"AHC" (space) message & send to 7575

ڈیوٹی ہے، میری ڈیوٹی نہیں؟

لاہور موٹر وے پر اسلام کی بیٹی، انسانیت کی لخت جگر، پاکستان کی دختر اور ہر اہلِ درد کے گوشۂ جگر کے ساتھ جو ہوا۔۔۔۔۔ اس میں جو بنیادی بات ہے وہ ہے ''میرا علاقہ نہیں‘‘ ، ''میری ڈیوٹی نہیں‘‘۔ میری عمر 61 سال ہو چکی ہے۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا پولیس کے حوالے سے مندرجہ بالا دونوں باتیں ہی سنتے چلے آ رہے ہیں۔ ہمیں اس خرابی کی اصلاح کرنا ہے۔ اس پر قانون سازی ہو جائے تو بہت بہتر ہوگا۔ ہم سب سے پہلے حضرت خالدؓ بن ولید کی بات کریں گے، پھر کیپٹن اسفند یار بخاری کا تذکرہ کریں گے اور آخر پر مجرم کی سزا پر گفتگو کریں گے۔
حیدرِ کرار حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفر طیّارؓ کے بیٹے حضرت عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ایک لشکر بھیجا۔ اس کا کمانڈر حضرت زیدؓ بن حارثہ کو بنایا اور فرمایا کہ زیدؓ شہیدہو جائیں تو تمہارا کمانڈر جعفرؓ ہو گا۔ یہ شہید ہو جائیں تو کمانڈر عبداللہؓ بن رواحہ ہوں گے۔ (موجودہ اردن کے علاقہ موتہ میں قیصرِ روم کی فوج کے ساتھ) زور دار جنگ ہوئی۔ حضرت زیدؓ نے جھنڈا تھاما اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ پھر حضرت جعفرؓ نے جھنڈا تھاما‘ وہ بھی لڑے اور پھر شہید ہو گئے۔ پھر حضرت عبداللہؓ نے جھنڈا پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ (مسند احمد: 1750صحیح)
حضرت ابو قتادہؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا اس کے بعد جھنڈا خالد بن ولیدؓ نے پکڑ لیا اور وہ کمانڈروں میں سے نہیں تھا۔ اس نے ''ھُوَ اَمَّرَ نَفْسَہ‘‘ اپنے آپ کو خودکمانڈر بنا لیا۔ اب کے اللہ کے رسول نے (صحابہ کے اجتماع میں) اپنی دو انگلیوں کو بلند فرمایا اور اللہ کے حضور یوں التجا کی: ''اَللّٰھُمَّ ھُوَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِکَ فَانْصُرْہُ‘‘ اے اللہ! یہ (خالد) تیری تلواروں میں سے ایک عظیم تلوار ہے، اس کی مدد فرما دے۔ (نسائی: 8159۔ احمد: 22551۔ صحیح) حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے (مدینہ کے جمع کیے گئے) لوگوں کو تینوں کمانڈروں کی شہادت کی خبر دی۔ آپﷺ کی آنکھوں سے چھم چھم آنسو بہہ رہے تھے اور فرمایا! آخر کار جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے تھام لیا۔ وہ لڑتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رومیوں پر فتح عطا فرما دی۔ (بخاری:3757) 
جی ہاں! ثابت ہوا کہ جب اللہ کے بندے خطرے میں ہوں، ان کی جانیں جان لیوا آزمائش میں گھر جائیں، ذمہ دار کمان اور قیادت مفقود ہو جائے تو جو بندہ آگے بڑھ کر کردار ادا کر لے‘ وہ انتہائی عظیم ہے۔ اسے اللہ کے رسولﷺ کی جانب سے تمغہ ملتا ہے۔ حضورؐ نے حضرت خالدؓ بن ولید کے بارے میں فرمایا کہ اس نے خود آگے بڑھ کر کمان سنبھال لی۔ اب اللہ تعالیٰ یہ سارا منظر اپنے پیارے رسولﷺ کو مدینہ منورہ میں دکھلا رہے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے حضور کی امّت کے لیے یہ فطری سبق یاد کروا دیا ہے کہ غیر معمولی حالات میں مردبن کر خالدؓبن ولید کی طرح زور دار کردار ادا کرو۔۔۔۔۔ ایسے حالات میں جو کوئی یہ کہتا ہے کہ میری ڈیوٹی نہیں تو وہ بزدل اور ناکارہ آدمی ہے۔ ایسے ناکارہ لوگوں سے مثالی انتظامیہ کو پاک صاف ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں‘ وقت آ گیا ہے کہ میرے پاک ملک کی پولیس کو ایسے لوگوں سے پاک کر دیا جائے کہ ملک کی بیٹی پونے دو گھنٹے موٹروے پر ویرانے میں 'مدد مدد‘ پکارتی رہے اور انتظامی لوگ بری حکمرانی کی یوں مثال قائم کر دیں کہ نیچے سے اوپر تک عجیب و غریب موشگافیاں چھوڑتے رہیں۔حضرت خالدؓ بن ولید کہتے ہیں کہ مُوتہ کی جنگ میں میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں۔ میرے ہاتھ میں کوئی تلوار نہ رہی۔ صرف یمن کا بنا ہوا چوڑے پھل کا تیغہ باقی رہ گیا (میں اسی سے لڑتا رہا اور اپنی فوج کو فاتح بنا کر واپس لے آیا) (بخاری۔ کتاب المغازی4265) 
پاک فوج کے ایک تھری سٹار افسر‘ جو کوئٹہ سٹاف کالج میں افسروں کے استاد رہے، نے پاک فوج کی تربیت کے لیے ایک کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ پھر جہاں جہاں حضرت خالدؓ بن ولید کے معرکے ہوئے‘ وہ وہاں وہاں گئے۔ سعودی عرب، شام، عراق اور اردن کے پرانے جنگی میدانوں کو دیکھا۔ تاریخ کو کھنگالا اور بڑے سائز کی کتاب جو پونے پانچ صد صفحات پر مشتمل ہے‘ لکھی۔ پاک فوج کے اس دانشور مصنف جرنیل کا نام لیفٹیننٹ جنرل (ر) آغا ابراہیم اکرم ہے۔ میں نے کتاب کا ایک ایک صفحہ پڑھا ہے۔ قارئین کرام! پاک فوج میں بطور تربیت پڑھی جانے والی اس کتاب کا اب رزلٹ ملاحظہ ہو۔ کیپٹن اسفند یار بخاری کی کوئی ڈیوٹی نہ تھی۔ جنرل راحیل شریف کا دور تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ زوروں پر تھی مگر کامرہ میں جب دہشت گرد گھس آئے تو اسفند یار بخاری یہ دیکھ کر کہ فوج کے بہت سارے جوانوں کا نقصان ہو جائے گا‘ اٹھے اور مقابلہ کرنے لگ گئے اور پھر وہ اس معرکے میں کامیاب و کامران ہو کر اپنے اللہ کے پاس جا پہنچے۔ پاک فوج اور پوری قوم خراجِ تحسین کے لیے کیپٹن اسفند یار کے لیے صدقے واری ہو گئی۔ 
میری گزارش یہ ہے کہ پولیس میں میرٹ کو اولیت دی جائے۔ سینئر، دیانتدار اور قابل افسروں کو آگے لایا جائے۔ سیاست بازی سے اس اہم ترین ادارے کو خراب کیا گیا تو داخلی محاذ پر نقصان کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ پولیس کا ادارہ قابل اور دیانتدار افسروں اور جوانوں سے محروم نہیں ہے۔ بس اچھی تربیت اور میرٹ کا افلاس ہے۔ میری تجویز ہے کہ پولیس میں ''تمغہ خالدؓ‘‘ کا اجرا کیا جائے او جو حضرت خالدؓ بن ولید کے کردار کی پیروی کرتے ہوئے کوئی کارنامہ سر انجام دے‘ محض اللہ کو راضی کرنے کے لیے‘ تو اسے ''تمغہ خالدؓ‘‘ دیا جائے۔ وہ ریا کاری سے بچے گا تو مرنے کے بعد قیامت کے دن اپنے اللہ کریم سے بھی عزت دار تمغہ پائے گا۔ان شاء اللہ!
پولیس کے مسائل بھی حل کیے جائیں۔ تربیتی نصاب میں خواتین اور بچوں کی حفاظت کو اسلامی نقطۂ نظر سے اجر و ثواب اور جدوجہد کو جہاد کے حوالے سے واضح کر کے بتایا جائے کہ پولیس کے لوگ کس قدر عظیم ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ کمزوروں کی مدد کر کے، حق و صداقت کی ایف آئی آر لکھ کر جنت میں جا سکتے ہیں جبکہ ظالموں کا ساتھ دے کر جب وہ دنیا سے جاتے ہوئے نزع کی حالت میں ہوں گے تو قرآن کہتا ہے کہ ظالموں کو اسی وقت فرشتے چہرے اور پشت پر مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ یاد رکھئے! پیسے بٹورنے کے لیے چمڑے کا جو کوڑا پولیس والے استعمال کرتے ہیں‘ فرشتوں کا کوڑا اس سے ہزاروں اور لاکھوں گنا زیادہ تکلیف دہ ہے۔بدکار اور ڈکیت مجرموں کے لیے محترمہ شیریں مزاری نے ایک سزا کا تذکرہ کیا۔ یقینا انہوں نے اور ان جیسے دیگروزرا اور مشیروں نے وزیراعظم پاکستان کو ایسی سزا کا مشورہ دیا ہو گا۔ میری گزارش ہے کہ اس پر گفتگو نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔
یاد رہے! مطالبہ عوام کرتے ہیں اور اپنے عوامی انداز سے کرتے ہیں مگر اس انداز کو بھی باوقار ہونا چاہیے۔ صحافی دانشور طبقہ ہوتا ہے وہ عوامی جذبات کو خوبصورت پیرائے میں قلم کے ذریعے واضح کرتے ہیں۔ علما کتاب و سنت کی روشنی میں رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ ان سب چیزوں کو مطالبات کہا جا سکتا ہے۔ ملک کا چیف ایگزیکٹو‘ وزیراعظم کہلاتا ہے، وہ مطالبہ نہیں کرتا‘ وہ ساری دانش کا تجزیہ کر کے فیصلہ کرتا ہے۔ اب اگر وزیراعظم یہ بیان دیں کہ موٹروے پر گھنائونے مجرموں کو سر عام سزا ہونی چاہیے تو یہ مطالبہ ہے... مگر یہ مطالبہ کس سے ہے؟ سامنے کی بات یہ ہے کہ مطالبہ یورپی یونین، یو این وغیرہ جیسے اداروں سے ہے جو مجرموں کو سر عام موت کی سزا دینے پر معاشی ناطقہ بندکر دیتے ہیں اور پاکستان کی معاشی حالت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یعنی وزیراعظم کی خواہش تو نیک ہے مگر راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ مجبوری ہے جو آڑے آ رہی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئر مین کی خدمت میں اک تجویز ہے۔ ''انصاف کمیٹی‘‘ کے نام سے ایک کمیٹی بنائی جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز کو اس کا سربراہ بنا دیا جائے۔ قابل ترین لوگوں کو اس کا ممبر بنایا جائے۔ یہ کمیٹی ایسے اداروں سے مذاکرات کرے جو سر عام سزا کے مخالف ہیں۔ میرے پاس برطانیہ کی شائع شدہ بائبل موجود ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ کے لیے اتھارٹی ہے۔ اس میں ہے کہ شادی شدہ بدکاروں کو رجم کیا جائے۔ پتھروں کا ڈھیر بھی تصویر میں موجود ہے۔ قرآن کی تعلیم بھی سورۂ نور میں یہی ہے۔ پھر مخالفت کیوں؟ امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں کی جدید تحقیق یہ ہے کہ جس معاشرے میں یہ عقیدہ موجود ہے کہ جرم کی سزا اگلے جہان میں جہنم ہے‘ وہاں جرائم کی سطح انتہائی کم ہے۔ سر عام سزا سے جرائم کس قدر کم ہوتے ہیں اور ایسا نہ کرنے سے جرائم کا عالمی ریٹ کیا ہے‘ اس سے عالمی اداروں کو آگاہ کیا جائے۔ الغرض! مذہبی، سائنسی، نفسیاتی، معاشرتی ڈائیلاگ کے ذریعے اداروںکو لا جواب کر کے پھر قومی اسمبلی سے سر عام سزا کا بِل پاس کروا کر ایسے مجرموں کا ناطقہ بند کرنا چاہیے اور ان کے سرطان سے معاشرے اور سوسائٹی کو پاک کر دینا ضروری ہے۔
اس بھیانک منظر کا سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ پاکستان کی بیٹی کار کے دروازے بند کر کے تین بچوں کو لیے خوفزدہ ہے، مسلح غنڈے شیشہ توڑتے ہیں، خاتون کو سڑک سے نیچے اتار کر جنگل میں جانے کا کہتے ہیں، نقدی اور سامان لوٹنے کے باوجود ظلم پر آمادہ ہیں، خاتون سڑک سے نیچے نہیں جاتی تو ایک بیٹی اور دو معصوم بیٹوں کو گھسیٹتے ہوئے نیچے لے جاتے ہیں، بچے شور مچاتے ہیں، ان کے جوتے راستے میں اتر جاتے ہیں، اب ماں کی مامتا بچوں کی خاطر بھاگتی ہے تو اس کی عزت بچوں کے سامنے تار تار ہوتی ہے۔ پولیس والے پونے دو گھنٹے ''میری ڈیوٹی نہیں‘‘ کے چکر میں ضائع کر دیتے ہیں۔ آئندہ کے حوالے سے اس زیاں کا مستقل بندوبست کر دینا چاہیے۔ حضرت خالدؓ بن ولید کے کردار کو رول ماڈل قرار دے دینا چاہیے۔ اسفندر یار بخاری شہید کے کردار کو اپنانے والے کے لیے خراجِ تحسین کا بندوبست ہو جانا چاہیے۔ وزیراعظم پاکستان کی خدمت میں گزارش ہے کہ متاثرہ خاتون اور مظلوم و معصوم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھیں تا کہ وہ جب بھی درندوں سے بدتر بدمعاشوں کی بدمعاشی پر پریشان ہوں تو وزیراعظم کے ہاتھوں کی ٹھنڈک اپنے دماغ میں محسوس کریں اور نفسیاتی مریض بننے سے محفوظ رہیں۔ اور ہاں! اس بات پر فخر کریں کہ ہماری مظلومیت نے پولیس کی سوچ بدل دی، اب ''میری ڈیوٹی نہیں ہے‘‘ کی جگہ ''میری ڈیوٹی ہے‘‘ پولیس کا سلوگن بن گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں