے کر آ گئی ہو۔ امید ہے شام تک میں یہاں سے چلا جائوں گا اور فردوس میں اللہ کے رسولؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کے درمیان موجود ہوں گا‘؛ چنانچہ مغرب تک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کے صحابی کا اندازہ درست کر دیا اور اپنے پاس بلا لیا۔
حضرت عمرؓ شام کی وبائی صورتحال اور صحابہ کی شہادتوں پر بہت پریشان تھے۔ وہ مدینہ منورہ میں اپنی شوریٰ کا اجلاس بلاتے اور مشورے کرتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور مناجاتوں کے ساتھ ساتھ مناسب اقدامات اٹھانے کے پیغامات بھی بھیجتے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ جو وہیں موجود تھے انتہائی اہم اور سینئر کمانڈر تھے۔ ذہین اور مدبّر تھے۔ ان کو شام کا گورنر اور فوج کا سالار بنا دیا۔ مسلمانوں کی شہادتیں ان کے سامنے تھیں اور وہ دیکھ بھی رہے تھے۔ صورتحال یہ تھی کہ ایسا قبیلہ بھی تھا جو سارے کا سارا ہی شہید ہو گیا تھا۔ ان کے بارے میں امیر المومنین حضرت عمرؓ سے فیصلہ مانگا گیا کہ اس قبیلے اور دیگر کئی خاندانوں کا کوئی وارث نہیں رہا‘ ان کی وراثت کا کیا کریں؟ امام طبریؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے جواب بھیجا کہ جو لوگ بچ جائیں ان میں سے ضرورتمندوں کو یہ وراثت دے دینا۔ الغرض! حضرت خالد بن ولیدؓ کے متعدد بیٹے اس وبا میں فوت ہو گئے ۔ لشکر کا ایک بڑا حصہ بھی اس وبا میں شہید ہو گیا تھا۔ حضور رحمتِ دو عالمؐ کے جلیل القدر صحابی حضرت حارث بن ہشّامؓ جو اپنے قبیلے کے 70 افراد کے ساتھ شام میں موجود تھے‘ خود بھی شہید ہو گئے جبکہ قبیلے کے لوگوں میں صرف چار زندہ بچے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی اہلیہ محترمہ اور حضرت بلالؓ بھی شہید ہو گئے۔ الغرض! یہ ساری صورتحال حضرت عمرو بن عاصؓ کے سامنے تھی۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ بات ڈالی اور سوچنے لگ گئے کہ یہاں کے لوگ ایک دوسرے سے متاثر ہو کر شہید ہو رہے ہیں تو کیوں نہ ان کو کورنٹائن کر دیا جائے۔ امام طبریؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرو بن عاصؓ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا: اے لوگو! اس بات میں اب کیا شک ہے کہ یہ وبائی مصیبت جب واقع ہوتی ہے تو یہ آگ کے بھڑکنے کی طرح شعلوں میں بھڑکتی چلی جاتی ہے‘ لہٰذا تم ایسا کرو کہ! ''فَتَحَصّٰنُوْا مِنْہُ الْجِبَالْ‘‘ ''پہاڑوں میں کورنٹائن ہو جائو‘‘۔ معروف عالم‘مورخ حضرت امام ابن اثیرؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرو بن عاصؓ نے لوگوں کو الگ الگ گروہوں میں کر دیا یعنی بیماروں کو صحت مند لوگوں سے الگ کر دیا۔ امام ابن اثیرؒ‘ امام طبریؒ اور دیگر مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس عمل سے اللہ تعالیٰ نے طاعون کی وبا کو اٹھا لیا یعنی اسے ختم کر دیا۔ (الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ : 337)
قارئین کرام! اصل بات یہ تھی کہ حضورؐ کے فرمان ذی شان پر عمل کرنے سے شام سے باہر ساری اسلامی خلافت کے علاقے تو بچ گئے تھے‘ مگر شام کے اندر جو لوگ تھے وہ آپس میں مکس تھے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے حضورؐ کے فرمان سے یہ نکتہ نکالا کہ متاثر علاقے میں موجود لوگوں کو بھی کورنٹائن کر دیا جائے۔ بس یہ کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے محفوظ فرما دیا؛ چنانچہ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اسباب کے ساتھ بسائی ہے۔ جی ہاں! اسباب کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے‘ لہٰذا جو لوگ ان اسباب کو اختیار کریں گے وہ فائدہ اٹھائیں گے۔ آج دنیا کے سات ارب انسان کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہیں۔ اب دنیا ایک بستی ہے۔ وہ ملی ہوئی تھی‘ لہٰذا چین سے اٹھنے والا وائرس ساری دنیا میں پھیل گیا۔ پھر دنیا کے دو سو کے قریب ملک ایک دوسرے سے کٹ کر کورنٹائن ہو گئے۔ پھر ہر ملک نے اپنے متاثرہ علاقے کورنٹائن کیے۔ پھر تمام لوگوں کو گھروں میں رہنے کا کہا۔ اب اس پر جس نے جتنا عمل کیا اتنا فائدہ اٹھا لیا۔ جس نے جتنی سستی کی اس نے اتنا ہی نقصان اٹھا لیا۔ مگر ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جنہوں نے آغاز میں اسے ہلکا لیا یا دیر سے عمل کیا یا لوگوں کے حالات کو سامنے رکھ کر اعتدال کے فیصلے کیے۔ نیت سب کی اخلاص پر مبنی ہے۔ غلطی صرف تدبیرں میں ہے‘ مگر غلط تدبیر کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا اور اچھی تدبیر کا پھل بھی کھانا ہوگا اور وہ بہت اچھا ہے۔
فاضل ربیع بغدادی ہمارے زمانے کے ایک بڑے سکالر اور مؤرخ ہیں۔ اپنے ملک عراق کی تاریخ پر انتہائی گہری نظر رکھنے والے ہیں۔ ان کی تاریخی کتاب کا نام ''تاریخ فاضل‘‘ ہے۔ وہ خود تو 1952ء میں فوت ہو گئے تھے‘ البتہ ان کی کتاب کا تازہ ایڈیشن 2011ء کا ہے۔ اس میں صفحہ نمبر 106 پر لکھتے ہیں: بنو امیّہ کے آخری زمانے میں 131ھ میں طاعون پھیلا‘ اس میں سب سے پہلے جو شخص فوت ہوا وہ ایک علمی شخصیت مسلم بن قتیبہ تھے۔ (یاد رہے فاتح چین قتیبہ بن مسلم ہیں۔ وہ اور ہیں اور یہ اور ہیں) جی ہاں! اس لحاظ سے اس طاعون کو ''مسلم بن قتیبہ طاعون‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تین ماہ تک رہا۔ یہ بصرہ شہر اور اس کے مضافات میں تھا۔ اس میں بھی اسلامی اصول پر عمل ہوا لہٰذا یہ اپنے علاقے سے باہر نہیں پھیلا۔ فاضل ربیع بغدادی لکھتے ہیں کہ اس اثنا میں رمضان آ گیا‘ لہٰذا اس کی شدّت میں اضافہ ہو گیا؛ چنانچہ ایسے دن بھی آئے کہ روزانہ ایک ہزار بلکہ اس سے بھی زائد جنازے اٹھائے گئے... قابلِ غور یہ بات ہے کہ اس وقت کورونا وائرس کے دوران رمضان کا پُر رحمت اور بابرکت مہینہ آ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے۔ جو فوت ہو گا وہ تو شہید ہوگا اور دہری رحمت کا مستحق بنے گا (ان شاء اللہ) مگر سعودی عرب‘ ملائیشیا‘ امارات‘ ترکی اور کویت وغیرہ نے لوگوں کو ہر طرح کی عبادت گھر میں ادا کرنے کا کہہ دیا ہے۔ حکومت ِپاکستان کو اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ کے ماڈل کو عرب اور اسلامی دنیا اپنائے ہوئے ہے۔ ہم بھی اپنے وطن عزیز پاکستان میں اپنائے ہوئے ہیں‘ مگر کس حد تک؟ یا اللہ رحمان! ساری انسانیت ‘ ارضِ حرمین‘ پاکستان اور عالمِ اسلام‘ سب اور تمام کو عافیت عطا فرما۔ (آمین)