رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ''جمعۃ الوداع‘‘ کہا جاتا ہے۔ وداعی جمعہ قیامت تک آتا رہے گا‘ مگر لوگ بدلتے رہیں گے۔ ہر مسلمان کے حصے میں جس تعداد میں وداعی جمعوں کا حصول لکھا جا چکا ہے‘وہ اسی تعداد میں وداعی جمعوں کی ادائیگی کا اجر حاصل کرے گا اور دنیا چھوڑ جائے گا۔
چاند طلوع اور غروب ہوتا رہے گا ‘مگر وہ چاند کو دیکھنے کے لیے زمین پر موجود نہیں ہوگا۔ اس کا وجود زمین کے نیچے چلا جائے گا‘ جبکہ وہ خود آسمانوں کی جانب چلا جائے گا۔ جسم مٹی سے نمودار ہوا تھا ‘وہ واپس مٹی میں چلا جائے گا۔ روح آسمانوں سے آئی تھی‘ وہ واپس آسمانوں کی جانب چلی جائے گی۔ پیدائش کے بعد رضاعت پھر طفولیت یعنی بچپن پھر لڑکپن‘ جوانی اور جوانی کے بعد ڈھلتی عمر جس کو ادھیڑ عمری کہا جاتا ہے‘ پھر کہولت ‘یعنی بڑھاپا اور پھر کوئی بڑھاپے کے بعد رذیل عمری ‘یعنی دنیاوی اعتبار سے بیکار عمر گزار کر مٹی کے نیچے مٹی بن جاتا ہے۔ یہ وہ وداعی حقیقت ہے جسے آج ''جمعۃ الوداع‘‘ کے موقع پر یاد رکھنا ضروری ہے۔
حکومتِ پاکستان نے چاند دیکھنے کا محکمہ بنا رکھا ہے۔ اس کا نام ''رؤیت ِہلال‘‘ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے چاند پیدا ہو گیا ہے۔ آئیے اور اسے دیکھیں۔ اس چاند نے اپنا بچپن‘ جوانی اور ادھیڑ عمری گزار لی ہے۔ اس کی عمر کبھی 29 دن ہوتی ہے اور کبھی 30 دن ہوتی ہے۔ ''جمعۃ الوداع‘‘ کے روز یہ بڑھاپے کی شکل میں ہے۔ اس کے ایک دو دن بعد اس کی موت واقع ہو جائے گی‘ پھر اک نیا چاند دیکھنے کو ملے گا۔ یہ وداعی حقیقت ہے‘ جسے خاموش زبان کے ساتھ چاند بتاتا ہے اور آگاہ کرتا ہے کہ وہ کبھی چودھویں کا چاند بھی ہوا کرتا تھا۔ یہی حال سورج کا ہے۔ مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔ جب آسمان کے وسط میں آتا ہے تو اس کی تمازت اور گرمی ہر شے کو محسوس کراتی ہے کہ سورج اپنی جوانی کا ٹائم گزار رہا ہے اور پھر عصر کے بعد مغرب میں بالآخر غروب ہو جاتا ہے۔ اس کے مرنے کی یادِ شفق کی صورت میں آسمان کے کنارے پر کچھ دیر قائم رہتی ہے اور پھر یہ بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اب‘ رات کا اندھیرا سورج کی یاد کو بھی مٹا دیتا ہے۔
وداعی جمعہ کے نمازیو! زمین پر موجود تمام جانداروں اور نباتات کی حقیقت یہی ہے۔ آسمان میں موجود سیاروں‘ ستاروں‘ کہکشائوں اور ان کے کلسٹرز اور سپر کلسٹرز وغیرہ کی حقیقت بھی یہی ہے۔ اس حقیقت کو حضرت محمد کریمؐ نے بیان فرمایا اور کمال کر دیا۔ اللہ کی قسم ایسا کمال کیا اور کمال کو ایسا جمال بخشا کہ جونسا انسان بھی اپنے جسم کی جوانی‘ مال کی فراوانی اور اقتدار کی بلند بامی پر میرے حضورؐ کی بتائی ہوئی الہامی حقیقت کو ہر وقت سامنے رکھے گا وہ دنیا میں بھی عزت پائے گا اور آخرت میں بھی رسوا نہیں ہوگا۔ آئیے! اب حضور حضرت محمد کریمؐ کی بتائی ہوئی حقیقت ملاحظہ فرماتے ہیں:
''حضرت انس بن مالکؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کی ایک اونٹنی تھی۔ نام اس کا عضباء تھا۔ تیز اس قدر تھی کہ کسی کو آگے نہ بڑھنے دیتی تھی؛ چنانچہ (دوران سفر) ایک دیہاتی جو ایک نوخیز اونٹ پر سوار تھا‘ وہ اپنے دوڑتے اونٹ کے ساتھ اونٹنی سے آگے بڑھ گیا۔ اس عمل نے مسلمانوں (صحابہ) کے دلوں کو تکلیف سے دو چار کر دیا۔ حضورﷺ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا ''حقیقت یہ ہے کہ یہ (کائناتی) حق اللہ کے ذمّہ ہے کہ دنیا میں جو شے بھی بلندی کو چھوٹی وہ نیچے گرتی ہے‘‘۔ (بخاری: 2872)
اللہ اللہ! میں صدقے قربان سرکارِ مدینہ ﷺکے فرمان پر کہ اپنے صحابہ کے مشتعل دلوں پر پانی ڈالا۔ ان کی محبتیں اپنی جگہ کہ ایک دیہاتی کو حضورﷺکی اونٹنی سے آگے نہیں جانا چاہیے تھا۔ ادب کا تقاضا یہی تھا۔ جی ہاں! محبت اور ادب و احترام کے مندرجہ بالا تقاضے پر ساری زندگی صحابہ نے عمل کیا۔ یہ واحد ایسا واقعہ ہے‘ جو ایک عام اور سادہ دیہاتی سے انجانے میں سر زد ہوا‘ مگر اس میں اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ تھی۔ راز یہ تھا کہ سرکارِ مدینہ محمد مصطفیﷺ نے اپنے ساتھ بیتنے والے واقعہ کی روشنی میں ایک کائناتی حقیقت کو رہتی دنیا تک انسان کے سامنے رکھنا تھا۔ موت کا سبق یاد کرانا تھا۔ ہر انسان کو‘ ہر حکمران کو میرے حضورﷺ نے بتانا تھا کہ قوت اور جوانی میں اخلاق کو تھام کر رکھنا۔ آپے سے باہر نہ ہونا۔ اس لئے کہ ہر شے نے اڑان بھرنی ہے‘ تو نیچے زمین پر بھی آنا ہے اور پھر زمین کے نیچے جانا ہے۔
میری زندگی کے کوئی 30 سال پاکستان بھر کی سڑکوں پر سفر کرتے گزر گئے۔ میں نے کتنے ہی لوگوں کو دیکھا کہ ایک کار نے کراس کیا۔ دوسرے نے توہین سمجھی۔ ریس لگ گئی اور پھر ایکسیڈنٹ بھی ہوئے۔ لڑائیاں بھی دیکھیں۔ بسوں کے ایکسیڈنٹ بھی ہوئے۔ ایسے سب لوگوں کو سڑکوں پر چلتے ہوئے حضورﷺ کے کریمانہ اخلاق کو سامنے رکھنا چاہیے۔ صبر اور حوصلے کے دامن کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ عاجزی اور انکساری میں عزت ہے۔ کسی کو کمتر نہ سمجھنے میں عزت ہے۔ جو دنیا سے الوداع ہونے کو اپنے سامنے رکھتا ہے ‘اس کی سوچ اور عمل کا پیمانہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ حضورﷺ کی حیات ِ طیبہ اورسیرتِ پاک کو اپنا آئینہ اور اُسوہ بناتا ہے۔
رمضان المبارک رخصت ہو رہا ہے۔ اسی مہینے میں قرآن آیا تھا۔ رمضان ہر سال آتا رہے گا۔ قرآن باقی رہے گا۔ حضورﷺ پر نازل ہونے والا اللہ کا کلام قیامت کے بعد بھی باقی رہے گا۔ اس لیے کہ اللہ کا کلام ہے۔ الوداع ہم نے ہونا ہے۔
قرآن میں 19 مرتبہ ''تُرجَعُون‘‘ کا لفظ ہے کہ لوگو! تم الوداع ہو کر واپس جائو گے۔ ''مَرْجَعْ‘‘ کا لفظ 16 مرتبہ ہے کہ تمہارے واپس جانے کی جگہ اللہ کے پاس ہے۔ 6 بار ''یُرْجَعُوْن‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ قرآن میں انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ چار مرتبہ آیا ہے۔ کسی سواری پر سوار ہو کر سڑک پر سفر شروع کیا جائے‘تو اس کے لیے ''منقلبون‘‘ کا لفظ آیا ہے‘ یعنی تم اس سواری پر گھر یا منزل پر جانے کی بجائے‘ اپنے رب کی طرف پلٹ سکتے ہو‘ لہٰذا سوچ لو کہ اس سفر کا خرچہ بھی تمہاری جیب میں ہے یا خالی ہے۔ قرآن کہتا ہے یہ خرچہ ''تقویٰ‘‘ ہے۔
سورۃ الشعراء میں ڈرایا گیاہے کہ ظالم لوگ جان لیں گے کہ وہ کس مُنْقَلَبْ‘ یعنی پلٹنے کی جگہ پر ''یَنْقَلِبُون‘‘ پلٹے ہیں۔ الغرض! یہ لفظ چار مرتبہ ہے۔ ''اَلْمَصِیْر‘‘ 12 مرتبہ ہے۔ معنی یہی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف واپسی کا سفر اختیار کرنا ہے۔ الوداع ہونے کی تیاری رہو۔ قرآن میں 2 مرتبہ ''نشور‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ اور حضورﷺ کی مبارک حدیث میں یہ دعا بتلائی گئی ہے کہ سونے کے بعد جب بھی جاگو تو یہ دعا مانگو ''سب تعریف اس اللہ کے لیے ‘جس نے مجھے موت (یعنی نیند) کے بعد زندگی دی(یعنی جگایا) اسی کی طرف ایک دن نشور یعنی مر کر اٹھنا ہے۔
قرآن پاک میں 3 مرتبہ ''تُرَدُّوْن‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کا مطلب بھی واپس جانا ہے۔ ''مَاٰب‘‘ کا لفظ 5 مرتبہ آیا ہے۔ تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ یہ سارے قرآنی الفاظ ایک ہی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ واپسی یقینی ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ قرآن سنا کر بھی رہنمائی فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے الہام ہونے والی حدیث سنا کر بھی رہنمائی فرماتے ہیں کہ دنیا سے الوداع ہونے اور اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کو یاد رکھا جائے اور پھر اپنے عمل سے یہ سبق یاد کروایا کہ ''عضباء اونٹنی‘‘ کی جوانی بھی اب ڈھل گئی‘ لہٰذا نوخیز اونٹ اس سے آگے چلا گیا تو میں اللہ کا قانون بتاتا ہوں کہ دنیا میں ہر شے کی جوانی ڈھل کر رہے گی اور پھر دنیا کو چھوڑ کر الوداع ہونا ہوگا۔ اللہ کی طرف جانا ہوگا ‘لہٰذا اسے یاد رکھو‘ لوگو! روس جو کبھی سپر پاور تھا‘ نہ رہا۔ امریکہ اب زوال کے راستے پر ہے۔ چین ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ جی ہاں! کئی سپر پاورز آئیں اور مٹ گئیں۔ جغرافیے بدل گئے۔ بڑی بڑی جماعتوں کے نام بھی مٹ گئے۔ لیڈرز خاک ہو گئے۔ رہے نام اللہ کا۔
نبیوں کے سردار جس رسول اعظمﷺ نے انسان کو واپسی کے الوداعی سفر کا سبق یاد کروایا۔ ان کا عظیم نام دنیا میں تابندہ رہے گا۔ یہاں نامِ محمدﷺ پر صلاۃ و سلام ہوگا تو اگلے جہان میں احمدﷺ کے نام سے میرے حضورﷺ کے مقامِ محمود کا چرچا ہوگا۔ شفاعت اس کو ملے گی‘ جو الوداعی پیغام کو یاد رکھے گا۔