"AHC" (space) message & send to 7575

اولین ترجیح (First Priority)

اللہ رحمان کے رحیم و کریم رسول ﷺکی عمر ِمبارک قمری کیلنڈر کے مطابق 63 سال تھی‘ شمسی کیلنڈر کے لحاظ سے یہ 61 سال بنتی ہے۔ ہمارے محبوب رسول کریمؐ کے سر مبارک اور داڑھی مبارک کے تمام بال سیاہ تھے۔ ٹھوڑی مبارک کے چند بال سفید تھے۔ صحابہ کہتے ہیں کہ وہ گِنے جا سکتے تھے یعنی کوئی پانچ سات عدد ہوں گے۔ یہ اس بات کی علامت اور دلیل ہے کہ حضورﷺصحت کے اعتبار سے مکمل طور پر فِٹ تھے۔ حضورؐ کا چہرہ مبارک اس دنیا سے تشریف لے جانے پر بھی تاباں اور شاداں و فرحاں تھا۔ سرخ و سفید تھا۔ یہ بھی اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حبیب حضرت محمد کریم ﷺکی جسمانی صحت آخر وقت تک قابلِ رشک تھی۔ 63 سالہ مبارک زندگی میں حضورؐ کو عام انسان سے ڈبل بخار ہوا‘ سر درد بھی ہوا‘ حضورؐ کی آخری بیماری کا آغاز بھی سر درد سے ہوا اور بخار بہت تیز رہا‘ مگر ہمارے حضورؐ کے تمام مبارک جسمانی اعضا مکمل طور پر آخر وقت تک بالکل صحیح اور صحتمند تھے... قارئین کرام! حضورؐ کی مبارک سیرت سے میں اپنے آپ کو اور ہر مسلمان کو درس اور سبق یہ دینا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کا ایک ٹائم مقرر ہے اس کا بیماری اور صحت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ وہ سبق ہے جو حضورؐ نے قرآن کے ذریعہ اور اپنے فرمان کے ذریعہ اپنی امت کو یاد کروایا ہے۔ اپنی صحت کا خیال رکھنا فرض ہے۔ یہ فرض بھی ہمیں حضورؐ نے بتایا ہے مگر حقیقت بہر حال یہی ہے کہ ٹائم مقرر ہے۔ یاد رہے! اللہ کے آخری رسولؐ کو اختیار دیا گیا کہ وہ جب تک چاہیں دنیا میں رہیں۔ زمین کا اقتدار اور زمین کے خزانوں کی چابیاں بھی ملیں گی۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ آپ کا ٹائم پورا ہو چکا ہے‘ لہٰذا ہمارے پاس آ جائیے۔ ہمارے لینے والے حاضر ہو گئے ہیں۔ آپؐ سے اجازت مانگ کر آپ کے پاس اور قریب جائیں گے اور ہمارے پاس لے آئیں گے۔ حضورؐ نے اپنے رب سے ملاقات کو پسند فرمایا اور بقول حضرت عائشہؓ کے '' دنیا میں موجود لوگوں کے برعکس فردوس میں موجود لوگوں سے ملاقات کو ترجیح دی‘‘... جی ہاں! اولین ترجیح اگلے جہاں میں موجود لوگوں یعنی انبیاء‘ صدیقین‘ شہداء‘ صالحین اور اللہ کے فرشتوں کے درمیان زندگی گزارنا ہے۔
مندرجہ بالا حقیقت کو قرآن نے کیسے منکشف فرمایا؟ وہ انتہائی حیران کن ہے۔ حضورؐ کی نبوت پر ایک معجزانہ دلیل و برہان ہے۔ عرب لوگ ایک تو اَن پڑھ تھے‘ دوسرا یہ کہ حساب یعنی ریاضی بالکل نہ جانتے تھے۔ جیسے بیسویں صدی کے وسط تک ہمارے دیہات کے لوگ 100 کی گنتی کو ''پانچ بیس‘‘ کہا کرتے تھے۔ اسی طرح ساڑھے چودہ سو سال قبل عرب کے لوگ پچاس کی گنتی کو ''پانچ دہائی‘‘ کہا کرتے تھے۔ حضورؐ نے خود اپنے دونوں مبارک ہاتھوں کو تین دفعہ صحابہ کے سامنے کر کے فرمایا کہ مہینہ اتنے کا بھی ہوتا ہے یعنی 30 دن کا اور پھر اپنے انگوٹھے مبارک کو دبا کر آگاہ کیا کہ کبھی 29 کا بھی ہوتا ہے اور اجتماعی طور پر عرب کلچر کا ذکر فرمایا کہ ہم لوگ یعنی اہلِ عرب حساب نہیں جانتے اور یوں حساب کرتے ہیں۔ لوگو! ایسے معاشرے میں حضرت محمد کریمؐ پر قرآن نازل ہوا۔ وہ ہزاروں صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ ہوا‘ اس لیے کہ حافظے کے اعتبار سے دنیا کی کوئی قوم عربوں کا مقابلہ نہ کرتی تھی۔ ہزاروں سینوں میں ایک ہی قرآن محفوظ تھا۔ سورتوں کی ترتیب یہی تھی جو آج موجود ہے۔ ہر سورت میں آیات وہی تھیں جو آج موجود ہیں‘ مگر سورتوں اور آیات کے نمبر نہ تھے۔ صحابہ‘ تابعین اور بعد کے ابتدائی زمانے میں علما حضرات آیات کے نمبر بول کر حوالے نہ دیتے تھے۔ بس سورت کا نام اور آیت تلاوت کیا کرتے تھے۔ نمبرز تو بعد میں ڈالے گئے۔ یعنی قدرتی اور فطری طور پر تو نمبر موجود تھے مگر تحریر میں بعد میں لائے گئے۔ جب یہ نمبر ڈال دیئے گئے‘ سورتوں اور آیات کی گنتی کے نمبر رقم کر دیئے گئے تو پھر صدیوں بعد آج کے دور میں ایک حقیقت کا انکشاف عالمِ اسلام کے معروف ریسرچرز یوں کرتے ہیں کہ قرآن کا لفظ ''نَتَوَفَّیَنَّکَ‘‘ تین بار آیا ہے۔ یعنی اللہ تعالی اپنے آخری اور محبوب رسولؐ کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ ہم آپؐ کو اپنے پاس بلانے والے ہیں۔ جی ہاں! تین بار آگاہ فرمایا تو حضورؐ کی مبارک زندگی کے تین ہی ادوار ہیں۔ حدیث‘ سیرت اور تاریخ کی تمام کتب میں اس حقیقت پر اتفاق ہے کہ حضورﷺکو 40 سال کی عمر میں نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا گیا۔ 13 سال آپﷺ نے مکہ میں دعوت کا کام کیا‘ہجرت فرمانے کے بعد دس سال مدینہ میں گزارے۔ جزیرۃ العرب میں اسلام نظریاتی اور سیاسی طور پر غالب ہو گیا اور یوں 63 سال میں آپؐ کی زندگی مبارک کے تین ادوار مکمل ہو گئے۔
اللہ اللہ! حضورؐ کی مبارک زندگی کے تینوں ادوار کو قرآن کی تین سورتوں میں ایک ہی لفظ کو تین بار لا کر ایک واضح اشارہ فرمایا گیا جس کا انکشاف آج ہو رہا ہے کہ ''نَتَوَفَّیَنَّکَ‘‘ کا لفظ قرآن کی سورۃ یونس میں آیا۔ سورۃ یونس دسویں سورت ہے۔ پھر یہی لفظ سورہ رعد میں آیا۔ یہ تیرہویں سورت ہے۔ پھر یہی لفظ سورہ مؤمن میں آیا یہ چالیسویں سورۃ ہے۔ یعنی ایک ہی لفظ پورے قرآن میں تین بار آتاہے۔ مخاطب بھی حضورؐ کی ذات ہے اور جن تین سورتوں میں آتا ہے ان کے نمبر شمار کو دیکھا جائے تو عمر مبارک 63 سال بنتی ہے۔ ایک ہی لفظ تین بار پھر تین الگ الگ سورتوں میں... کہ حضورؐ کی عمر مبارک کے تین الگ الگ دور ہیں۔ یعنی حضورؐ کی عمر مبارک ایک واضح اشارے کے ساتھ قرآن میں بتا دی گی مگر پہلے ادوار میں ریاضی کے اصولوں اور گنتی کا رواج نہ تھا۔ آج کمپیوٹر کی دنیا میں قرآن کے الفاظ اور حروف تک کی گنتی کر لی گئی ہے۔ اس گنتی نے بتا دیا کہ حضورؐ کی عمر مبارک قرآن کی سورتوں کے نمبر کے حوالے سے یوں بھی واضح ہوتی ہے۔ لوگو! حضورؐ کی 63 سالہ مبارک زندگی پیغام دیتی ہے۔ قرآن کی روشنی میں اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیبؐ کا کلمہ پڑھنے والوں کو ایک اشارے سے واضح کرتے ہیں کہ تمہاری صحت جس قدر بھی اچھی ہو‘ میرے پاس آنے کا ٹائم مقرر ہے لہٰذا مجھ سے ملاقات کو اپنی زندگی کی پہلی ترجیح بنائو... اور اس طرح بنائو کہ جس طرح میرے حبیب اور خلیلؐ نے بنایا اور تمہارے لیے قیامت تک کے لیے ایک نمونہ چھوڑا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا تفصیلی واقعہ سورۃ یوسف میں موجود ہے۔ حضورؐ فرماتے ہیں کہ وہ کریم ابن کریم ابن کریم اور ابنِ کریم تھے یعنی خود پیغمبر تھے‘ ان کے والد گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام پیغمبر تھے‘ ان کے دادا جان حضرت اسحاق علیہ السلام پیغمبر تھے‘ان کے پڑدادا ابراہیم علیہ السلام رسولوں کے باپ تھے۔ یعنی چار پشتیں پیغمبر تھیں۔ وہ خود مصائب اٹھانے کے بعد مصرکے وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے لیے نہ کبھی سوچا اور نہ خیال کیا۔ جدوجہد کا تصور محال ہے کہ وہ دیارِ غیر میں تھے‘ جہاں کے وہ نیشنل نہ تھے‘ پردیسی تھے اور پھر جیل میں بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں سے اٹھا کر تخت پر بٹھا دیا۔ مگر وزارتِ عظمیٰ کے تخت پر بیٹھنے کے باوجود انہوں نے اپنے ساتھ دشمنی کرنے والے بھائیوں کو معاف بھی کیا‘ عزت بھی دی اور روزگار کے ساتھ ساتھ رہائش بھی دی اور محبت کا رویہ بھی دیا۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ اولین ترجیح اللہ سے ملاقات تھی۔ حضورؐ پر نازل ہونے والا قرآن آگاہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اللہ سے یوں دعائیہ صورت میں گفتگو کرتے ہیں ''آپ دنیا میں بھی میرے دوست ہو‘ اگلے جہان میں بھی آپ ہی میرے دوست اور والی ہو‘ لہٰذا جب مجھے آپ اپنے پاس بلانے کا فیصلہ فرمائیں تو اسلام کی حالت میں مجھے طلب فرمائیں اور پھر وہاں (صالحین (انبیاء‘ صدیقین‘ شہداء اور صالحین) کے ساتھ (فردوس میں) ملا دیں‘‘ (القرآن)۔
لوگو! اللہ کے آخری رسولؐ کو دیکھو کہ جب منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھانے کے لیے جانے لگے تو حضرت عمرؓ نے حضورؐ کا دامن مبارک پکڑا اور پچھلی باتیں یاد کروانے لگے۔ وہ ایک ایک بات یاد کروا رہے تھے۔ کیا یہ وہی نہیں جس نے آپؐ کی محبوب زوجہ محترمہ اور مؤمنوں کی ماں حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی‘ کیا یہ وہی نہیں جو احد کے دن اپنے تین سو بندوں کو لے کر واپس چلا گیا‘ مقصد یہ تھا کہ اسلامی سپاہ میں بد دلی پھیلے‘ کیا یہ وہی نہیں جس نے آپؐ کی غیر موجودگی میں مسجد ضرار بنائی‘ کیا یہ وہی نہیں جس نے تبوک سے واپسی پر ایک درّے کے قریب آپؐ کو شہید کرنے کی کوشش کی‘ کیا یہ وہی نہیں جس نے اپنے آپ کو عزت دار کہا اور مہاجرین کو ذلیل ‘ کیا یہ وہی نہیں جس نے ... اور جس نے... یوں اور یوں کیا؟ حضرت عمرؓ کی باتیں ختم ہوئیں تو فرمایا: عمر! اب بس کہ کچھ اور بھی بات ہے؟ پھر مسکرائے اور فرمایا: چھوڑ! اب مجھے جانے دو کہ اس کو بخشوا کر جنت میں داخل کروائوں۔ قارئین کرام! صحاح ستّہ کی ایک صحیح حدیث کے واقعہ کو میں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا۔ صدقے قربان ایسے مجسمِ رحمت آقا و رسول گرامی پر کہ جنہوں نے مدینہ میں یہ کردار ادا کیا تو مکہ کو فتح کرتے ہی حضرت یوسف علیہ السلام کا حوالہ دے کر سب دشمنوں کو معاف کر دیا۔ سینوں میں نفرتوں کے سمندر کا بوجھ اٹھانے والو! موت کا وقت قریب ہے۔ حضورؐ کا اسوہ اپنا کر اگلی زندگی کو اولین ترجیح بنائو گے تو تبھی کردار کے گلاب رنگ و بو کے حسین مناظر بناتے دکھائی دیں گے۔ اللہ تعالیٰ اولین ترجیح کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں