اللہ تعالیٰ کی اس ادھیڑ عمر بندی کا نام Anthea Rowan ہے۔ اپنے بچوں اور خاوند کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے انسانیت کا درد رکھنے والی خاتون ہیں۔ وہ پوری دنیا میں انسانیت پر اس حوالے سے نظر رکھتی ہیں کہ وہ کن بیماریوں کا شکار ہیں۔ پھر اس کے بعد دنیا کے ماہر ترین ڈاکٹروں کے تجربات اور ماہرانہ آرا لے کر لکھتی ہیں۔ وہ امریکہ، افریقہ، یورپ اور ایشیا میں سفر کرتی رہتی ہیں۔ وہ سائنس، میڈیسن، مختلف بیماریوں، خاص طور پر دماغی امراض، جسمانی صحت، انسانی جسم اور کینسر وغیرہ کے بارے میں لکھتی رہتی ہیں۔ تازہ آرٹیکل انہوں نے دماغ کے بارے میں لکھا ہے۔ دنیا کے نامور ترین دو ڈاکٹرز سے انہوں نے ملاقات کی۔ پہلے ڈاکٹر مارون صبّاغ دوسرے ڈاکٹر پروفیسر لارنس وونگ ہیں جو ہانگ کانگ میں چائنا یونیورسٹی کے شعبہ نیورولوجی کے ہیڈ رہے ہیں۔
قارئین کرام! 12 جولائی 2020ء کی فجر کو میں نے خواب دیکھا کہ میرے نانا جان شیخ الحدیث حضرت مولانا تاج الدین رحمۃ اللہ نبی پور پیراں کی مسجد میں جھاڑو دے رہے ہیں۔ مسجد سے ملحقہ مدرسہ تاج کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی تھی۔ پیر سرور شاہ رحمۃ اللہ انتہائی نیک اور دیندار آدمی تھے۔ انہوں نے اس مدرسہ کی کفالت کا زیادہ تر بوجھ اٹھا رکھا تھا۔ چنانچہ یہاں سے بے شمار طلبا حصولِ تعلیم کے بعد فارغ ہوئے۔ عرض کر رہا تھا کہ حضرت مولانا تاج الدین رحمۃ اللہ مسجد میں جھاڑو دے رہے تھے تو میں ان کے ہمراہ تھا۔ آنکھ کھلی اور خواب پر غور کرتا رہا... بہر حال! بستر سے اٹھا، فجر کی اذان سے قبل نوافل ادا کیے۔ فجر کی اذان کے بعد نماز اور اذکار سے فارغ ہوا تو ریسرچ کرتے ہوئے مذکورہ خاتون کا مضمون پڑھنے لگ گیا۔ یہ تازہ ترین مضمون بھی بارہ جولائی کی صبح ہی کو شائع ہوا۔ یہ ٹائمز اِن لندن، واشنگٹن پوسٹ اور سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ میں شائع ہوا۔ قارئین کرام! میں متواتر تین دن تک دماغ سے متعلق ریسرچ کرتے ہوئے مطالعہ کرتا رہا، آئندہ بھی اس پر لکھتا رہوں گا (ان شاء اللہ) آئیے! اب تازہ معلومات کی روشنی میں اپنے دماغ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
1)سب سے پہلے ہمیں یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہیے کہ ایک انسان اپنی پوری زندگی میں اپنے دماغ کا بمشکل پانچ فیصد ہی استعمال کر پاتا ہے۔ یہ بات غیر سائنسی ہے۔ علمی حقیقت یہ ہے کہ ہم انسان اپنے پورے دماغ کو استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ بندہ جب سویا ہوا ہوتا ہے اور گہری نیند میں ہوتا ہے تو دماغ کو کافی زیادہ استعمال کرتا ہے۔ 2) اگر دماغ کو خون پہنچانے والی رگوں کو آغاز سے انتہا تک لمبا کیا جائے تو یہ فاصلہ ایک لاکھ ترانوے ہزار ایک سو اکیس کلو میٹر (193121) بن جائے گا۔ یاد رہے! یہ سفر چاند کا آدھا سفر ہے۔ 3) اس وقت جو مہنگا ترین موبائل فون ہے‘ وہ آئی فون ہے۔ اس کا گیارہ نمبر جدید ترین ماڈل، جس کی قیمت پاکستانی کرنسی میں 234500 تھی‘ وہ اب کم ہو کر دو لاکھ چھبیس ہزار پانچ سو ننانوے روپے ہے یعنی سوا دو لاکھ روپے کا یہ جو موبائل فون ہے، اس میں معلومات سٹور کرنے کی گنجائش صرف 512 گیگا بائیٹس ہے جبکہ انسانی دماغ میں معلومات سٹور کرنے کی جگہ پچیس لاکھ گیگا بائیٹس ہے... اب ہم اگر 500 گیگابائیٹس کے حامل موبائل فون کی قیمت دو لاکھ روپے لگا لیں تو اس حساب سے 25 لاکھ گیگا بائیٹس کے انسانی دماغ کی قیمت 52 کھرب 77 ارب 77 کروڑ 75 لاکھ روپے بنتی ہے۔ اگر اتنا بڑا سپر کمپیوٹر بنایا جائے تو وہ سینکڑوں ایکڑ زمین گھیرے گا۔ میں صدقے‘ قربان جائوں اپنے رب کریم اور عظیم خالق پر کہ اس نے انسانی دماغ میں کھربوں روپوں کا چھوٹا سا کمپیوٹر نصب کر دیا جسے سات ارب انسان اٹھائے زمین پر چل پھر رہے ہیں۔ قارئین کرام! میں سوچتا ہوں کہ جب مولا کریم دیکھتے ہوں گے کہ اس کا بندہ محض سوا دو لاکھ کا آئی فون ہاتھ میں تھامے بڑا فخر کر رہا ہے۔ امریکہ، روس، چین اور جاپان وغیرہ محض 200، 300 ، 500 یا ہزار کے قریب جی بی کے سپر کمپیوٹر بنا کر فخر کرتے ہیں۔ ان کی قیمت کئی ملین ڈالرز ہو جائے مگر انسانی دماغ کی ہی اختراع ہیں‘ محض کھلونے اور کھلونے ہی ہیں، تو اللہ تعالیٰ مسکراتے ہوں گے کہ انسانی حکمران بچّے، سائنسدان بچّے کھلونوں سے کھیل رہے ہیں اور جو میں نے ایک عظیم کھلونا ان کے دماغ میں رکھا ہے۔ اس کے اوپر کھوپڑی کا کور چڑھایا ہے۔ اسے میرے سامنے سجدہ ریز نہیں کرتا۔ میرا شکر ادا نہیں کرتا۔ حالانکہ میں اس سے پیسے نہیں مانگتا صرف اتنا تقاضا ہے کہ یہ میرا بنایا ہوا مہا سپر کمپیوٹر سجدے میں لے جائے اور کہے ''سبحانَ ربِّی الْاَعْلیٰ‘‘ میرا پالنہار تمام نقائص سے پاک کس قدر اعلیٰ ترین ہے۔
قارئین کرام! چوتھا نکتہ یہ ہے کہ دماغ پورے جسم کی بیس فیصد آکسیجن اور خون استعمال کرتا ہے جبکہ یہ سب سے زیادہ چربیلا (Fattiest) عضو ہے۔ یہ 73 فیصد پانی ہے۔ یعنی تین حصے پانی اور چوتھا حصہ چربیلا مادہ ہے۔ اس اڑھائی تین صد گرام پر مشتمل جیلی کو اتنا بڑا سپر کمپیوٹر بنا دیا کہ اس نے آگے موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وہ ترقی یافتہ مناظر بنائے ہیں کہ ''محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘‘ جی ہاں! یہ کمزور اس قدر ہے‘ بیچارہ یہ کمپیوٹر ضعیف اس قدر ہے کہ اس کا پانی اگر محض دو فیصد کم ہو جائے تو اس کی یادداشت اور توجہ کا ارتکاز متاثر ہونے لگ جاتا ہے۔ یہ دماغی پیغام رسانی کا فریضہ ادا کرتا ہے تو چونکہ انرجی سے بھرپور پیغام کو اٹھاتا ہے لہٰذا یہ جس چیز یعنی پانی سے بنا ہے اس کی کمی کو برداشت نہیں کر سکتا۔ زیادہ کمی ہو جائے تو موت سے دو چار بھی ہو سکتا ہے اور یہ مر جائے تو زندگی کی امید سو فیصد ختم ہو جاتی ہے اور واپسی کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
ڈاکٹر وونگ کہتے ہیں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جس طرح دیگر اعضا کمزور اور بیماری سے دو چار ہونا شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح دماغ کیShrinkage یعنی سکڑائو کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ نارمل روٹین سے بھی کمزوری کی جانب مائل ہوتا ہے اور سکڑنا بھی شروع ہو جاتا ہے۔ سکڑنے کا عمل سست بھی ہوتا ہے اور قدرے تیز بھی لیکن دماغی بیماریاں جیسے Demention اور الزائمر (Alzheimer) وغیرہ ہیں‘ یہ دماغ کو بہت زیادہ نقصان سے دو چار کر دینے والی بیماریاں ہیں۔ ان بیماریوں اور دیگر دماغی بیماریوں کا سبب حادثاتی خبریں، صدمے اور سب سے بڑھ کر ڈپریشن ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صبّاغ جو ایسی بیماریوں خصوصاً الزائمر کے سپیشلسٹ ڈاکٹر ہیں، کہتے ہیں کہ دماغی بیماریوں کی Affliction یعنی مصیبت، آفت، تکلیف اور غم کے خلاف جنگ جیتنے کا جو پُر امید سسٹم (Optimism) ہے وہ نئی Drugs یعنی سکون آور ادویات ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مزید کہتے ہیں کہ دماغ کی صحت کو جو چیز Boost کرتی ہے، یعنی اوپر لے کر جاتی ہے‘ زندگی کے تحفظ کی جنگ لڑتی ہے‘ وہ ایک سو دوائیوں کے مقابلے میں ایک دوا ہے اور وہ سب پر بھاری ہے اور وہ یہ ہے کہ ! Reduce your risk and keep your brain healthy یعنی اپنی غمناک سوچوں کو کم کرو اور دماغ کو صحت مند رکھو۔
ڈاکٹر صبّاغ، ڈاکٹر وونگ اور دیگر تمام دماغی ڈاکٹرز اس بات پر متفق ہیں کہ ڈپریشن اور پریشانیاں دماغ میں کوڑا کرکٹ پیدا کر دیتی ہیں۔ جس طرح دانتوں کی صفائی نہ کی جائے تو دانتوں پر پیلی سی میل جم جاتی ہے۔ پھر مسوڑھوں کی بیماری پیدا کرنے والے جرثومے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح موم طرز کا ایک نشاستہ Amyloid جو گوند (Sticky) کی طرز کا ہوتا ہے‘ دماغی نیورون کے گرد بننا شروع ہو جاتا ہے اور نیورون کے پیغام رسانی نظام کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے۔ ڈپریشن بند نہ ہو تو یہ مادہ نیورون کو قتل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کا علاج شروع میں آسان ہوتا ہے پھر مشکل ہوتا چلا جاتا ہے اور Drugs یعنی سکون آور ادویات کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
قارئین کرام! یہ ہے دماغ کا کوڑا، کچرا، گند اور غلاظت ، یہ پیدا ہوتا ہے اللہ پر پختہ یقین نہ ہونے سے۔ مرنے کے بعد آخرت کی زندگی پر ایمان نہ ہونے سے۔ یہ کوڑا پیدا ہوتا ہے حسد سے، بغض سے۔ ظلم سے اور کرپشن کے ذریعے لوگوں کا مال کھانے سے۔ برا گمان کر کے بے گناہوں پر چڑھ دوڑنے سے۔ جی ہاں! یہ صاف ہوگا تو مندرجہ بالا برائیوں سے باز آنے سے صاف ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے صاف ہوگا۔ موت کو یاد کرنے سے صاف ہوگا۔
عظیم مفسّر قرآن محترم حافظ صلاح الدین یوسف رحمۃ اللہ فوت ہو گئے۔ میں ان کے بیٹے حافظ عثمان یوسف کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ بتا رہے تھے کہ ابو جان کی طبیعت صرف دو دن خراب ہوئی، دوائی دی اور پھر وہ جو ہر وقت ذکر اذکار میں مصروف رہتے تھے‘ بستر پر دراز ہو گئے۔ میں نے اور میری امی نے کہا: اب ذرا طبیعت پُرسکون ہو گئی ہے‘ مگر جب کچھ منٹ کے بعد دیکھا تو وہ اسی طرح پُرسکون لیٹے تھے مگر اگلے جہان میں تھے۔ حافظ صاحب حلیم الطبع تھے۔ سب کا خیال کرتے تھے۔ جو جو انہیں دعا کا کہتا، اس کا نام رجسٹر میں لکھ لیتے اور راتوں کو اٹھ کر وہ نام پڑھ پڑھ کر رب کریم کے حضور دعائیں کرتے۔
اللہ اللہ! یہ ہیں وہ خوبیاں کہ اللہ کے ساتھ گہرا تعلق اور مخلوق کی بھلائی کے جذبے... یہ کوڑا کرکٹ پیدا نہیں ہونے دیتے۔ ہو جائے تو صفائی بھی اسی سے ہے۔ قارئین کرام! میرے نانا مولانا تاج الدین رحمۃ اللہ کے ہاتھ میں جو جھاڑو تھا ، وہ قلم بن کر آج میرے ہاتھ میں ہے۔ یہی حافظ صلاح الدین یوسف رحمۃ اللہ کے ہاتھ میں تھا۔ اصلاح کی صحافت کو ایسا جھاڑو مبارک ہو۔ دنیا کا سکون اور آخرت کی شادمانی اس جھاڑو کے بغیر نا ممکن ہے۔