اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کے بعد حضور نبی کریمﷺ کے فرامین کی جو صحیح ترین کتابیں ہیں وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہیں۔ ہم صحیح مسلم کی ایک حدیث شریف بیان کرنے جا رہے ہیں۔ اس کی روشنی میں کچھ مزید معاملات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ قارئین کرام! ہم آغاز کرتے ہیں؛ صحیح مسلم میں پہلی کتاب ''الایمان‘‘ ہے۔ اس کے بعد دوسری کتاب کا نام ''الطّھارۃ‘‘ ہے؛ یعنی پاکیزگی اور صفائی۔ اس کتاب میں امام مسلم جو پہلی حدیث لائے ہیں‘ ملاحظہ ہو! ''حضور محمد کریمﷺ نے فرمایا: پاکیزہ رہنا نصف ایمان ہے۔ الحمدللہ کہنا (اللہ کے) ترازو کو بھر دیتا ہے۔ جبکہ سبحان اللہ اور الحمدللہ کی صورت حال یہ ہے کہ یہ دونوں کلمات تمام آسمانوں اور زمین کے درمیان کو بھر دیتے ہیں۔ یاد رکھو! نماز روشنی ہے (اللہ کی پہچان کی)، صدقہ دلیل ہے (بندوں کا خیال رکھنے کی)، اور صبر تیز روشنی ہے (مصیبت اور غضب کے وقت کی)، اے مسلمان! قرآن یا تو تیرے حق میں حجّت ہے، (اگر اس پر عمل کر لیا) یا پھر تیرے خلاف حجّت ہے( اگر تو نے قرآن نظر انداز کر دیا)، ہر انسان صبح کرتا ہے تو (اپنے کردار کی وجہ سے) اپنا سودا کرتا ہے۔ پھر یا تو خود کو (جہنم سے) آزاد کرنے والا ہوتا ہے اور یا پھر خود کو (جہنم کا حقدار بنا کر) برباد کرنے والا ہوتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم: 534)
جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب جب آرمی چیف بنے تھے تو میں نے ان کے عزیزوں کے ساتھ اپنے چالیس سالہ پرانے تعلق کی وجہ سے‘ انہی کی معلومات کے مطابق لکھا تھا کہ جنرل صاحب کھلے ڈلے آدمی ہیں، عاجزی ان کی فطرت ہے۔ وہ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد زندگی گزارنے کا سوچ رہے تھے۔ آرمی چیف بننے کے بعد انہوں نے کوئی لابنگ نہیں کی نہ ان کو کوئی امکان ہی تھا کہ وہ آرمی چیف بنیں گے۔ طبیعت میں سادگی ہے مگر منصوبہ ساز ہیں۔ حبّ رسولؐ اور حبّ الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ دکھاوے سے کافی دور ہیں۔
صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف وغیرہ جب دوسرے ملک کا دورہ کرتے ہیں تو پروٹوکول طے ہوتا ہے۔ باریک بینی سے عزتوں اور وقار کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ ملک کے وقار کا مسئلہ ہوتا ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ بعض اوقات ملک کے مفاد میں ایسا بھی مرحلہ آ جاتا ہے کہ اپنے شخصی وقار کی پروا نہ کی جائے... جی ہاں! یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے کہ اکثر حکمران اپنے شخصی وقار کو ملکی وقار کے ساتھ خواہ مخواہ نتھی کر کے مواقع ضائع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کے رسولﷺ کی گارنٹی ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی خاطر عاجزی اختیار کی اللہ تعالیٰ اسے بلند کر دیتا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے سعودی عرب سے متعلق بیان کے بعد جو کشیدگی پیدا ہوئی اس کو دور کرنے اور باہمی معاملات کو خوش اسلوبی کے ساتھ طے کرنے کے لیے جنرل باجوہ صاحب سعودی عرب کا دورہ کرنے جا رہے تھے تو یہ دورہ پہلے سے ہی طے تھا۔ اتفاق یہ ہوا کہ اس دوران قریشی صاحب کا بیان درمیان میں آ گیا تو دورے کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔سعودی عرب کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات نہ ہو سکے گی لہٰذا اگر وہ تاریخ آگے کر دیں تو ملاقات یقینی ہو گی۔ سعودی آرمی چیف سے ملاقات ہوگی اور طے شدہ تاریخ پر ولی عہد کے چھوٹے بھائی نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے ملاقات ہو گی۔ جواب دیا گیا: کوئی بات نہیں ہم طے شدہ تاریخ پر آئیں گے۔ جی ہاں! جنرل باجوہ صاحب کے اس فیصلے کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوا۔ مسائل حل ہوئے۔ طے بھی ہوئے، اللہ تعالیٰ ان کی عزت میں اور اضافہ فرمائے۔ مزید برآں! دونوں ملکوں کی قیادت کو وقت بھی مل گیا کہ ٹھنڈے انداز سے مزید غور کر لیں اور اگلی ملاقات ہوگی تو وہ اعلیٰ سطحی ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ اس میں مزید خیر و برکت فرما دیں گے۔ (ان شاء اللہ تعالیٰ)
اللہ کے رسولﷺ نے صبر یعنی حوصلے اور بردباری کو ''ضیاء‘‘ کہا ہے۔ یہ وہ روشنی ہوتی ہے جس میں قدرے تیزی ہو یعنی جس کے پاس حوصلہ، صبر اور بردباری ہو گی اس کا دماغ متواتر تیز روشنی میں رہے گا اور فیصلے بصیرت افروز روشنی میں کرے گا... اس کے برعکس اگر وہ اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لے گا، غصّے اور غضب میں آ جائے گا تو دماغ میں اندھیرا چھا جائے گا۔ قرآن بتاتا ہے کہ روشنی رحمن کی طرف سے ہوتی ہے اور اندھیرا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اگر شیطان کسی انسان کے دماغ میں اندھیرا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو حضور نبی کریمﷺ نے علاج بھی بتایا ہے کہ بندہ بیٹھ جائے، لیٹ جائے، ٹھنڈا پانی پیئے۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھے۔ بائیں جانب تین بار تھو تھو کر دے۔ روشنی واپس آنا شروع ہو جائے گی۔ جو کوئی اپنے دماغ کے اندھیرے کو دور کیے بغیر آگے بڑھے گا تو وہ روشنی کے بغیر کسی گڑھے میں گرے گا، پھر ٹانگ اور بازو بھی ٹوٹ سکتا ہے لہٰذا نقصان سے بچنے کے لیے روشنی کے ساتھ چلنا ضروری ہے اور یہ لائٹ صبر، حوصلے، بردباری اور برداشت سے ملتی ہے۔
پاک سعودیہ تعلقات ایمان کی بنیاد پر ہیں اور گزشتہ تقریباً ایک صدی پر محیط ہیں۔ آئی ایس پی آر نے جنرل باجوہ صاحب کے سعودیہ جانے سے قبل ہی واضح کر دیا تھا کہ یہ تعلقات مضبوط تھے‘ مضبوط ہیں اور مضبوط رہیں گے (ان شاء اللہ)۔ یہاں پر میں یہ بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ اہلِ عرب کے بارے میں احادیث بیان کرتے ہیں اور پھر ان کا انطباق کر کے توہین شروع کر دیتے ہیں۔ یہ انداز مناسب نہیں۔ حضور نبی اکرمﷺ نے بلاشبہ پیش گوئیاں فرمائی ہیں؛ تاہم ان میں سے سند کے اعتبار سے جو احادیث صحیح ہیں، ان کی شرح غیر عالم لوگ اپنی مرضی سے کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہیں وہ غلطیاں کرتے ہیں۔ ایسی صحیح احادیث عربوں سے متعلق بھی ہیں، ترکوں سے متعلق بھی ہیں اور فارسیوں سے متعلق بھی۔ ان میں فضائل بھی ہیں اور پیشگوئیاں کر کے ڈراوے بھی ہیں؛ تاہم بعض روایات ضعیف اور موضوع یعنی من گھڑت بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو اس پر کسی وقت تفصیلی گفتگو کروں گا فی الحال اسی قدر عرض کروں گا کہ علم کی دنیا کو نادانیوں سے گدلا نہیں کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر غیر علمی چیزوں کو جذباتی بنا کر پیش کرنے سے ہمیں بہت نقصان ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔
اب ذرا تذکرہ ہو جائے دماغ میں روشنیوں کا۔ انسانی دماغ میں کھربوں نیورونز ہیں۔ دو نیورون جہاں ملتے ہیں‘ ملاپ کے اس حصے یا علاقے کو سائنسی زبان میں SYNAPSE کہتے ہیں۔ جب پیغام ایک نیورون سے دوسرے نیورون کی جانب جاتا ہے تو ''سائیناپس‘‘ میں الیکٹریکل چارج ہوتا ہے۔ ایک روشنی (ضیا) پیدا ہوتی ہے۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ اگر ان روشنیوں کو اکٹھا کیا جائے تو ایک یا ایک سے زیادہ بلب روشن ہو سکتے ہیں۔ ان علاقوں یعنی سائیناپس کے بننے کی تعداد کیا ہے؟ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ سائنسدانوں نے بچّے کی پیدائش سے 3 سال تک کی عمر کے بارے میں ایک اصطلاح Zero to Three ایجاد کی ہے۔ اس پر دنیا بھر کے سائنسدانوں کی ہر سال کانفرنس ہوتی ہے۔ اگست 2020ء تک کی تازہ ریسرچ یہ ہے کہ بچہ جونہی پیدا ہوتا ہے تو اس کے دماغ کے نیورونز ایک سیکنڈ میں ایک ملین یعنی دس لاکھ بنتے ہیں۔ اب میں نے بچے کی تین سالہ عمر کے سیکنڈز بنائے پھر ان سیکنڈر کو دس لاکھ سے ضرب دی تو جو Synapses بنے ان کی تعداد 9 پدم 46 کھرب 94 ارب 40 کروڑ بنی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ماں کے شکم میں بچے کے دماغ میں Synapses نہیں بنتے۔ وہاں بھی بنتے ہیں اور پھر انسان کی چالیس سال تک عمر میں متواتر بنتے رہتے ہیں۔ اب تعداد کا اندازہ لگائیں۔ کہاں پہنچے گی... اس بے شمار تعداد میں بننے والے Synapses میں نور ہو گا، ضیا ہوگی۔ یہ بات بتلائی ہے اس عظیم ہستیؐ نے کہ جس نے مکہ فتح کیا تو فرمایا: (اے ہم سب پر ظلم کرنے والے قریش) جائو! تم آزاد ہو۔ تمہیں معاف کر دیا۔ اسی طرح مدینہ منورہ میں حرمِ مدنی کہ جہاں حضور نبی کریمﷺ کا مبارک روضہ ہے‘ آپؐ کا منبر اور مصلّٰی ہے۔ مسجد نبوی ہے۔ یہ دو حرم ہماری آنکھوں کا نور ہیں۔ ان کا تصورِ زیارت کر کے ہمارے Synapses نہ صرف بڑھنا شروع کر دیتے ہیں، بلکہ وہاں تو جگمگاہٹ کا منظر بن جاتا ہے۔ لوگو! یہ نور حوصلے سے بنتا ہے، برداشت سے بنتا ہے، عظیم اخلاق سے بنتا ہے، محبت اور پیار سے بنتا ہے۔ زبان سے تیر اور چھریاں برسانے سے تو صرف اندھیرا ہی بنتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے بھی اپنی گفتگو میں پاک سعودیہ تعلقات کی پائیداری پر مثبت بات کی ہے۔ مولانا طاہر اشرفی ہمارے پرانے دوست ہیں‘ ان کا کردار بھی نمایاں اور مثبت طور پر سامنے آیا ہے۔ اسلام آباد میں سعودی سفیر جناب نواف بن سعید احمد المالکی نے بھی دونوں ملکوں کو قریب لانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ایسے سب لوگوں کے دماغوں میں Synapses کی ضیائوں نے اندھیروں کو دور کیا ہے۔ سب سے بڑا اجالا جناب جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب سے ہوا ہے۔ ان کے ہمراہ جنرل فیض حمید تھے۔ جنرل (ر) راحیل شریف پہلے ہی وہاں ہوتے ہیں۔ اسی آخری اجالے، روشنی اور ضیا پاشی پر کالم کا اختتام کرتا ہوں اور دعا ہے کہ مولا کریم اس ضیا کو مزید نورانی بنائے تا کہ 50 لاکھ پاکستانی بھی مطمئن اور مسرور رہیں۔ پاک سعودیہ دوستی زندہ باد!