اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ پر نازل فرمائی تو اس کی پہلی سورۃ ''الفاتحہ ‘‘ قرار پائی، مولا کریم نے اپنے حبیبﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم نے آپ کو ''سبْعاً مِّنَ الْمَثَانِی‘‘ اور عظیم قرآن عطا فرمایا ہے تو صحابہ کرام اور مفسرین نے ''مثانی‘‘ سے مراد وہ سات آیات لیں جو سورہ فاتحہ کی ہیں۔ انہیں ہر نماز کی ہر رکعت میں تلاوت کیا جاتا ہے۔ دعا مانگتے ہوئے بھی عموماً آغاز اسی سے کیا جاتا ہے۔ پھر جو قرآن عظیم کا ذکر فرمایا تو اس میں بھی ایک ایک واقعہ مختلف اسالیب کے ساتھ کئی کئی بار دہرایا گیا ہے۔ جنت اور جہنم کے تذکروں کو بھی مختلف مگر باکمال انداز سے متعدد بار دہرایا گیا ہے۔ حضور اکرمﷺ کی بھی عادتِ مبارکہ تھی کہ بعض انتہائی اہم ارشادات کو دو‘ دو بار اور تین‘ تین بار دہرایا کرتے تھے اور بعض کا دہرانا چار بار بھی آیا ہے۔ صبح و شام کے اذکار کی دہرائی تین، سات اور دس بار بھی آئی ہے۔ ہر نماز کے بعد ''سبحان اللہ‘‘ 33 بار ''الحمدللہ‘‘ 33 بار اور ''اللہ اکبر‘‘ 34 بار دہرانے کا حکم ہے۔ اس کے بعد ''آیت الکرسی‘‘ کی تلاوت ہے۔ حضور کریمﷺ کے فرمان کے مطابق 'جس نے ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لی‘ جنت میں جانے کے لئے اس کے سامنے صرف ایک ہی رکاوٹ ہے اور وہ موت ہے‘‘۔ قارئین کرام ! آئیے۔ اب دیکھتے ہیں کہ جدید میڈیکل سائنس کیا کہتی ہے اور پھر اس کی روشنی میں پاکستان کے نئے نقشے اور کشمیر کی بات کریں گے۔
جرمنی کا ایک علاقہ ہے‘ اس کا نام بوکم (Bochum) ہے۔ اس کے پہاڑی علاقے روہر (RUHR) میں ایک یونیورسٹی قائم کی گئی۔ 1945ء کی جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی میں 1962ء میں یہ پہلی عوامی یونیورسٹی قائم ہوئی۔ اسے روہر یونیورسٹی بوکم (R.U.B) کہا جاتا ہے۔ اس یونیورسٹی میں دماغ سے متعلق میڈیکل ریسرچ کا ایک بہت بڑا ادارہ بھی قائم کیا گیا۔ اس میں دیگر جدید ترین مشینوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی ایک جدید ترین مشین بھی رکھی گئی ہے جس کا نام Electroencephalography ہے۔ اس مشین کے ذریعے سائنسدانوں نے انسانی دماغ کا تجزیہ کیا تو انہوں نے اس بات کو ریکارڈ کیا کہ دماغ کی سرگرمیوں کے جو علاقے ہیں‘ وہ کسی عمل کی تدبیر کے ساتھ منسلک ہیں چنانچہ سائنسدانوں کی ٹیم نے رپورٹ کیا کہ انسانی نیورو سائنس کی سرحدوں میں انہوں نے جو کچھ دیکھا‘ وہ یہ ہے کہ Learning Through Repetition یعنی سیکھنے کا عمل دہرائی کے ذریعے اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا ریسرچ 21 جولائی 2020ء کو سامنے آئی یعنی تازہ ترین تحقیق ہے۔ ویسے میں یہ عرض کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہر بچہ ایک زندہ مشین ہے‘ جو ہمارے تجربے میں ہے کہ کسی بھی زبان کے بار بار بولے جانے والے الفاظ اور جملے ہر بچہ اپنے کان سے سنتا ہے اور اس پر ردعمل کے مظاہر یا نظارے کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہتا ہے۔ یہ دہرائی جاری رہتی ہے اور پھر بچہ بولنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے۔ ساری زندگی انسان اسی فطرت پر قائم رہتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ پر نازل ہونے والے قرآن کا انداز بھی یہی ہے اور حضور کریمﷺ کے فرمان کا طریق کار بھی یہی ہے۔ اللہ اللہ! جس اللہ نے انسان کو بنایا ہے، کائنات کو خلق کیا ہے‘ اسی اللہ نے انسان کی یہ فطرت بنائی ہے اور اسی نے انسانی فطرت کے عین مطابق قرآن کا اسلوب اختیار فرمایا ہے اور اسی اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کی زبان مبارک سے جو ارشاد کروایا ہے‘ عین انسانی فطرت کے مطابق اسے اعزاز بخشا ہے۔ جی ہاں! ''سورۃ الرحمن‘‘ کی ابتدائی پانچ آیات میں ان حقائق کو یوں بیان فرمایا گیا ہے (1)رحمن نے (2)قرآن کی تعلیم دی (3)اسی نے انسان کو بنایا (4)اسی نے انسان کو بیان کرنا سکھایا (5)سورج اور چاند ایک حساب سے چل رہے ہیں۔
روہر یونیورسٹی کے سائنسدان مزید کہتے ہیں کہ روز مرہ کی زندگی میں لوگ پریکٹس اور دہرائی کے ذریعے ہی سیکھتے ہیں۔ اس سارے عمل کے لئے دماغ ایک ٹائم لیتا ہے۔ اس پراسیس کو Neuroplasticity کہا جاتا ہے۔
جدید میڈیکل سائنس کی تحقیق اور کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے تاریخی اور موجودہ کردار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم جائزہ لیں تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم حق اور سچ پر ہو کر بھی اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے صحیح معنوں میں پیش نہیں کر سکے جبکہ انڈیا نے جھوٹ اور ظلم پر ہوتے ہوئے بھی اپنی گیم خوب کھیلی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ کانگریس کا منافقانہ رویہ ختم ہوا اور نریندر مودی جیسا گجراتی دہشت گرد انڈیا کا وزیراعظم بن گیا۔ اہل کشمیر پر اس کے ایک سال کے ظلم نے اسے دنیا کے سامنے انتہائی سفاک اور ظالم کے روپ میں کھڑا کر دیا ہے۔ گزشتہ برس یو این میں وزیراعظم پاکستان محترم عمران خان کی تقریر تاریخی اور جاندار تھی۔ اب جو انہوں نے مقبوضہ کشمیر، جموں اور سر کریک کو پاکستان کے نقشے میں شامل کر کے خود نئے نقشے کا اعلان کیا ہے اورساتھ ہی کشمیرہائی وے کا نام بدل کر ''سری نگر ہائی وے‘‘ رکھ دیا ہے‘ یہ بھی بہت بڑا پیغام اور ایک تاریخی کردار ہے۔ سری نگر کی خوبصورت اور عالمی پہچان ''ڈل جھیل‘‘ ہے۔ اسی سے دریائے نیلم نکلتا ہے۔ یہ وادی نیلم سے ہوتا ہوا مظفر آباد آتا ہے۔ دریا کے ساتھ ساتھ سٹرک بھی مظفر آباد آتی ہے۔ دریا کا پانی تو ہر لمحے کشمیر کے پیغام مظفر آباد لاتا ہے‘ بس سڑک کا راستہ بند ہے۔ اب یہ دریا آگے بڑھتا ہے‘ مری کے قریب کوہالہ سے گزرتا ہے۔ پنڈی سے اسلام آباد اور کوہالہ تک کشمیر ہائی وے کو آگے بڑھ کر سری نگر جانا ہے۔ یہ ہے پنڈی اور اسلام کا پیغام تمام دنیا کے نام۔
مجھے ایک اور خوشی ہو رہی ہے کہ محترم وزیراعظم پاکستان کا مزاج کافی بدلا ہوا لگتا ہے۔کم بولتے ہیں اور قدرے دھیما پن بھی آ گیا ہے۔ پنڈی اور اسلام آباد جڑواں شہر ہیں یعنی ایک صفحے پر ہیں۔ کشمیر ہائی وے بھی ایک صفحہ پر ہے۔ پاکستان کا نیا نقشہ بھی ایک صفحہ پر ہے۔ حسینہ واجد کو وزیراعظم جناب عمران خان کا فون بھی ایک صفحہ پر ہے۔ نیپال نے بھی اپنا نیا نقشہ دنیا کے کے سامنے پیش کیا ہے۔ بھوٹان کی مکئی کے بھٹے بھی گوادر کی گرمی میں بھنے جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ لداخ کی جانب پاکستان کے نئے نقشے کو کھلا چھوڑا گیا ہے۔ پیغام یہی ہے ہر جانب سے کہ اے تمام پڑوسیوں کے ظالم دشمن! امن سے پیچھے ہٹ جا‘ چین ذرا سے فاصلے پر ہے۔ ہم سب کو یہاں مل کر ذرا جپھیاں ڈالنے کا موقع تو ملے‘ سب کا صفحہ ذرا ایک ہو جائے... جنرل ضیاء الحق مرحوم سارک کے تحت سب کو ایک صفحہ پر لانے کی کوشش کرتے رہے۔ تب کانگریس ہوا کرتی تھی اس لئے کچھ کامیاب رہے۔ اب بھارتیہ جنتا پارٹی ہے‘ بھارت کا وزیراعظم انتہائی سفاک ہے اور اپنے ہی ملک کی اقلیتوں کے لئے عذاب بنا ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اب بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم جو بھی کر رہے ہیں‘ جنگ کے لئے نہیں بلکہ سارے مسائل امن کے ساتھ حل کرنے کی خاطر کر رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ انتہائی دانشورانہ انداز ہے۔ پنڈی اور اسلام کے ایک صفحہ کا یہ انداز انتہائی خوبصورت اور عالیشان ہے۔اسلام آباد میں تشریف فرما عمران خان کو بھی مبارکباد، پنڈی میں تشریف فرما جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی مبارکباد۔ اگلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ اپنے موقف کی اک مدلل اور پُرامن یلغار دنیا کے ہر نگر‘ ہر بستی اور ہر بازار میں ہو کہ انسانی دماغ کسی چیز کو Learn کرتا ہے تو پیہم، مسلسل اور متواتر بولے جانے سے۔ بولئے، لکھئے... جی ہاں! کشمیر کے نئے نقشے کے ساتھ، نہرو کے وعدوں کے ساتھ، یو این کی قراردادوں کے ساتھ، حق خودارادیت کی دلیلوں کے ساتھ، پاکستان کے ساتھ ملی ہوئی کشمیر کی زمینوں کے ساتھ، چناروں اور جھیلوں کی وادی میں آباد مسلم اکثریتوں کے ساتھ، 73 سالوں کے بعد مودی کے ایک سالہ لاک ڈائون کے مظالم کے ساتھ، پیلٹ گن سے پھوٹی آنکھوں کی اندھیری راتوں کے ساتھ، محترم شاہ محمود قریشی کی وزراتِ خارجہ کے تمام ڈیسکوں کے ساتھ، دانشوروں‘ لکھاریوں‘ سیاست دانوں‘ بلاروں اور سب یاروں کے ساتھ تاکہ سری نگر کی مسافت کم وقت میں طے ہو۔ نئے نقشے کے ساتھ پاکستان زندہ باد!