سعودی عرب میں آج کل شاہ عبداللہ نینو میڈیکل مرکزلوگوں کی آنکھوں کاتارا بنا ہوا ہے۔ اس مرکز سے تعلق رکھنے والی ایک نمایاں شخصیت کا نام ڈاکٹر ماجد عبدالعزیز حلوانی ہے‘ جو ایک نامی گرامی سائنسدان ہیں۔ وہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کی محنت سے میڈیکل مرکز میں گزشتہ آٹھ سال سے جراثیموں اور وائرس وغیرہ کے خلاف محلول تیار ہو رہے ہیں‘ جو حرمین کی نظافت اور صفائی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ویسے یہ مرکز 17جون 2007ء کو قائم کیا گیا تھا۔ کورونا وائرس کی وبا کو اب چار ماہ ہو چکے ہیں۔ یہ وبا جونہی عالمی قرار پائی تو سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے ولی عہد محمد بن سلمان نے یونیورسٹی کے مذکورہ شعبے کو خصوصی ٹاسک دیا کہ وہ ایسا محلول تیار کریں کہ جس کا سپرے کر کے حرمین شریفین کی زیارت کو آنے والوں کی صحت اور زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکے؛ چنانچہ نینو میڈیکل مرکز میں سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ اس مرکز کی ریسرچ کو پراڈکٹ کی شکل ایک سعودی کمپنی دیتی ہے ‘جس کا نام السعودیہ للاوزون ہے‘ اس کمپنی نے جو تازہ ترین پراڈکٹ تیار کی ہے‘ اس کا نام ''تک اوزون‘‘ ہے‘ یعنی اوزون کی ٹیکنالوجی کو اختیار کیا گیا ہے۔
قارئین کرام! ہماری زمین کو اوزون نے ہر جانب سے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ سورج اور دیگر ستاروں سے ایسی شعاؤں اور لہروں کو روک لیتی ہے ‘جو انسان کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر الٹرا وائلٹ ایسی لہریں ہیں ‘جو جلدی بیماریوں اور کینسر کا سبب بنتی ہیں۔ اوزون کی تہہ اس کو روک لیتی ہے۔ اوزون بھی ایک گیس ہے‘ جو (blueish) رنگ کی ہوتی ہے۔ یہ انتہائی لطیف بادلوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ انسانی آنکھ اس کو دیکھنے سے قاصر ہے۔ سعودی حکومت نے جو نیا محلول ''تک اوزون‘‘ بنایا ہے۔ اس کی ٹیکنالوجی یہ ہے کہ اسے آکسیجن کے تین ذرّات سے بنایا گیا ہے۔ یہ ذرات ایسے ہیں‘ جو اینٹی آکسیڈینٹ ہیں۔ ان میں مختلف کیمیائی عناصر داخل کئے گئے ہیں ‘جو بیالوجیکل سسٹم میں شامل ہو کر تحفظ کا اعلیٰ ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ سعودی سائنسدان کہتے ہیں کہ مذکورہ ٹیکنالوجی سے تیار کردہ محلول ‘یعنی ''تک اوزون‘‘ باریک ترین زندہ دنیا‘ یعنی جرثوموں‘ بیکٹیریا اور وائرس وغیرہ کو مار دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امامِ کعبہ حضرت ڈاکٹر عبدالرحمان السدیس حفظہ اللہ ‘جو حرمین کے امور کے سربراہ ہیں‘ کو یہ نیا اینٹی وائرس محلول سپرد کیا گیا ہے اور اس محلول کو انہوں نے 28اپریل 2020کو منگل کے دن مغرب کی اذان سے قبل بیت اللہ شریف میں استعمال کیا۔ کعبہ شریف کے غلاف اور غلاف کے نیچے دیواروں پر اس کا چھڑکاؤ کیا۔ حجرِ اسود اور مقام ابراہیم پر چھڑکاؤ کیا۔ مسجد نبوی شریف میں بھی اس کو استعمال کیا اور اس کاچھڑکاؤ کیا ۔ اس بابرکت عمل میں ان کے ساتھ امورِ حرمین کے وکیل احمد منصوری موجود تھے۔ حرمین دفتر کے رئیس سعد بن محمد مجید بھی ہمراہ تھے۔ یاد رہے! حرمین کے انتظامی ادارے نے نمازیوں کو حرمین میں محدود بھی کیا ہے اور موجود نمازیوں کے درمیان وہی فاصلہ رکھا ہوا ہے‘ جو صحت کے بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے۔
مذکورہ بات کو حرمین کے دفتر نے واضح کیا ہے۔ فیضلۃ الشیخ امام کعبہ سدیس نے چھڑکاؤ کے بعد گفتگو کرتے ہوئے فرمایاکہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر مذکورہ محلول تیار کیا گیا ہے۔ میسر جدید ترین تکنیک کو اپنانا ‘اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے مطابق ہے‘ یہ ہمارا فریضہ اور کوشش ہے‘ اصل حکم اللہ تعالیٰ کا ہے‘ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حرمین شریفین محفوظ رہیں گے۔ (ان شا اللہ)
قارئین کرام!براہو‘ قیاس آرائیوں پر مبنی جھوٹ کے وائرس کا کہ جو سوشل میڈیا پر بے مہار ہو کر لتاڑتا چلا جاتا ہے۔ مقصد ریٹنگ کا اضافہ اور جھوٹی شدت ہوتا ہے۔ حرمین میں زائرین کی آمد بند کی گئی تو کیا کیا جھوٹی افواہیں پھیلائی گئیں ‘مگر بات تو صرف اس قدر کہ حرمین کا شرف اور تکریم مجروح نہ ہو اور زائرین کی صحت اور زندگی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔ بس یہ وہ دو مقاصد تھے‘ جس کی خاطر سعودی حکومت کی نگرانی میں حرمین کا ادارہ امام کعبہ شیخ سدیس کی قیادت میں حفاظتی اقدامات کر رہا تھا اور کر رہا ہے۔ وہ اخلاص کے ساتھ دن رات کوشاں ہو کر اپنے رب کریم کی رضا حاصل کر رہے تھے اور بدگمان لوگ اپنی بدگمانیوں کو خبر اور علم کا نام دے کر اودھم مچا رہے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے بعض خود ساختہ صحافی کہ جنہیں نہ صحافت کا پتا ہے اور نہ وہ کوئی کالم لکھ سکتے ہیں‘ وہ عالم اور مفتی بھی بن جاتے ہیں۔ عربی کے ایک لفظ کا معنی نہیں جانتے۔ عربی کا کوئی لفظ۔ عربی رسم الخط میں لکھ نہیں سکتے۔ انہوں نے مفتی اور عالم و علامہ بن کر کہنا شروع کر دیا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ طاعون اور دجال مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوگا‘ پھر حرمِ نبوی بند کیوں؟ مسئلہ کورونا نہیں کوئی اور ہے۔
اب‘ اصل بات یہ ہے کہ حدیث تو ٹھیک ہے۔ حضور نبی کریمؐ کا فرمان ہے‘ مگر جلد بازی نہ کی ہوتی‘ اہل ِعلم سے پوچھا ہوتا‘ تو وہ بتلاتے کہ مذکورہ فرمان حضور رسول کریمؐ کی نبوت کی دلیل ہے۔ آپؐ کے زمانے میں طاعون کسی علاقے میں نہیں آیا۔ اس کے باوجود آپؐ نے طاعون کی بات کی۔ طاعون آج تک مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوا‘ یہ قیامت تک ہوگا بھی نہیں۔ طاعون تو آج سے ایک صدی پہلے تک موجود رہا۔ اس کی ویکسین آئی ختم ہو گیا‘ مگر اس کو ختم ہوئے صرف سو سال یا اس سے کچھ کم وقت ہوا ہے۔ رہا کورونا۔ جناب والا! یہ طاعون نہیں۔ وباؤں کی بے شمار اقسام ہیں۔ ہر مرض کی اقسام ہوتی ہیں‘ لہٰذا طاعون کے بارے میں گارنٹی ہے کہ وہ مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوگا؟ کورونا اور دیگر کسی وائرس کی گارنٹی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا جب مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوا‘ تب سے ہی سعودی حکومت اور حرمین کے انچارج امام کعبہ شیخ سدیس نے حفاظتی انتظامات شروع کر دیئے تھے۔ ان کے سامنے حدیث بھی تھی‘ اس کا درست فہم بھی تھا اور تاریخ بھی تھی۔
جی ہاں! ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نام سے سعودیہ نے علمی ریسرچ کا ایک ادارہ بنایا ہوا ہے۔ اس ادارے نے گزشتہ ساڑھے چودہ سو برسوں کی تاریخ مرتب کی ہے‘ جو حرمین کے حوالے سے ہے۔ اس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ وباؤں اور دیگر حادثات کی وجہ سے 40مرتبہ حج کو روکنا پڑا۔ دُور نہ جائیں‘ آج سے کوئی تین سو سال قبل ‘یعنی 1213ھ میں فرانسیسی حملہ ہوا۔ مکہ کی طرف آنے والے راستے پرامن نہ رہے‘ لہٰذا مجبوراً اس دور کی خلافت عثمانیہ کو حج روکنا پڑا‘ اسی طرح 1246ھ میں ہندوستان میں وبا پھیلی۔ یہ متاثر حاجی جب مکہ میں گئے تو وہاں موجود حاجیوں میں بھی وبا پھیل گئی۔ حاجیوں کی اکثریت حج سے قبل ہی فوت ہو گئی‘ لہٰذا حشر جیسے بپا حالات میں حج ممکن نہ رہا اور روک دیا گیا‘ اسی طرح 357ھ میں بھی وبا پھیلی۔ بہت سارے حاجی فوت ہو گئے‘ لہٰذا حج نہ ہو سکا۔ جو شخص 40مرتبہ رکے ہوئے حج کی تفصیل دیکھنا چاہے‘ وہ تاریخی حوالوں کے ساتھ نیٹ پر دیکھ سکتا ہے۔
شیخ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے سلسلہ صححۃ میں 3420 نمبر پر حدیث لائے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولؐ کو دیکھا کہ آپؐ طواف کرتے ہوئے کعبہ کو مخاطب کرتے ہیں۔ تجھے خوش آمدید! تیری خوشبوؤں‘ عظمت‘ احترام اور حرمت کے کیا کہنے؟ مگر اس اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ ایک مومن کی عزت تجھ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ تیرے ساتھ ایک حرمت وابستہ ہے۔ مومن کے ساتھ تین حرمتیں ؛(1)خون‘(2) مال اور (3) یہ کہ بدگمانی نہ کی جائے وابستہ ہیں۔
آہ! قارئین کرام! ہمارا نقصان بدگمانی اور پھر اس کو خبر بنا کر‘دین بنا کر‘ پھیلانے نے کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے۔ آخر پر عرض کروں گا کہ سعودیہ نے تو اپنے ہاں آنے والے مہمانوں اور زائرین کی جان‘ مال اور عزت کا تحفظ کیا ہے۔ ہمیں اپنے ملک پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کا احترام کرنا چاہیے۔ مساجد کے بارے میں‘ جو پالیسی طے پائی ہے‘ اس پر عمل کرنا چاہیے۔ حرمین کی پالیسی کو اپنے لیے اسلامی پالیسی سمجھ کر اپنانا چاہیے۔ ہمارے سکیورٹی کے لوگوں کی زندگیاں داؤ پر ہیں‘ ان کا خیال کرنا چاہیے۔ ڈاکٹرز‘ نرسیں اور ان سے متعلق سب لوگوں کو خراج تحسین اور مؤدبانہ سلام کہ وہ فرنٹ لائن کے مجاہد ہیں‘ ان کا خیال کریں۔ اپنے ملک کے اداروں کو امتحان میں نہ ڈالیں‘ جذباتی باتیں نہ کریں‘ حقیقت پسند بنیں‘ سازشی تھیوریوں سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)