اللہ تعالیٰ کا شکر... کہ جس نے 27 رمضان المبارک اور جمعۃ المبارک کو ہمیں پاکستان کا تحفہ دیا۔ آج 14 اگست اور جمعۃ المبارک ہے۔ 1947ء سے 2020ء تک‘ ہم پہلے بھارت کے حکمرانوں کی برداشت کا جائزہ لیں گے اور پھر پاکستان کے حکمرانوں کے حلم و حوصلے کی بات کریں گے۔ نئے پاکستان کے حکمران پسند فرمائیں تو میرے نام کے بغیر‘ میرے وطن عزیز کی جانب سے یہ تقابل دنیا کے ہر فیصلہ ساز اور صاحبِ درد اور صاحبِ انصاف کے سامنے رکھیں تا کہ دونوں چہروں کے سفید اور سیاہ رنگ واضح ہو جائیں۔ قارئین کرام! آئیے! جائزے کا آغاز نیپال سے کرتے ہیں۔ اس ملک کی شمالی سرحد چین سے لگتی ہے جبکہ جنوبی سرحد بھارت سے لگتی ہے۔ دنیا کا صرف ایک ہی ملک مذہبی طور پر ہندو ریاستی ملک ہے اور وہ نیپال ہے۔ چین کے ساتھ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سرحد تبت کا علاقہ ہے جو انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔ سردیوں میں درجہ حرارت منفی بیس پچیس درجے تک چلا جاتا ہے۔ کئی کئی فٹ برف جم جاتی ہے۔ لہٰذا اونچائی میں جا کر چین سے ضرورتیں پوری کرنا تقریباًنا ممکن تھا۔ انڈیا نشیب میں ہے لہٰذا تعلق اسی سے بنتا ہے۔ تعلق کی وجہ مذہبی بھی ہے۔ بھارت اگرچہ ہندو اکثریت کا ملک ہے لیکن اپنے آئین کے اعتبار سے سیکولر ہے۔ مذہبی طور پر بہر حال یہ دونوں ملک ہندو اکثریتی ملک ہیں۔ زبان کے اعتبار سے بھی کافی مماثلت ہے، یوں نیپال‘ جو ''لینڈ لاک‘‘ ہے یعنی اس کو سمندر نہیں لگتا‘ اپنی ضروریات بھارت سے اور اسی کی بندرگاہ کو استعمال کر کے پوری کرتا رہا ہے۔ ہندومت کے لحاظ سے بھارت ایسا ملک ہے جو دنیا میں اکیلا ملک ہے۔ نہ اس کا کوئی بھائی ہے اور نہ بہن۔ ہاں! بڑا بھائی تو کوئی نہیں مگر ایک چھوٹا بھائی ہے اور وہ اتنا چھوٹاہے کہ جسامت کے اعتبار سے کوئی پچیس گنا چھوٹا ہے۔ مسکین اس قدر ہے کہ اس کے صحن میں پانی کا ہینڈ پمپ یعنی کوئی سمندر بھی نہیں ہے۔ انڈیا نے ایسے بھائی کے ساتھ شفقت کے بجائے اسے غلام سمجھنا شروع کر دیا۔ نیپال کے بادشاہ بریندرا نے پاکستان کے صدر ضیاء الحق سے بات کی۔ انہوں نے بھارت کو راضی کر کے علاقائی ملکوں کی ایک تنظیم ''سارک‘‘ کے نام سے بنائی۔ بھارت کو اس پر تکلیف ہونے لگی کہ نیپال، سری لنکا، بھوٹان اور مالدیپ جیسی چھوٹی چھوٹی اور ننھی منی ریاستوں کے سربراہ بھی برابر آ گئے ہیں لہٰذا ضیا ء الحق جیسی دبنگ شخصیت کے بعد انڈیا نے سارک کو بھی ناکامی کے سٹور میں پھینک دیا۔ شاہ بریندرا نے کوششیں شروع کیں تو انہیں پورے شاہی خاندان سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ نیپال جو ہندو ریاست ہے‘ وہاں مسلمانوں، بدھوں اور عیسائیوں یعنی سب کے ساتھ اچھا سلوک اور انسانی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس انڈیا جو ایک سیکولر ریاست ہے‘ وہاں مودی نے ہندوتوا کے تحت غیر ہندو لوگوں کا ناطقہ بند کر دیا ہے۔ نیپال میں یہ حال ہے کہ سارک ملکوں کا کوئی شہری نیپال چلا جائے‘ خاص طور پر پاکستان کا تو انڈیا کی ''را‘‘ وہاں کی حکمران بن کر جس کے ساتھ جو چاہے سلوک کرتی ہے۔ نیپال اس مداخلت سے پریشان تھا۔ اس نے کچھ پریشانیوں کا اظہار کیا تو 2015ء میں نیپال پر انڈیا کے راستے بند کر دیے گئے۔ نیپال اپنی معاشی بدحالی سے بلبلا اٹھا۔ اس کے جھکنے سے راستے تو کھل گئے مگر اس کا متبادل ایک ہی تھا اور وہ چین تھا؛ چنانچہ پانچ سال دونوں ملک تیاریاں کرتے رہے اور آج صورتحال کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ نیپال‘ تبت سے ہوتا ہوا کاشغر کے راستے سے گوادر کی بندرگاہ سے فائدہ اٹھائے گا۔ انڈیا پر انحصار پہلے ہی کافی کم ہو چکا ہے۔ مزید ختم ہو جائے گا۔ اب نیپال کے وہ علاقے‘ جن کو انڈیا غصب کر کے بیٹھا تھا، نیپال نے انہیں اپنے نقشے میں شامل کر کے نیا نقشہ بنا کر اپنی اسمبلی سے پاس کروا کے دنیا بھر میں جاری کر دیا ہے۔ نیپال کی جانب سے تین علاقوں؛ لمپیادھورا (Limpiyadhura)، لیپولیکھ (Lipulekh) اور کالاپانی کو اپنے نقشے میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں نیپال، چین اور انڈیا کی سرحدیں ملتی ہیں۔
میں 1975ء میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ہائی سکول کی لائبریری میں اخبارات کا مطالعہ کرنا میری عادت تھی۔ انہی دنوں میں نے خبر پڑھی کہ انڈیا نے سکّم کی ریاست کو انڈیا میں شامل کر لیا ہے۔ وہاں کے بادشاہ جس کو چوگیال کہا جاتا تھا ‘کی بادشاہت کو ختم کر دیا گیا۔ گزشتہ چار صدیوں سے یہاں بادشاہت چلی آ رہی تھی۔ تاجِ برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو انگریزوں نے بھی اس بادشاہت کو کچھ نہیں کہا۔ انڈیا نے پہلے زور دے کر وہاں ایک جمہوری مجلس بنوائی جس میں اپنے بندے شامل کرائے۔ پھر وہاں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بادشاہ کی رہائش گاہ کا محاصرہ کروایا اور پھر مجلس ہی کے چند درجن نمائندوں کا الیکشن کروا کر اعلان کر دیا کہ اکثریت نے فیصلہ دے دیا، ہم بھارت کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ یوں ''پالڈن تھونڈپ‘‘ کو فارغ کر دیا گیا۔ جی ہاں! سکّم میں جعلی اور چند لوگوں کی رائے شماری کا فراڈ... اور مقبوضہ کشمیر آج تک محروم۔یہ ہے دہرے اور ظالمانہ معیار کی انتہا۔ تیسرا ملک بھوٹان ہے۔ یہ بھی بودھ اور تبتی علاقے سے متعلق ہے۔ انڈیا نے اس کے تحفظ کے نام پر وہاں اپنی فوج رکھی ہوئی ہے۔ بھوٹان بھی انڈیا سے تنگ ہے۔ اب رجحان چین کی طرف ہو گیا ہے، دیکھیے یہ کمزور اور ننھا سا ملک کب انڈیا کو آنکھیں دکھا کر کہتا ہے کہ میرے ملک سے نکل جائو۔اب چلتے ہیں شمال سے جنوب کی جانب، اِدھر بحر ہند میں دو جزیرے ہیں۔ بڑا جزیرہ سری لنکا ہے۔ میں سونامی کے دنوں میں یہاں جا چکا ہوں اور پاکستان کے لیے یہاں کے لوگوں کی محبتوں کا نظارہ بھی کر چکا ہوں۔ یہ بودھ مت ہیں اور انتہائی پُرامن لوگ ہیں۔ زیادہ تعداد سنہالیوں کی ہے۔ دوسرے نمبر پر تامل ہیں۔ بھارت کا صوبہ تامل ناڈو اس کے قریب ہے۔ انڈیا نے تامل لوگوں کو زبان کے نام پر علیحدگی پر ابھارا۔ یہاں کے لوگوں کو کشتیوں کے ذریعے تامل ناڈو لا کر دہشت گردی کی تربیت دی اور پھر انہیں واپس بھیج کر سری لنکا میں دہشت گردی شروع کرا دی۔ قریب تھا کہ سری لنکا ٹوٹ جاتا‘ ایسے موقع پر پاکستان نے اس کی ہر طرح سے مدد کی اور دہشت گردی کو کچل کے رکھ دیا۔ سری لنکا کے بعد میں مالدیپ گیا۔ مسلمانوں کا یہ ملک کئی خوبصورت چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے۔ حکمران بھارت سے ڈرے سہمے رہتے تھے؛ تاہم اب حوصلے میں ہیں۔ انڈیا کے شمال میں بنگلادیش ہے۔ کوئی ستائیس سال پہلے میں یہاں بھی گیا تھا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ محترمہ حسینہ واجد سے ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب نے 15 منٹ فون پر بات کی۔ چین وہاں انویسٹمنٹ کر رہا ہے۔ بھارتی سفیر نے ڈھاکا میں چار بار حسینہ واجد سے ملنے کی درخواست کی‘ چاروں بار ردّ ہو گئی۔ انڈیا نے بنگلادیش کو بھی باجگزار ریاست سمجھ لیا تھا۔ یہ وہاں بھی رسوا ہوا۔ جتنا علاقہ آزاد کشمیر کا ہے‘ اس سے زیادہ اپنا علاقہ چین نے انڈیا سے واپس لے لیا ہے۔ اور اب انڈیا وہاں اپنی فوج کو پھنسا بیٹھا ہے جہاں منفی چالیس ڈگری کا موسم ہے۔ سیاچن کا راستہ چین کی زد میں ہے۔ اب انڈیا سیاچن میں بھی پریشان ہوگا۔ یعنی انڈیا چاروں طرف سے گھر چکا ہے۔ مگر اسے پڑوسیوں نے نہیں اس کے تکبر نے گھیرا ہے۔ کمزوروں کی توہین نے گھیرا ہے۔ ہمسایوں کے ساتھ برے رویے اور چھچھورے پن نے گھیرا ہے۔ سوچ کی تنگی نے گھیرا تنگ کیا ہے۔
آج ہم اہل پاکستان اپنے حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ بانیٔ پاکستان کی سوچ کو سلام پیش کرتے ہیں کہ نہرو، پٹیل اور گاندھی نے پاکستان کی قیمت پر قائداعظم کو متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی تو انہوں نے فرمایا: میری زندگی کے بعد کسی مسلمان کو کون وزیراعظم بنائے گا۔ یعنی مسلمانوں کو محکوم بنا جائوں اور خود چند دن کی وزارت عظمیٰ لے لوں؟ انہوں نے سختی کے ساتھ یہ آفر مسترد کر دی۔ میں نے قائد ِ محترم کی بات کو اپنے مفہوم میں بیان کیا ہے۔ ہاں! انہوں نے فرمایا: خواہش ہے کہ ہم اس طرح رہیں کہ جیسے امریکہ اور کینیڈا رہتے ہیں، اس سے دونوں ملک خوشحال ہو جائیں گے۔ قائد کی اس بات کا جواب یوں آیا کہ بھارت نے پاکستان کے حصے کی رقم بھی روک لی۔ فسادات شروع کر کے لاکھوں مسلمان شہید کر دیے، کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ مسلمان اکثریتی ریاست پر یہ کہہ کر قبضہ کر لیا کہ راجہ ہندو ہے۔ جوناگڑھ اور مناوادر پر یہ کہہ کر قبضہ کر لیا کہ ان ریاستوں کے نوابین نے بے شک پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا ہے مگر ہم نہیں مانتے کیونکہ وہاں کے عوام‘ جو اکثریت میں ہیں‘ ہندو ہیں۔ حیدرآباد ریاست پر اس لیے قبضہ کر لیا کہ یہ ریاست ہندو اکثریت بھی ہے اور ملک کے وسط میں بھی ہے۔ حکمران مسلمان ہے تو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان صبر کر گیا کہ تینوں ریاستوں کا جغرافیہ ہمارے ساتھ نہیں ملتا تھا۔ اکثریت آبادی بھی ہندو تھی مگر کشمیر تو ہمارا بنتا ہے اور جغرافیائی، مذہبی، دریائی، زبان اور ہر لحاظ سے جموں کشمیر ہمارا ہے مگر انڈیا نہیں مانتا... تو اب پاکستان نے اپنے نقشے میں جوناگڑھ اور مناوادر کو بھی شامل کر لیا ہے۔ لیاقت نہرو پیکٹ کی رو سے ہندوستان میں مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان حوصلے کے ساتھ یہ کام کر رہا ہے۔ انڈیا آئے روز کنٹرول لائن پر فائرنگ کر کے سول آبادی کو نشانہ بناتا ہے، پاکستان نے ایسا کبھی نہیں کیا اور صبر سے کام لیا۔ دنیا کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کلبھوشن جو انڈین کمانڈر ہے‘ بلوچستان میں دہشت گردی کے ثبوتوں کے ساتھ پکڑا گیا۔ عالمی عدالت انصاف نے بھی اسے دہشت گرد قرار دیا۔ پاکستان نے حوصلے اور صبر کے ساتھ اسے تمام ممکنہ سہولتوں اور قونصلر رسائی تک مہیا کی۔ بھارت نے پاکستانی قیدی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی، مسلمہ جنگی قیدی کے ساتھ کیا ہوا اور ایک جاسوس کے ساتھ پاکستان نے کیا کیا جو سینکڑوں بلکہ ہزاروں پاکستانیوں کا قاتل ہے۔ پاکستان کا حوصلہ: سبحان اللہ۔ روس‘ افغانستان میں آیا تو بھارت روس کے ساتھ تھا۔ امریکہ‘ افغانستان میں آیا تو یہ امریکہ کے ساتھ تھا۔ دونوں بار انڈیا نے پاکستان میں دہشت گردی کی انتہا کر ڈالی مگر پاکستان صبر پر جما رہا۔ پاک فوج کے کتنے جوان اُدھر سے آئے دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے مگر پاکستان دفاع کرتا رہا اور صبر کرتا رہا...۔ صبر کی لمبی داستان ہے‘ کہاں تک لکھوں۔ آج میرا رب پاکستان اور اہل پاکستان کو صبر کا پھل دینے والا ہے۔ موجودہ 14 اگست ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ انڈیا گِھر چکا‘پاکستان اہم ترین ہو چکا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے بھی تصور دیا تھا کہ فلاں علاقے پاکستان بنیں گے۔ وہ بن کے رہے۔ آج پھر چھینے ہوئے علاقوں کا خواب عمران خان اور جنرل باجوہ نے دیکھا ہے۔ اے میرے مولا! ہم سب اہلِ پاکستان کا یہی خواب ہے۔ پاکستان کو مکمل فرما دے، نئے نقشے کے ساتھ۔