اللہ تعالیٰ نے زمین کا جغرافیہ بنایا‘ وہ ٹکڑا جسے چین کہا جاتا ہے، اس کے شمال میں چینی منگولیا ہے اور اس سے اوپر منگولیا کا وہ ٹھنڈا ترین ملک ہے جسے منگولیا کہا جاتا ہے۔ چنگیز خان یہیں سے اٹھا تھا اور اس نے مختلف سلطنتوں کو تاراج کرنا شروع کیا۔ یہ مسلمان بادشاہتیں برباد ہوتی گئیں۔ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان تک یہ بربادی جاری رہی اور پھر ہلاکو خان کی اولاد مسلمان ہونا شروع ہو گئی تو ظہیر الدین بابر ہندوستان میں مغلیہ بادشاہت قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اللہ کی قدرت کا عظیم الشان نشان کہ کہاں منگولیا کی لامذہب بادشاہت اور کہاں ہندوستان میں مسلم بادشاہت جو مغلیہ سلطنت کہلائی۔ منگول سے مغل خاندان بن گیا... قارئین کرام! آج کل امریکہ اور چین کے مابین سرد جنگ عروج پر ہے۔ مگر علم کی دنیا ایک الگ جہان ہے۔ وہ لوگ جو علم کے پیاسے ہوتے ہیں وہ اپنے علم کی پیاس ہر اس جگہ سے بجھاتے ہیں جہاں علم کا سرچشمہ میسر آتا ہے۔ ایسی ہی ایک علمی شخصیت جن کا نام پروفیسر ڈاکٹر بورجن ہے‘ چین کے منگولین شہر Hohhot میں پیدا ہوئیں۔ بی ایس سی انہوں نے چین سے کی۔ بایو فزکس میں ماسٹر جاپان سے کیا۔ پھر امریکہ پہنچ گئیں اور جان ہاپکنز یونیورسٹی سے 1994ء میں انہوں نے نیورو یعنی دماغی سائنس میں پی ایچ ڈی کر لی۔ اس کے بعد انہوں نے واشنگٹن میں ایمبریالوجی کے شعبے میں اہم ترین پوزیشن پر کام کیا۔ مختلف ادوار میں خدمات انجام دینے کے بعد ایسا موقع میسر آیا کہ انہوں نے علمی طور پر آزادانہ کام کیا۔ 2009ء میں وہ ایسوسی ایٹ پروفیسر بن گئیں۔ آج کل وہ پروفیسر ڈاکٹر ہیں اور ان کا مقام یہ ہے کہ مشی گن یونیورسٹی کے دماغی شعبے کی جو عظیم ترین عالمی سطح کی لیبارٹری ہے‘ اسے ان کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے اور اسے ''جیمو بورجن لیبارٹری‘‘ کہا جاتا ہے۔ محترمہ جیمو بورجن دماغ سے متعلق Neurologyمالیکیولز اور انٹرگریٹیو فزیالوجی کی ماہر سائنس دان ہیں۔
ڈاکٹر جیموبورجن کی دماغ سے متعلق جو ریسرچ سامنے آئی ہے۔ اس میں ایسے ریسرچرز بھی شامل ہیں جن کا پس منظر انجینئرنگ سے متعلق ہے۔ باقی جو ماہرین ہیں وہ نیوروسائنس ، فزیالوجی، کارڈیالوجی، کیمسٹری اور فارما کالوجی سے متعلق اعلیٰ ترین سائنسدان ہیں۔ ان کی ریسرچ کا عنوان کچھ یوں ہے۔
Near death brain signaling accelerates demise of the heart .
یعنی دل کا خاتمہ ہو رہا ہوتا ہے اور خود دماغ جو موت کے قریب ہوتا ہے‘ اس میں پیغام انتہائی تیز ہوتا ہے۔ اس قدر تیز کہ دماغ میں Activity یعنی دماغی سرگرمی کا ایک طوفان ابھر رہا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ مزید کہتی ہیں کہ !
"Despite the loss of consciousness and absence of signs of life, internally the brain exhibits sustained, organized activity and increased communication with the heart."
'' (حیرت انگیز بات یہ ہے کہ )شعور کے مفقود ہونے کے باوجود اور زندگی کے نشانات کی غیر حاضری کے باوجود دماغ کا جو اندرونی نظام ہے وہ اپنی پائیداری کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنی سرگرمی کو منظم کر رہا ہوتا ہے اور دل کے ساتھ پیغام رسانی کو بڑھا رہا ہوتا ہے‘‘
قارئین کرام! ڈاکٹر صاحبہ مزید کہتی ہیں کہ امریکہ کے چالیس لاکھ لوگ کہ جو دل کے دورے سے فوت ہوئے‘ ان پر تجربے نے یہی ثابت کیا جو مندرجہ بالا حقیقت ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ دل کو دھڑکنے اور دوبارہ پمپنگ کا کہا جاتا ہے مگر دوسری جانب صورتحال یہ ہوتی ہے کہ دماغ کی سرگرمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ شعور کا کہیں رابطہ ہو رہا ہے مگر وہ رابطہ کس سے ہو رہا ہے۔ یہ معلوم کرنا ناممکن ہے۔ دماغی ریسرچر مزید کہتے ہیں کہ یقینی امکان یہی دکھائی دیتا ہے کہ حقیقت کی ایک اور لہر ہے جس کو ہم ابھی تک دریافت نہیں کر سکے کہ ہم دماغ کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ اس سے Beyond یعنی ماورا ہے۔
قارئین کرام! جو لوگ کسی بیماری کی وجہ سے بیہوشی میں چلے جاتے ہیں، جبکہ ابھی مکمل دماغی موت سے دو چار نہیں ہوتے تو بعض لوگ اگلے جہان کے بعض مناظر بیان کرتے ہیں، ان کو سائنس کی زبان میں ''نیئر ڈیتھ ایکسپیرینس‘‘ کہتے ہیں۔ ڈاکٹر بورجن ایسے لوگوں اور تجربات کے بارے میں اپنی ریسرچ بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ تجربات درست ہیں اور یہ کہ ! "Perhaps even spoke with God" ممکن ہے ان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ بات ہوتی ہو۔۔۔۔ اللہ اللہ! ڈاکٹر بورجن کہ جن کا کوئی مذہب نہیں{ اسلام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ فکرِ آخرت کا کوئی تصوّر نہیں۔ ان کی سائنسی ریسرچ ببانک دہل اعلان کر رہی ہے کہ دل بند، نبض بند، سانس بند، جسم کی حرکت بند مگر دماغ پہلے سے زیادہ اور کہیں زیادہ سرگرم۔۔۔۔ لوگو! اب تو مان لو کہ فرشتے ہیں جو لینے آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس منظر کے بارے میں فرماتے ہیں ''(جو تم کہتے ہو کہ اگلی زندگی کچھ نہیں) ایسا ہرگز نہیں۔ جب روح ہنسلی کی ہڈی تک پہنچ جاتی ہے تو (اوپر کھڑے عزیز و اقارب اور ڈاکٹرز کی جانب سے) کہا جاتا ہے۔ کون دَم کرے گا؟ (کہ یہ بچ جائے، جبکہ مرنے والا ) یقین کر رہا ہوتا ہے کہ وہ جدائی اختیار کرنے والا ہے۔ (سورۃ القیامۃ)
اللہ تعالیٰ اس منظر کے بارے میں مزید فرماتے ہیں۔ ''وہ لوگ کہ جو اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں انہیں جب فرشتے اپنے قبضے میں لے رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنی فرمانبرداری پیش کرتے ہیں (اور جھوٹ بولتے ہوئے کہتے ہیں کہ )ہم تو بدعملیاں نہیں کیا کرتے تھے۔ اب بھی غلط بیانی؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ خوب جانتا ہے جو تم کیا کرتے تھے۔ (النحل:28)
معروف میگزین Live Science میں حال ہی میں مضمون شائع ہوا ہے۔ گرانٹ (Grant Currin) نے لکھا ہے۔ شعور کیا ہے؟ اور پھر سائنسدانوں ، ریسرچرز اور سکالرز کی باتوں کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے لامحدود ٹائم اور سیاہی سے کتابوں کو لکھ لکھ کر الماریاں بھر دیں مگر یہ معلوم نہ کر سکے کہ شعور کیسے کام کرتا ہے اور کہاں رہتا ہے۔۔۔۔۔ فرانس کے فلاسفر اور ریاضی دان کو گہری ریسرچ اور مطالعہ کے بعد کہنا پڑا ''مائنڈ یا Soul یعنی روح اور جسم دو الگ چیزیں ہیں۔ مندرجہ بالا حقیقی بات کا اعتراف کرنے والے ریاضی دان کا نام Rene Descartes ہے۔
برطانیہ کی کولمبیا یونیورسٹی کے ملحد سائنسدانوں نے دیگر سائنسدانوں کو رابطے میں لے کر 30 سال ریسرچ کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جو شخص ایک خالق پر ایمان رکھتا ہے وہ مطمئن رہتا ہے۔ ایمان ہمارے جسم کی گہرائی میں موجود ہے۔ ایک خالق پر ایمان رکھنے والا آدمی نرم دل ہوتا ہے۔ سوشل لائف رکھتا ہے۔ ڈیلی ٹیلیگراف نے ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ انسانی خلیات میں خالق کے ساتھ ایمان کو نتھی کر دیا گیا ہے۔ ڈی این اے جو انسان کے وراثتی نظام کو محفوظ رکھنے کا ذمہ دار ہے‘ اس میں خالق کے ساتھ ایمان کی موجودگی اب بایولوجیکل سائنس کی حقیقت ہے۔ لوگو! سائنسدان ڈاکٹرز نے ساڑھے آٹھ سو انسانوں پر نفسیاتی ریسرچ اور ساڑھے تین سو پر بدنی ریسرچ کے بعد فیصلہ دیا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے سے انسانی صحت درست رہتی ہے۔ سٹیفن کرینی جیسا سائنس دان اعتراف کرتا ہے کہ ایمان سے سکون ملتا ہے۔ پنسلوینیا یونیورسٹی کے سائنسدان کہنے لگے کہ اس قدر لمبی ریسرچ کا مندرجہ بالا رزلٹ آئے گا‘ ہمیں توقع نہ تھی۔ باقی یہ طے ہو گیا ہے کہ جو لوگ اپنے خالق کے بارے میں شک کا شکار ہیں وہ زندگی میں اچھی صحت اور دماغی قرار اور سکون سے محروم رہتے ہیں۔
قارئین کرام! موجودہ دور سائنسی دور ہے۔ میں محنت کر کے اس لیے جدید ریسرچ لاتا ہوں تا کہ جب دل بند ہو اور دماغ میں ہلچل ہو تو وہ ہلچل ایمان کے نور سے منوّر ہو۔ اعمال ایسے مبارک ہوں کہ فرشتوں کو دیکھتے ہی خوشی خوشی اگلے جہاں کو روانہ ہوں۔