اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد بار انسان کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ اپنی تخلیق پر غور و فکر کرے۔ قرآن مجید‘ فرقان حمید آخری کتاب ہے‘ یہ رمضان المبارک میں نازل ہوئی۔ پہلی وحی سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات پر مشتمل ہے۔ پہلی آیت کا ترجمہ یوں ہے ''پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ کہ جس نے انسان کو (رحم مادر کی دیوار کے ساتھ چمٹی ہوئی) جونک سے پیدا فرمایا‘‘۔
جی ہاں! آج جدید ترین الٹرا سائونڈ نے اس جونک کی شکل کو آشکار کر دیا۔ یہ جونک قدرے سیاہی مائل بھورے رنگ کی ہے۔ یہ گوشت کی بنی دیوار کے ساتھ چمٹ کر اپنی خوراک حاصل کر رہی ہے۔ بالکل‘ اسی طرح ‘جس طرح ایک جونک انسان کو چمٹ جائے تو وہ انسانی کھال کے ساتھ چمٹ کر خون چوسنا شروع کر دیتی ہے۔ خون چوستے چوستے جب وہ موٹی ہو جاتی ہے اور مزید خون نہیں چوس سکتی تو خود بخود ہی گر جاتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر بھی اس کا تجربہ ہے۔
آج سے کوئی 28 سال قبل میں بنگلہ دیش گیا۔ برسات کا موسم تھا؛ وہاں ایک گھنے جنگل میں سے گزرتے ہوئے ایک جونک میری ٹانگ کے ساتھ چمٹ گئی۔ ہم جب میزبان کے گھر پہنچے اور بھیگے کپڑے اتارنے لگے تو جونک جو خوب موٹی ہو چکی تھی۔ میری ٹانگ سے نیچے گر پڑی‘ اسے دیکھ کر مجھے بڑی کراہت ہوئی۔ ہر انسان صاحب ِذوق ہوتا ہے اور ہر صاحب ِ ذوق کو جونک اور سنڈی دیکھ کر کراہت سی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی پہلی وحی اور الہامی پیغام میں ہر انسان کو آگاہ کیا ہے کہ تجھے صاحب ِ ذوق بھی میں نے بنایا ہے۔ اچھا ذوق تیری فطرت میں ودیعت کیا ہے۔ میں تجھے بتلا رہا ہوں کہ اپنی حیثیت پر غور کر۔ کبھی تو ایک جونک کی صورت میں تھا۔ اللہ کی قسم کمال تشبیہ ہے کہ جس طرح جونک خون چوس کر موٹی ہو کر گر جاتی ہے ‘اسی طرح اے انسان! تو بھی جونک تھا تو خوراک حاصل کرتا رہا‘ پھر موٹا ہو کر یہاں سے گرا اور کسی لیڈی ڈاکٹر یا دائی کے ہاتھوں میں جا گرا۔ اپنی اس حیثیت کو کیوں بھولتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ ہر انسان خصوصاً مسلمان کو اس کی مذکورہ حیثیت یاد کرواتا ہے۔
اللہ اللہ! آج کے جدید ترین الٹراسائونڈ نے مذکورہ تصویر دکھا کر آگاہ کر دیا ہے کہ قرآن پاک سچی کتاب ہے اور جس عظیم ہستی کے مبارک اور پاکیزہ ترین دل پر نازل ہوئی ہے‘ وہ ہستی حضرت محمد کریمؐ ہیں اور وہ صادق و امین ہیں۔
قارئین کرام! تتلی کس قدر پیاری لگتی ہے؟ اس کی بہت ساری اقسام ہیں‘ مگر تتلی کی ہر قسم آغاز میں ایک سنڈی یا جونک کی طرح ہوتی ہے‘ جسے دیکھ کر کراہت ہوتی ہے۔ آج ہم یوٹیوب پر اس سنڈی کی نشوونما ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنی شکلیں بدلتی چلی جاتی ہے اور آخر پر اس قدر خوبصورت رنگوں اور رنگین پروں کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ اڑتی ہے تو چھوٹے بچے اور بچیاں اسے پکڑنے کو دوڑتے پھرتے ہیں۔ انہی معصوم بچوں کو اس تتلی کی وہ شکل دکھائو‘ جب یہ سنڈی یا جونک کی طرح تھی تو کوئی بچہ اور بچی اس کو ہاتھ نہیں لگائے گی۔
جی ہاں! انسانی بچہ جو ایک جونک ہوتا ہے ‘جب اس کے اعضاء بن جاتے ہیں تو جدید میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ اس کے دماغ سے لہریں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے‘ جب یہ جونک بڑی ہو کر 44 دن کی ہو جاتی ہے۔ یہی بات اللہ کے رسول آقائے دو جہاںﷺنے بتائی ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ بچہ جب 42 دن کا ہوتا ہے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ آتا ہے اور اس میں روح پھونک دیتا ہے‘ یعنی 42 دن کے اگلے دن یا اس سے اگلے دن جونہی روح پھونکی جاتی ہے‘ لہروں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ یہ لہریں انسان کے دماغ سے زندگی بھر متعلق رہتی ہیں۔ جب یہ مرتا ہے تو لہریں نکلنا بند ہو جاتی ہیں‘ یعنی اصل انسان آسمان سے آتا ہے۔ فرشتہ اسے لے کر آتا ہے اور فرشتہ ہی اسے لیکر جاتا ہے۔ لاتا ہے تو اسے نشوونما اور پیدائش کہا جاتا ہے۔ خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ جاتا ہے تو اسے موت کہا جاتا ہے۔ اب‘ غم اور سوگ منایا جاتا ہے۔ بے چارہ انسان بھی کیا بھولا بھالا ہے کہ سالگرہ بھی مناتا ہے اور برسی بھی مناتا ہے۔
یعنی حقیقت میں انسان ایک کھلونا ہے‘ جو اپنے آپ کو کھلونا بناتا ہے اور کھلونوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔ قرآن مجید اور صاحب ِ قرآن حضرت محمد کریمؐ اسے حقیقت پسندی کا درس دیتے ہیں کہ تو جہاں سے لایا گیا تھا ‘واپس اسی جگہ چلا گیا۔ لوگو! میرے حضورﷺکی بات کس قدر حقیقتوں سے بھرپور ہے کہ جدید میڈیکل سائنس لہروں کی صورت میں اعتراف کر رہی ہے۔
آئیے! ایک اور حقیقت ملاحظہ کرتے ہیں؛ قرآن مجید انسان کی پیدائش کا تذکرہ کرتے ہوئے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور پھر بتاتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے۔
پہلے ہنسنے کا ذکر ہوا اور اس کے بعد رونے کا ذکر ہوا۔ اس کتاب نے کہ جو حضرت محمد کریمؐ پر نازل ہوئی‘ جس ترتیب کے ساتھ ذکر کیا‘ اسی ترتیب کو میڈیکل سائنس کی جدید ترین مشین‘ یعنی الٹراسائونڈ نے دکھایا کہ بچہ جب اچھی طرح نشوونما پا لیتا ہے تو مسکرانا اور ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔ انتہائی تنگ جگہ پر کہ وہ تین اندھیری جھلیوں میں بند ہوتا ہے‘ وہاں اسے مسکراہٹ عطا کرتا ہے تو قرآن مجید کہتا ہے۔ اس کا خالق عطا کرتا ہے‘ مگر لوگو! جب یہ دنیا میں آتا ہے تو آتے ہی رونا شروع کر دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہی رلاتا ہے کہ یہ نہ روئے تو اس کی زندگی مشکل میں پڑ جاتی ہے۔ یہ سانس لینے کا آغاز کرتا ہے۔ پھیپھڑے کھلتے ہیں۔ سانس کی نالیاں دنیا کی آکسیجن کو اندر لیکر جاتی ہیں۔ حضورؐکے فرمان کے مطابق ایسا شیطان کے کچوکے لگانے سے ہوتا ہے‘ یعنی رحمان اسے مسکراہٹ عطا کرتا ہے تو رحمان ہی کے حکم سے شیطان اس کے رونے کا سبب بنتا ہے‘ پھر وہ دنیا میں زیادہ تر روتا ہی رہتا ہے۔
آج کوروناوائرس نے سات ارب انسانوں کو رلا مارا ہے‘ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹا ہے؟ اس نے اس مولا کریم کے دربار میں سجدہ ریز ہو کر آنسو بہا کر معافی مانگی ہے؟ اپنے جرائم کو یاد کیا ہے‘ جو رب کریم اسے جونک سے اگلے مرحلوں میں لا کر انتہائی خوبصورت چہرہ عطا فرماتا ہے۔ یہ اپنے کردار کو بھی کیا خوبصورت بناتا ہے۔ واپسی کے سفر کی تیاری کرتا ہے۔ اپنے ساتھ زادِ راہ لیتا ہے۔
آہ! اگر ایسا ہوا کہ دنیا میں مال و دولت اور ظالمانہ کردار چھوڑ کر آگے بڑھا اور پھر لینے والا لینے آ گیا تو قبر کی اندھیر رات میں جواب کیا ہوگا؟ مزہ تو زندگی کا تبھی ہے کہ ماں کے پیٹ کی قبر میں جس طرح معصوم بن کر تو مسکرایا تھا‘ ایسے ہی قبر میں بھی مسکرا کر دکھلائے تو کامیابی ہے!