جرمنی کے پڑوسی ملک آسٹریا میں بھی جرمن زبان ہی بولی جاتی ہے۔ الغرض! جرمن زبان جن علاقوں اور خطوں میں بھی بولی جاتی ہے‘ ان علاقوں میں آسٹریا ایسا ملک ہے کہ جہاں جرمن زبان کی دنیا میں پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی۔ یہ یونیورسٹی 1365ء میں قائم ہوئی‘ یعنی اسے قائم ہوئے 655 سال ہو چکے ہیں۔ ساڑھے چھ سو سال ایک لمبی مدت ہے‘ اس دوران کتنی جنگیں ہوئیں‘ بربادیاں ہوئیں‘ ہٹلر نے آسٹریا پر قبضہ کیا‘جنگ عظیم اوّل اور دوم کی تباہی آسٹریا نے دیکھی‘ مگر علم کا چراغ جلتا رہا۔ اس علمی مرکز کو یونیورسٹی آف ویانا (Vienna) کہا جاتا ہے۔ اس میں سائنس کے بہت سارے شعبے ہیں۔ خلائی سائنس سے متعلق پروفیسر ڈیوڈ فج مین یونیورسٹی کا ایک نامی گرامی نام ہے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ جو ریسرچ اور تحقیق پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ بگ بینگ یعنی عظیم دھماکے کے بعد فوراً ہماری کائنات انتہائی تیز رفتار ہو کر پھیلنے لگی اور تقریباً (4 ارب نوری سالوں سے) آج تک پھیلتی چلی جا رہی ہے‘ مگر جو بات حیرت میں ڈالنے والی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کائنات آج تک انتہائی منظم ہے۔ یہ پھیلتے ہوئے برباد نہیں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ Universe to get its homogeneous structure ‘کائنات ایک انتہائی مضبوط اور منظم ڈھانچے کی حامل ہے۔ قارئین کرام! 26 ستمبر 2020ء کو یونیورسٹی کے سائنسدان پروفیسر David fajman کی ریسرچ جو Scitechdaly.com پر شائع ہوئی‘ اس میں مزید حیرت و تعجب کا اظہار یوں کیا گیا: One of these open questions is: Why is the universe in its present state so homogeneous on large scales?کائنات برباد کیوں نہیں ہوئی؟ اس پر جو سوالات اٹھتے ہیں ان میں واضح سوال یہ ہے کہ اپنی موجودہ حالت تک یہ کائنات بڑے پیمانوں پر اس قدر باہم ملی ہوئی اور انتہائی منظم کیوں ہے؟
جی ہاں! مسٹر ڈیوڈ کائنات کا پھیلائو بھی سائنسی طور پر تسلیم کر رہے ہیں اور اس کے منظم اور باہم مربوط ہونے کو نہ صرف تسلیم کر رہے ہیں بلکہ حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کا جواب حضرت محمد کریم ﷺکی نبوت دیتی ہے۔ اللہ کی کتاب قرآن مجید نے ساڑھے چودہ سو سال قبل آگاہ فرما دیا تھا: ملاحظہ ہو! ''ہم نے آسمان کو (اپنے‘ ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم اسے متواتر وسعت دیتے چلے جا رہے ہیں‘‘ (الذاریات:47) اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اسی طرح ہیں جو اس کی شان کے لائق ہے۔ کیفیت کا بیان نادانی ہے‘ چونکہ سمجھانا انسان کو ہے‘ لہٰذا اس میں انتہائی مضبوط کا معنی پایا جاتا ہے۔ دوسری بات وسعت ہے یعنی جس بات پر آج کے تمام سائنسدان حیران ہو رہے ہیں۔ اس کا جواب قرآن دے رہا ہے کہ اے ڈیوڈ اور ڈیوڈ کے ساتھیو! حیرانی اور تعجب ختم کرو۔ مذکورہ دونوں کام کرنے والا اللہ ہے جو تمام انسانوں کا خالق ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں۔ دائود کو انگریزی میں ڈیوڈ کہا جاتا ہے۔ یعنی ڈیوڈ فج مین یہودی ہیں یا مسیحی ہیں وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ''ہم عنقریب ان لوگوں کو آفاق میں اور ان کی ذاتوں میں ایسے نشانات دکھاتے چلے جائیں گے حتیٰ کہ ان کے لیے واضح ہو جائے گا کہ بلا شبہ وہی (اللہ‘ اللہ کا قرآن‘ اللہ کا رسول) حق ہے۔ کیا تیرے رب کا ہر چیز سے واقف و با خبر ہونا کافی نہیں؟‘‘ (... السجدہ: 53)
قارئین کرام! یہاں یہ حقیقت بھی واضح اشارے کے ساتھ قرآن نے بیان فرما دی کہ جدید سائنسی ترقی غیر مسلم کریں گے۔ بطور خاص یہودی اور مسیحی کریں گے اور جب وہ نام کے مذہبی رہ جائیں گے اور الحادی بن جائیں گے تو ان کے سامنے ایسے حقائق آئیں گے کہ ان کو ماننا پڑے گا کہ ایک خالق ہے جو اس کائنات کو چلا رہا ہے اور جب وہی حقائق حضرت محمد کریمﷺپر نازل ہونے والے قرآن مجید میں حدیث شریف میں دیکھیں گے تو واضح ہو جائے گا کہ اللہ بھی حق ہے اس کا قرآن بھی حق ہے اور اس کے آخری رسولؐ بھی حق ہیں۔
قرآن میں ''آفاق‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کا واحد افق ہے۔ یعنی خلا میں ان کے رُخ اور ان کی سمتیں ہیں۔ جیسے زمین کے دو قطب ہیں۔ ایک قطب جنوبی ہے اور دوسرا قطب شمالی ہے۔ اسی طرح چار سمتیں مشرق‘ مغرب‘ شمال اور جنوب ہیں۔ یہ سب مقامی آفاق اور سمتیں ہیں۔ بڑے پیمانوں پر بات اور ہے۔ یعنی ایک گلیکسی میں اربوں کھربوں سورج ہیں۔ بعض سورج ہمارے سورج سے سینکڑوں‘ ہزاروں اور لاکھوں گنا بڑے ہیں۔ پھر ہر سورج کے کئی کئی سیارے ہیں۔ پھر ہر سیارے کے ایک ایک‘ دو دو چاند ہیں۔ یہ ایک گلیکسی کی بات ہے۔ گلیکسیاں کھربوں میں ہیں۔ ان کے جھرمٹ کو کلسٹر کہتے ہیں پھر اربوں کلسٹرز کا سپر کلسٹر ہے اور آگے یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ اس سطح پر مقامی سمتوں اور قطبوں کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہو جاتی ہے۔ پروفیسر ڈیوڈ اور ان کی ٹیم کہتی ہے:
Uniformity of physical properties in all directions in a body; Absence of all kinds of polarity in all directions.
ایک (کائناتی)جسم (سپرکلسٹر وغیرہ) کی تمام سمتوں میں کائناتی اجسام کی یکساں طور پر (صورتحال یہ ہے کہ )تمام سمتوں میں قطبی سمت کی تمام اقسام غائب ہیں۔ اللہ اللہ! پھر ان کی بڑے سکیل پر سمت کِدھر ہے؟ پروفیسر ڈیوڈ ہی بتاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو!
During the long process of expansion, the universe then evolved towards its present state. which is homogeneous and isotropic on large scales. in smiple terms: the cosmos looks the same everywhere.
''کائناتی پھیلائو کے ایک لمبے سلسلے کے دوران کائنات اپنی موجودہ شکل میں تیار ہو کر سامنے آئی جس کے تمام اعضا باہم مربوط مگر انتہائی منظم ہیں جبکہ طبیعاتی طور پر سب کا رخ اور سمت ایک ہے۔ (یہ ایک ہی جگہ پر اور ایک رخ ہیں) انتہائی بڑے پیمانوں پر۔۔۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں۔ ہر کہیں یہ کائناتیں ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں‘‘۔
قارئین کرام! قرآن میں اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں پہلے آسمان کو ''آسمانِ دنیا‘‘ کہا ہے اور فرمایا کہ اسے ہم نے چراغوں یعنی سورجوں‘ گلیکسیوں اور جھرمٹوں‘ بلیک ہولز وغیرہ سے مزیّن فرمایا۔ باقی چھ آسمان کیسے ہیں ان کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اب یہ جو آسمانِ دنیا ہے۔ اس کا کوئی ایک معمولی سا کنارہ ہمارے سائنسدانوں کی حبل سپیس دور بین اور چلّی وغیرہ کی زمینی دور بینوں نے دیکھا ہے اور اسی نے ہماری عقل کو گھما اور چکرا کر رکھ دیا ہے۔ آج کی سائنس ماننے پر مجبور ہو گئی ہے کہ سب کی ایک سمت ہے‘ ایک جگہ ہے اور یہ انتہائی مضبوط اور منظم ہے۔ اس بارے میں قرآن نے کیا کہا۔جی ہاں! اس کی سورت کا نام مُلک ہے یعنی کائناتی بادشاہت کس کے پاس ہے؟ یہ منظم نظام خود نہیں بلکہ اسے ایک چلانے والا چلا رہا ہے۔ سمت اسی کی طرف ہے‘ لہٰذا اپنی سمتوں کو اللہ کی طرف جھکائو اے سائنسدانو! ارشاد فرمایا! ''انتہائی بابرکت ہے وہ (اللہ) کہ جس کے ہاتھ میں حقیقی اور اصل حکمرانی ہے۔ اس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا فرمایا ہے تا کہ تمہاری آزمائش کرے کہ وہ کون ہے جو تم لوگوں میں سے اچھے عمل کرتا ہے۔ یاد رکھو! وہ اللہ سب پر غالب ہے (مگر توبہ کرنے والوں اور راہ راست پر آنے والوں کے لیے )غفور بھی بے انتہا ہے۔ اسی نے اوپر تلے سات آسمان بنائے ہیں۔ رحمان کی بنائی ہوئی (کائنات) میں تم کوئی کمی بیشی نہیں دیکھو گے۔ نگاہ کو پلٹا کر (دور بینوں کو بہتر سے بہترین کر کے) دیکھتے رہو۔ کیا تمہیں کسی طرح کے کٹے پھٹے مقام دکھائی دیتے ہیں؟ پھر بار بار نگاہ کو پلٹتے رہو۔ نظر(یعنی ہر نئی سے نئی دور بین) ناکام ہو کر واپس آ جائے گی اور وہ تھکی ماندی (یعنی پرانی اور ناکارہ ہو گی) (الملک:1 تا 4)
انسان کے لیے قرآن میں پیغام یہ ہے کہ تم سائنسی انکشافات کرتے کرتے جس مقام پر بھی ذرا ٹھہر کر سانس لینے لگو گے۔ ہر قدرت کے پیچھے اللہ ہی کا ہاتھ نظر آئے گا‘ لہٰذا اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز ہو جائو۔ یہ کائنات آخر کار تباہ ہونے والی ہے مگر یہ اسی وقت تباہ ہو گی جس اسے بنانے والا تباہ کرے گا۔ اسی کا نام قیامت ہے۔ قیامت سے پہلے اسے قائم رکھنے والا صرف اللہ ہے۔ ''آیت الکرسی‘‘ میں اس کی صفت ''القیوم‘‘ ہے یعنی وہی ہے جو کائنات اور اس میں موجود ہر مخلوق کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ جی ہاں! خالق کو مانے بغیر الحادی سائنسدان حیران و پریشان ہی رہیں گے۔ اسی حیرانی اور پریشانی میں مر جائیں گے تو نقصان سے دو چار ہو جائیں گے۔ آسمانی وسعت کی طرف بڑھنے والی ہر نظر گواہی دیتی ہے کہ خالق ایک اللہ ہے۔ سچی حکمرانی اسی کی ہے۔ وہ اونگھ‘ نیند اور تھکاوٹ سے پاک ہے وگرنہ یہ کائنات بننے کے اگلے ہی لمحے فنا کے گھاٹ اتر جاتی۔۔۔۔ پھر اسے اونگھنے‘ سونے اور سوچتے سوچتے تھک جانے والے انسانی دماغ! یہ بتلا کہ اپنے خالق کو نہ مان کر... خالی جگہ کا خلا چھوڑ کر دنیا سے جائے گا تو جونہی اپنے خالق کو سامنے پائے گا تو حسرت و افسوس کا کیا حال ہو گا؟