وہ خلانورد جو خلا میں جانے کے لیے زمینی خلائی اسٹیشن سے خلا کی جانب پرواز کرتے ہیں اور وہاں خلائی سٹیشن میں قیام کرتے ہیں۔ واپس زمین پر آنے کے بعد وہ بعض جسمانی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھیپھڑوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں؛ حتیٰ کہ ان میں پانی بھر جاتا ہے‘ اسی طرح آنکھوں کی بینائی پربھی اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ اس قدر کہ بعض خلانورد نابینا بھی ہو گئے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ زمین پر ہی اس کی تمام تر ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ وہ جب زمین کو چھوڑ کر بلندیوں کی جانب جاتا ہے تو بیماریوں کی صورت میں اسے قیمت ادا کرنا پڑتی ہے‘ جو خلائی شٹل اسے لیکر جاتی ہے‘ اس کے انتہائی آرام دہ کیپسول میں خلانورد موجود ہوتے ہیں۔ خلائی شٹل کو اوپر لے جانے والے راکٹ جَل جَل کر گرتے رہتے ہیں اور خلائی شٹل کا کیپسول زمینی کشش کو پار کر کے خلاء میں چلا جاتا ہے‘ یعنی راکٹ کا کام بس اسی قدر ہے کہ وہ اپنی قوت و صلاحیت کو کھپا کر اپنا وجود ختم کر دے اور انسان خلا میں پہنچ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل روحانی انسان کے لیے زمین سے خلا تک کا فاصلہ ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے سے بھی کم وقت کا فاصلہ ہے‘ مگر روحانی انسان ان فاصلوں کو طے اس وقت کرتا ہے‘ جب وہ اپنے جسمانی راکٹ سے الگ ہوتا ہے۔ جسمانی راکٹ سے اصل روحانی انسان کی علیحدگی کا نام ''موت‘‘ ہے‘ جو شخص اپنے جسمانی راکٹ سے الگ نہیں ہونا چاہتا‘ وہ موت سے ڈرتا رہتا ہے۔ وہ انتہائی زیادہ ڈرتا ہے۔ اس قدر کہ آئے روز اپنے جسمانی راکٹ کے دنیا کی اعلیٰ ترین لیبارٹریوں میں چیک اپ کرواتا رہتا ہے‘ کورونا کے خوف سے اس نے آکسیجن کا سلنڈر بھی گھر میں رکھ لیا ہے۔ اپنے محل یا عظیم الشان رہائش گاہ میں وینٹی لیٹر بھی رکھ لیا ہے‘ تاکہ میرا جسمانی راکٹ بالکل درست حالت میں رہے‘ لہٰذا جسمانی راکٹ کو چھوڑ کر آخری پرواز کیلئے نہ کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی ایسے پروگرام کیلئے کوئی تیاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جیسے معمولی لوگ اور وہ بھی گناہ گار۔ تیاری ان کی ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے۔ قارئین کرام! جو لوگ آخری پرواز کی تیاری کے لیے ہر دم تیار ہوتے ہیں‘ ان کا جائزہ لیتے ہیں:۔
قرآن آگاہ کرتا ہے ''جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا امیدوار ہے تو کیا شک ہے اللہ کا مقرر کردہ ٹائم بس آیا چاہتا ہے‘ وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘ (العنکبوت:5)۔ معروف تابعی‘ خلافت اسلامی کے چیف جسٹس اور عدل کی دنیا کا ایک بڑا نام حضرت شریح رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور گزارش کی کہ میں نے حضرت ابوہریرہؓ سے حضورؐ کا ایک ایسا فرمان سنا ہے کہ اگر وہ صحیح ہے تو ہم مارے گئے۔ اُم المومنین نے پوچھا: وہ کونسی حدیث ہے؟ تو حضرت شریحؒ نے کہا کہ ''جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو بھی ایسے شخص سے ملاقات محبوب ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے کو ناپسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے شخص سے ملاقات کو ناپسند فرماتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی موت کو ناپسند کرتا ہے (جبکہ موت کے بغیر اللہ سے ملاقات ممکن نہیں) حضرت عائشہؓ نے جواب میں فرمایا:یہ فرمان اللہ کے رسولؐ ہی کا ہے‘ مگر اس کا وہ مطلب نہیں‘ جو تم نے سمجھا ہے‘ بلکہ یہ بات ہے اس وقت سے متعلق کہ جب نظر اوپر کو اٹھ کر (آسمان کی جانب) تاڑنے لگ جائے۔ سینے میں سانس پہنچ کر اٹکنے لگ جائے۔ جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں (روح کے جسم سے نکلنے کا عمل شروع ہو جائے) اس وقت جو شخص اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو شخص اس وقت اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات کرنے سے کراہت و ناپسندیدگی کرتے ہیں‘‘۔ (مسلم: 2685نسائی:1835)
قارئین کرام! مسلم شریف اور نسائی شریف میں دوسرے مقام پر وضاحت اس طرح ہے کہ جب (موت کے وقت) مومن کو اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش کی خوشخبری دی جاتی ہے ‘تو وہ فوراً (جسمانی ڈھانچے کی قید سے آزاد ہو کر) اللہ تبارک و تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے ملنا چاہتے ہیں‘‘۔ (مسلم:2684)
قارئین کرام! انسان کے جسمانی ڈھانچے میں دس کھرب کے قریب خلیات ہوتے ہیں۔ ہر خلیے سے روح نے نکلنا ہوتا ہے۔ پاؤں اور پنڈلیوں سے اس کے نکلنے کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ روح جب پیٹ میں آتی ہے تو جس طرح پانی کی مشک میں پانی ڈلکتا ہے عموماً ایسی کیفیت پیٹ کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد سینے تک پہنچنے سے ذرا پہلے یہ روح جب دو پسلیوں کے درمیان پہنچتی ہے تو اس وقت مومن کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا! ''مومن کی کیا بات ہے کہ ہر حالت میں فائدے ہی فائدے اٹھاتا ہے کہ جب اس کی روح دونوں پسلیوں سے نکل رہی ہوتی ہے تو وہ عزت و جلال والے اللہ کی تعریف (الحمد للہ‘ الحمد للہ) کہہ رہا ہوتا ہے‘‘ (نسائی: 1844حسن)۔
جیسا کہ ہم بیان کر چکے‘ اس کے بعد روح سینے میں آ جاتی ہے۔ سانس اٹکنا شروع ہو جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ '' اس کے بعد ہنسلی کی دو ہڈیوں کے درمیان روح پہنچ جاتی ہے‘‘ (القیامہ:26)۔ اب‘ یہ روح موت کے فرشتے کے ہاتھوں میں جانے والی ہے اور جسم ساکت و جامد ہوا چاہتا ہے۔ اس آخری منظر میں انسان تین طرح کے ہیں -1 نیک اور پاکیزہ انسانی روح -2 بدکردار اور ظالم انسان کی روح -3ایمان سے خالی کافر کی روح۔ تینوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے‘ اللہ کے رسولؐ نے تفصیل کے ساتھ آگاہ فرمایا ہے۔ ارشاد گرامی ہے: ''جب مومن موت سے دوچار ہونے لگتا ہے تو رحمت کے فرشتے مومن کے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ سفید ریشمی لباس ان کے پاس ہوتا ہے۔ وہ مومن سے کہتے ہیں۔ جسم سے باہر نکل آ۔ تم اللہ تعالیٰ سے خوش ہو‘ جبکہ اللہ کریم تم سے خوش ہیں۔ اللہ کی رحمت و مہربانی کی جانب آ جا۔ عالیشان خوشبوؤں میں آ جا۔ اپنے ایسے رب کریم کی جانب کہ جو تم سے ناراض نہیں ہیں۔ اب وہ روح جسم کو چھوڑ کر نکل جاتی ہے۔ کستوری کی خوشبو سے کہیں زیادہ پاکیزہ ترین خوشبوؤں کے ساتھ نکل جاتی ہے۔ یہاں تک کہ (نہ جانے کتنے ہزاروں‘ لاکھوں فرشتے) ہاتھوں ہاتھ اسے لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو پکڑاتے جاتے ہیں اور آسمان کے دروازے پر جا پہنچتے ہیں۔ (دروازے پر موجود فرشتے) کہتے ہیں۔ فرشتو! یارو! کس قدر عمدہ اور عالیشان خوشبو والی یہ روح ہے‘ جسے تم زمین سے لائے ہو۔ اس کے بعد (پہلے سے فوت شدہ) مومنوں کی روحوں کے پاس سے اسے لے جاتے ہیں۔ وہ اس نووارد کے آنے پر اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ تمہارا کوئی پیارا لمبے عرصہ تک غائب رہنے کے بعد تم سے ملے تو جس قدر تم کو خوشی ہوتی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ خوشی ان کو ہوتی ہے۔ اب وہ (اس کے گرد اگرد ہو کر) پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں کا حال کیا ہے۔ وہ فلاں بندہ کس حال میں ہے؟ نوارد خاموش رہتا ہے تو وہ آپس میں کہتے ہیں؛ چھوڑو یار‘ اس دنیادار کا ذکر کہ وہ تو دنیا (کے حصول) کے غم و فکر میں ہی تھا۔ اب نووارد بولتا ہے کہ وہ جس کا تم ذکر کر رہے ہو‘ تمہارے پاس نہیں آیا؟ (یعنی وہ تو کب کا دنیا چھوڑ چکا) اب وہ افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تو اپنے جہنمی ٹھکانے کی طرف گیا۔ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو عذاب کے فرشتے انتہائی غلیظ اور بدبودار ٹاٹ لے کر اس کے پاس آ جاتے ہیں اور (غضبناک) ہو کر کہتے ہیں۔ نکل ادھر کو۔ تو بھی پریشان اور تیرا اللہ تجھ پر ناراض ہے۔ اللہ کے عذاب کی جانب چل۔ اب‘ یہ روح مردار بدبو کے بھبھوکے کے ساتھ نکلی ہے؛ حتیٰ کہ اسے زمین کے دروازے پر لایا جاتا ہے اور کہتے ہیں؛ کس قدر بدبودار ہے یہ اور پھر اسے کفار کی روحوں سے ملا دیا جاتا ہے‘‘ (نسائی:1834صحیح)۔
قارئین کرام! مومن کی روح‘ فاسق فاجر مسلمان کی روح اور ایمان سے محروم کافر کی روح کے نکلنے کا حال ہم نے ملاحظہ کیا۔ جسمانی راکٹ اور ڈھانچہ تو یہیں رہ گیا۔ روح پرواز کر گئی‘ لہٰذا روح کی اصلاح اور پاکیزگی کی فکر کر اے ناداں مسلماں! باقی آئندہ (اِن شا اللہ تعالیٰ)