آج سے کوئی 30 سال پہلے کی بات ہے‘ میں نے بلوچستان کا دعوتی پروگرام بنایا تو کوئٹہ سے پنجگور، بلیوہ، تربت (کیچ) گوادر، پسنی اور خضدار وغیرہ سے ہوتا ہوا کراچی پہنچا۔ کوئٹہ سے روانگی کے دن میرے دوست سعید اطہر نے مجھے بتایا کہ خان آف قلات میر سلیمان دائود کے ساتھ فون پر میری گفتگو ہو رہی تھی‘ میں نے انہیں آپ کے بارے میں بتایا تو انہوں نے آپ کی ضیافت رکھ دی ہے۔ چنانچہ میں ان کے ہاں ضیافت کھا کر روانہ ہوا۔ دورانِ گفتگو انہوں نے مجھے جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دورۂ چین کا ایک ایمان افروز ذاتی واقعہ سنایا۔
کہنے لگے: میرے والد گرامی میر احمد یار خان بلوچستان کے گورنر تھے۔ وزیراعظم پاکستان صاحب ذوالفقار علی بھٹو 1976ء میں دورۂ چین کے لیے روانہ ہوئے تو وفد میں میرے والد گرامی میر احمد یار خان بھی شامل تھے۔ مجھے بھی دورے میں شامل کر لیا گیا۔ جب موجودہ چین کے بانی چیئر مین مائوزے تنگ سے ملاقات ہوئی تو ان کے کوٹ کو پیوند لگا ہوا تھا۔ میرے والد میر احمد یار خان نے اس پیوند کے بارے میں پوچھ لیا تو چیئر مین مائو نے جواب دیا ''میں نے حضرت عمر فاروقؓ کی سیرت اور دورِ حکمرانی کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ میں نے سادگی اور پیوندکاری ان سے سیکھی ہے‘‘۔قارئین کرام! محرم الحرام ایسا مہینہ ہے کہ اس کی یکم تاریخ کو حضرت فاروق اعظمؓ شہید ہوئے اور اسی مہینے کی دس تاریخ کو نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂِ بتولؓ حضرت حسینؓ بن علیؓ شہید ہوئے۔ حضرت عبداللہؓ بن عمر کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا قد لمبا تھا۔ قدرے تیز چلتے تھے۔ لوگوں کے درمیان پیدل چلتے ہوئے یوں محسوس ہوتے جیسے آپؓ سواری پر سوار ہیں اور لوگ پیدل چل رہے ہیں۔ آپؓ کا رنگ سفید تھا۔ اس سفیدی میں سرخی غالب تھی (اعلام النبلاء: ذھبی)
حضرت عمرؓ کی والدہ کا نام حنتمہ بنت ہشام تھا۔ یہ ابوجہل کی بہن تھیں۔ اللہ کے رسول خاتم النبیین حضرت محمد کریمﷺ نے اپنے اللہ کے حضور دعا کی تھی: اے اللہ! اسلام کو عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشّام کے ذریعے مضبوط کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور حضرت عمرؓ مسلمان ہو گئے۔ حضور نبی کریمﷺ اُس وقت ''دارِ ارقم‘‘ میں تشریف فرما تھے۔ حضرت حمزہؓ بھی وہاں موجود تھے۔ اب اللہ کے رسولؐ یہاں سے نکل کر کعبہ کی طرف چلنے لگے تو دو گروپ بنائے گئے۔ مسلمانوں کے ایک گروپ میں حضرت عمرؓ تھے جبکہ دوسرے گروپ میں حضرت حمزہؓ تھے۔ حضور اکرمﷺ ان دونوں گروپوں کی قیادت فرماتے ہوئے کعبہ پہنچے تو مشرکوں کے سردار جن میں عمر و بن ہشام یعنی ابوجہل بھی تھا‘ یہ منظر دیکھ کر مبہوت رہ گئے۔ بے حد پریشان ہوئے مگر کچھ کہہ نہ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ کی دعا کا ظاہری منظر بھی عیاں فرما دیا۔
ہم نے اپنی زندگی میں امریکہ اور روس یعنی دو سپر پاوروں کی قوت کے مظاہرے دیکھے‘ پھر یکے بعد دیگرے روس اور امریکہ کو افغانستان میں ایسی شکست سے دوچار ہونا پڑا کہ آج دنیا میں قوت کے چار مراکز مانے جاتے ہیں۔ یہ مراکز امریکہ، چین، یورپی یونین اور روس ہیں یعنی چین دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ 2020ء میں امریکہ کے آفیشلز نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ امریکہ جو دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور فوجی قوت ہے‘ وہ معاشی لحاظ سے اپنی تاریخ کے بدترین خسارے سے دوچار ہے۔ یہ خسارہ کُل معیشت کا 33 فیصد ہے۔ یہ معاملہ مستقبل میں ایسے ہی رہا تو حقائق کے پیش نظر توقع یہی ہے تو اگلے چند سالوں میں دنیا کی سپر پاور چین ہوگا... جی ہاں! چین تو ہم اہلِ پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا تھا۔ اس نے موجودہ مقام حاصل کیا ہے سادگی اور قیادت کی دیانت سے اور یہ سارا کچھ سیدنا فاروق اعظمؓ کی سیرت سے لیاہے۔ ہم اہلِ پاکستان نے73 سالوں میں کیا کیا ہے اور آج کیا کر رہے ہیں، اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں دو سپر پاوریں تھیں۔ رومی سپر پاور کہ جن کا پایہ تحت قسطنطنیہ (استنبول) تھا۔ ایرانی سپر پاور کہ جس کا دارالحکومت عراق میں دریائے دجلہ کے کنارے پر مدائن تھا۔ حضرت عمرؓ کی حکمرانی میں ایرانی سپر پاور کا وجود اس طرح ختم ہوا کہ سپر پاور کے تمام ممالک حضرت عمرؓ کی حکومت کا حصہ بن گئے جبکہ رومی سپر پاور کے تین حصے اسلامی خلافت کا حصہ بن گئے۔ صرف قسطنطنیہ کا علاقہ بچا‘ وہ بعد ازاں ترک سلطان محمد الفاتح کے دور میں اسلامی حکومت کا حصہ بنا۔ سارا جزیرۃ العرب اور اس دور کی دو سپر پاوروں کے تمام علاقے (سوائے معمولی علاقے کے) حضرت عمرؓ کے پاس تھے، یعنی وہ دنیا کی ایک ایسی سپر پاور کے حکمران تھے کہ جس کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی اور نہ آج ہی موجود ہے۔
حضرت عمرؓ خود فرماتے ہیں کہ جب ان کا گزر ان کی خلافت کے زمانے میں مکّہ کے نواحی علاقے ''صحیان‘‘ سے ہوا کہ ''میں وہاں اپنے باپ خطاب کی بکریاں چرایا کرتا تھا، بعض اوقات لکڑیاں اکٹھی کر کے بھی گھر لے جایا کرتا تھا مگر اب میرے ہاتھ میں مجرموں کے لیے کوڑا ہے اور اللہ رب العالمین کی مخلوق میں کوئی مجھ سے اوپر نہیں‘‘۔ علامہ عبدالرحمان السّحیم اپنی کتاب ''قطف الثمر‘‘ میں مضبوط حوالے کے ساتھ لکھتے ہیں کہ حضرت زبیرؓ بن عوام نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ آپؓ کے کندھے پر پانی کی مشک ہے۔ میں نے عرض کی: اے امیر المومنین! ایسا کرنا آپؓ کے شایانِ شان نہیں۔ حضرت عمرؓ فرمانے لگے: میرے پاس (دنیا بھر سے) وفود آتے ہیں۔ مجھے سنتے ہیں اور میری اطاعت کرتے ہیں‘ (ان مناظر نے) میرے دل میں قدرے نخوت (غرور) پیدا کر دیا۔ میں نے اس کو سیدھا کرنے کا فیصلہ کیا کہ اس کو ''اُکْسِرُھَا‘‘ (توڑ پھوڑ ڈالوں)۔
آج چین ہمارا اتحادی بن چکا ہے۔ گہری دوستی سے دوستی اوپر چلی گئی ہے۔ ہمیں اس پر فخر ہے مگر یہ بھی تو سوچو! کہ مائو زے تنگ نے اپنے کوٹ پر پیوند لگا کر اپنے اندر کو درست کیا اور نجانے اور کیا کیا کر کے اپنے آپ کو چینی قوم کی ذمہ داری کے لیے درست کیا۔ اپنے اندر کی انانیت کو توڑا۔ بتلائو! ہم فخر ہی کرتے رہیں گے کہ اپنے اندر کے متکبر انسان کو توڑنے کا بھی کام کریں گے؟
موجودہ دور کے معروف مؤرخ، فقیہ اور سیاسی مفکر ڈاکٹر علی الصّلابی اپنی کتاب (فصل الخطاب فی سیرۃ ابن الخطابؓ) میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ بیت المال کے اونٹوں کا سامان اٹھائے جا رہے تھے۔ راستے میں حضرت علیؓ مل گئے۔ کہنے لگے: اے امیر المومنین! سامان اٹھائے کہاں جا رہے ہیں؟ جواب دیا: اونٹوں کی خدمت اور رکھوالی کا خیال رکھنے جا رہا ہوں۔ حضرت علیؓ نے کہا! ایسا کر کے آپؓ اپنے بعد والے خلفاء کو پست کر دیں گے۔(یعنی وہ اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے) اس پر حضرت عمرؓ بولے: اے ابو الحسنؓ! مجھے ملامت نہ کیجیے۔ اس اللہ کی قسم جس نے حضرت محمدﷺ کو نبوت دے کر بھیجا‘ میں یہ تگ و دو اس ڈر سے کرتا ہوں کہ اگر فرات کے کنارے اونٹنی کا ایک بچہ بھی مر گیا تو قیامت کے دن وہ عمرؓ کو پکڑ لے گا۔ چین کی دوستی پر فخر کرنے والے حکمرانو! چین کا چیئر مین مائو تو حضرت عمرؓ کے راستے پر چلا... آپ بتلائو! کہ آپ کی حکمرانی میں کتنے انسان پاکستان میں خود کشیاں کرتے ہیں‘ بے انصافی کا شکار ہیں‘ صحت اور تعلیم سے محروم ہیں۔ ان انسانوں کی مظلومیت کا جواب قیامت کے دن کیسے دو گے؟ حضرت عمرؓ کی زندگی کا آخری منظر بھی ملاحظہ کر لو۔ حضرت عثمانؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی زندگی میں سب سے آخر میں ان سے میں ملا تھا۔ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے بیٹے عبداللہ کی گود میں ان کا سر تھا۔ حضرت امیر المومنینؓ نے بیٹے سے کہا: میرا رخسار زمین کے ساتھ لگا دو (یعنی مجھے چار پائی یا گدّے سے اتار کر نیچے زمین پر اس طرح لٹا دو کہ میرا رخسار زمین کے ساتھ لگ جائے) حضرت عبداللہؓ بن عمر نے کہا: ابا جان! میری ران اور زمین ایک ہی چیز ہے۔ حضرت عمرؓ نے دوسری یا تیسری بار (غصے میں) بیٹے سے کہا: تمہاری ماں نہ رہے‘ میرا چہرہ زمین پر رکھو۔ (جونہی زمین پر رکھا گیا) آپؓ نے اپنے دونوں پائوں جوڑ لیے اور پھر حضرت عثمانؓ کہتے ہیں: میں نے امیر المومنین کو یہ کہتے ہوئے سنا: اگر اللہ کریم نے مجھے معاف نہ فرمایا تو یہ میرے لیے اور میری ماں کے لیے بربادی ہے‘‘۔ یہ الفاظ کہتے ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔ (الطبقات ابن سعد: صحیح۔ کتاب الذھد: عبداللہ بن مبارک)
چیئرمین مائو نے حضرت عمرؓ کا عقیدہ قبول نہیں کیا لیکن ان کی حکمرانی کے ماڈل کو اختیار کیا چنانچہ آج چین دنیا کی عظیم اور لاجواب سپر پاور کے حکمران کے انداز سیاست و حکمرانی کو اپنا کر سپر پاور بننے جا رہا ہے۔ ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
ماہِ محرم کی دوسری عظیم شہادت حضرت حسینؓ کی ہے۔ وہ نکلے تھے صرف اس لیے کہ ان کے نانا حضرت محمد کریمﷺ نے ''نبوت و رحمت‘‘ والی حکمرانی کا جو میرٹ اپنی امت کو دیا تھا‘ وہ پامال ہونے لگ گیا تھا۔ حضور اکرمﷺ نے اپنے بعد ''خلافت و رحمت‘‘ کی خوشخبری دی تھی۔ اس کا عرصہ بھی 30 سال بتا دیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ کا دور ''خلافت و رحمت‘‘ کا دور تھا۔ میرٹ کی حکمرانی تھی۔ حضرت حسنؓ کی خلافت کے چھ مہینے شامل ہوں تو تب 30 سال پورے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اسلاف نے ان کو بھی خلیفہ راشد کہا ہے کہ جنہوں نے امت میں اتحاد پیدا کرنے کی خاطر میرٹ پر ملی ہوئی خلافت کو چھوڑ دیا تھا۔
حضرت حسینؓ نے اپنی اور اپنے خاندان اور پیارے ساتھیوں کی قربانی اس لیے دی کہ خلافت و رحمت کی شارع اور میرٹ کی روڈ سے اتری ہوئی امت کی ٹرین کو واپس درست ٹریک پر چڑھا دیا جائے۔ چنانچہ آج بجائے اس کے کہ مسلمان باہم لڑیں‘ مقصد کی جانب پلٹیں۔ خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ اور محرم کے شہدا تو فردوس میں اللہ کے رسولؐ کے ہمراہ عالیشان زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ہم ان کے نقش قدم پر چلیں۔
آئیے! ہم ایک ہو جائیں۔ چین کی دوستی کا فائدہ اٹھائیں۔ پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنائیں۔ اس چشمے سے پانی پئیں جس سے مائوزے تنگ نے پیا تھا۔ انہوں نے ایک گلاس پیا تھا۔ ہم پانچ گلاس پئیں اور حضرت عمرؓ نے جس چشمے سے پانی پیا تھا وہ تو حضور نبی کریمﷺ کا چشمہ ہے۔ حضرت حسینؓ کا بھی یہی چشمہ ہے۔ اسی چشمے کے احیاء کے لیے نواسۂ رسول نے خون دیا تھا۔ مگر آہ! ہم نے حسینی مقصد کو بھلا دیا اور آپس میں فرقے بنا کر اس پہ خون بہانے لگ گئے۔ پاکستان میرا پیارا دیس! ایسی خونریزیوں کو روک چکا ہے۔ روکنے والوں کا جو خوں گرا ہے‘ وہی مقدس خون ہے۔ ایسے خوبصورت کردار کو سلام، جو قلم چلا اس کو سلام اور جو زبان بولی اس کو سلام۔ اور اختتام اس پر کہ شہدائے محرم کے مقدس و پاکیزہ خون کو سلام لاکھوں بار۔