صحتمند تبدیلی کے لیے صحتمند رویے اور فیصلے از حد ضروری ہوتے ہیں۔ نہ صرف ضروری اور لازم بلکہ بعض اوقات ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام دینا انتہائی ضروری تھا کہ پاکستان کی فوج‘ جسے پاک فوج کہا جاتا ہے‘ کی پاکیزہ اور پوتر آئیڈیالوجی حسبِ سابق قائم و دائم ہے کہ وہ بائیس کروڑ پاکستانیوں کی فوج ہے۔ جب اہلِ پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے اس کے جوان خون دیتے ہیں تو جہاں وہ حضور نبی کریمﷺ کا کلمہ پڑھنے والے پاکستانیوں کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں، وہیں وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کا بھی دفاع کر رہے ہوتے ہیں‘ اس لیے کہ مسیحی بھی پاکستانی ہیں۔ ہمارے رحمۃ للعالمین آخری رسول اکرمﷺ نے سب کو حقوق دیے ہیں اور دنیا سے تشریف لے جانے سے قبل ان کے حقوق کی وصیّت فرمائی تھی۔ پاکستان میں جو سکھ رہتا ہے‘ وہ بابا گورو نانک جی کا پیروکار ہے تو پاک فوج اس کی بھی فوج ہے۔ ہندو رہتا ہے اور اپنے بھگوانوں کی پوجا کرتا ہے تو پاک فوج اس کی بھی فوج ہے۔ ملک میں مختلف سیاسی جماعتیں ہیں‘ جن کے اپنے اپنے سربراہ ہیں‘ پاک فوج سب سیاسی جماعتوں میں شامل لوگوں کی فوج ہے۔ دینی جماعتوں میں الگ الگ مسالک کی نمائندہ جماعتیں ہیں‘پاک فوج سب دینی مسالک کے لوگوں کی فوج ہے۔ اس کا نام پاک فوج ہے تو ہر گروہ کے لیڈر کو چاہیے کہ وہ اسے پاک فوج ہی رہنے دے۔ وہ اگر اپنے دھڑے کے لیے اس کی حمایت کا دعویٰ کرے گا تو پاک فوج کی پاکیزگی کو نقصان پہنچائے گا۔
کراچی میں محترمہ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اس پر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے کراچی کے کور کمانڈر کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنا دی، اس کی رپورٹ اب آ گئی ہے۔ دو حساس اداروں کے افسروں کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا، مزید کیس چلے گا۔ پاک فوج کے سربراہ نے اس حوالے سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ انہیں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری کا خراجِ تحسین قابل قدر ہے، خود احتسابی کا ایسا شفاف عمل ہر ادارے میں رواج پانا چاہیے۔ سیاست میں بھی یہ جمہوری رواج دیکھنے کو ملنا چاہیے،امریکا میں جوزف بائیڈن پہلے اپنی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر سے جیت کر صدارتی امیدوار بنے۔ مہذب جمہوری ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر ہماری جمہوری جماعتوں میں ایسے جمہوری ادارے ہوں تو سیاست دانوں کی قدر اور عزت بڑھے گی۔ فوج میں جس طرح سپاہی سے لیکر لیفٹیننٹ جنرل تک میرٹ ہوتا ہے‘ اسی طرح سول اداروں میں میرٹ آ جائے اور فوج کی طرز پر آ جائے تو ہمارا ملک کہاں سے کہاں چلا جائے۔ اہلِ پاکستان سمجھتے ہیں کہ حالیہ فیصلے کے بعد ہمیں اس طرف آنا چاہیے۔ یاد رہے! صحت مند تبدیلی کے لیے صحت مند رویے ضروری اور لازم ہیں۔
سائنسی طور پر دیکھیں تو میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ ہر انسان کا جسم ہر لمحہ نیا بن رہا ہوتا ہے۔ ہر سیکنڈ میں 100 ملین خلیے مرتے ہیں تو ہر سیکنڈ میں 100 ملین خلیے نئے بن جاتے ہیں۔ روزانہ یعنی ایک دن میں جسم کے 100 بال گرتے ہیں تو اتنے ہی نئے اُگ آتے ہیں۔ ہر پانچ دن کے بعد معدے کے خلیات نئے بن جاتے ہیں۔ ہر تین ہفتے کے بعد پھیپھڑوں کے خلیات نئے بن جاتے ہیں۔ جلد کا مکمل بیرونی حصہ ہر مہینے میں مکمل طور پر بدل جاتا ہے۔ خون کے سرخ خلیات مکمل شکل میں 4 ماہ میں بدل جاتے ہیں۔ ناخن ہر چھ ماہ بعد مکمل طور پر نئے ہوتے ہیں۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں جگر مکمل طور پر تبدیل ہو کر نیا ہو جاتا ہے۔ ہڈیوں کا مکمل نظام ہر دس سال بعد بدل جاتا ہے۔ پندرہ سال بعد تمام عضلات نئے ہوتے ہیں۔ دل کے خلیات میں ولادت سے وفات تک‘ پچاس فیصد تبدیلی ہوتی ہے۔ جسم کا وہ حصہ جو کبھی نہیں بدلتا وہ آنکھوں کے عدسے ہیں لہٰذا ان کا بہت خیال کرنا چاہیے۔ آنکھ دیکھے تو عدل سے دیکھے‘ انصاف کو ملحوظِ خاطر رکھے۔ اور جو بڑا ہے وہ کسی اثر و رسوخ والے کی وجہ سے کسی چھوٹے پر ظلم کی نگاہ سے نہ دیکھے۔ اللہ اللہ! ہمارے رب کریم نے اسی لیے آنکھ وہی رکھی‘ جو شروع سے ہو۔ کاش! ہر ایک کی آنکھ منصف آنکھ بن جائے۔ سائنسی طور پر ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کے خلیات کو مار مار کر زندہ کرتا ہے‘ وہ ایک دن زندہ کر کے عدل بھی کرے گا۔
ہر خلیہ وہی کرتا ہے جس کا اسے حکم دیا جاتا ہے۔ یہ حکم اس کے ڈی این اے یعنی ہیڈ کوارٹر کی طرف سے ملتا ہے لہٰذا کان کا خلیہ کان ہی بنائے گا، دل کا خلیہ دل ہی بنائے گا، جگر کا خلیہ جگر ہی بنائے گا۔ اگر خلیات ایک دوسرے کے اعضا میں گھس جائیں تو ماں کے شکم سے جو انسان برآمد ہو گا‘ وہ انسان نہیں ہو گا کوئی اورہی شے بن کر سامنے آئے گا۔ بعض عجیب الخلقت جاندار جو ہم دیکھتے ہیں‘ ان میں ایسے ہی مسائل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ منظر اس لیے دکھاتے ہیں کہ انسان اللہ سے ڈر کر سیدھے رہیں۔ اپنی حدود سے تجاوز کر کے دوسروں پر ظلم کا باعث نہ بنیں۔
ہماری موجودہ سیاسی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ اور پرابلم زبان سے نکلنے والے الفاظ کے تجاوز کا مسئلہ ہے۔ گیدڑ، بدمعاش، بھگوڑے، چھوٹے اور پھر جس طرح فرقہ پرست مولوی حضرات کُفر کے فتوے لگاتے ہیں‘اسی طرح انتہا پسند سیاستدان غدار، وطن دشمن اور مودی کے یار وغیرہ جیسے فتوے لگاتے ہیں۔ میں ایسے مذہبی اور سیاسی دانشوروں سے عرض کروں گا کہ وہ ''آئی ایس پی آر‘‘ سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ ایاز صادق صاحب نے قومی اسمبلی میں ایک بیان دیا‘ جو نہیں دینا چاہیے تھا مگر آئی ایس پی آر نے جناب ایاز صادق کا نام لیے بغیر انتہائی شائستگی کے ساتھ وضاحت کر دی۔ سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کو چاہیے کہ وہ ''آئی ایس پی آر‘‘ سے شائستگی سیکھیں۔ مہذب جمہوری دنیا میں حوصلہ اور برداشت اولین رویوں میں سرفہرست ہیں۔ بدقسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ پچھلے تین چار سالوں سے ہمارا گراف برداشت کے معاملے میں بہت گر چکا ہے۔ کراچی والے واقعے پر جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے جو نوٹس لیا ہے، میری دعا اور خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ اس واقعہ کو ایسی اساس بنا دیں کہ ہم واپس حوصلے، برداشت اور عفو و درگزر کے رویوں کی جانب پلٹنا شروع ہو جائیں۔ جنرل صاحب حوصلے، برداشت اور عاجزی کے حامل اللہ کے بندے ہیں۔ عزت اسی سے ملتی ہے۔ ان کے قریبی عزیز محترم نعیم گھمن صاحب نے ان کے بارے میں مذکورہ بات مجھے تب بتلائی تھی کہ جب میں نے ان کے بارے میں قریب ساڑھے تین سال قبل کالم لکھا تھا۔ اللہ کرے مذکورہ حقیقت موجودہ نوٹس کے بعد اس طرح سامنے آئے کہ تنقید کی جگہ خراجِ تحسین کا ماحول بن جائے۔
اللہ کی کتاب قرآن نے بتایا کہ جنت میں اہل جنت کو شراب کا جو جام دیا جائے گا، اس پر کستوری کی مہر لگی ہوگی۔ اسی لیے آخری اچھی بات کو ''ختامہ مسک‘‘ کہا جاتا ہے۔ میں اپنے کالم کا اختتام حضور رحمت دو عالمﷺ کے مبارک فرامین سے کرنے لگا ہوں کہ جن کو سامنے رکھنے سے حِلم اور حوصلہ پیدا ہوگا۔ فرمایا! ''جب تم (کسی کے بارے) گمان و قیاس کرنے لگو تو اس گمان پر یقین نہ کیا کرو اور جب (کسی کے بارے) حسد میں مبتلا ہو جائو تو ظلم پر نہ اترو‘‘۔ (ابن ماجہ: 3942، صحیح) یعنی تحقیق ضروری ہے، فوراً غیر محتاط زبان نہیں چلنی چاہیے اور حسد کو زبان کے ظلم، خصوصاً عمل کے ظلم میں تو بالکل نہیں ڈھلنا چاہیے۔ فرمایا: اے معاذؓ ! اپنی زبان کی حفاظت کرو، لوگ منہ کے بل زبانوں کی وجہ سے ہی (جہنم میں)پھینکے جائیں گے۔ (ترمذی: 2616، صحیح)
اللہ کے رسولﷺ حضرت کعبؓ کی عیادت کرنے ان کے گھر میں تشریف لے گئے تو آپؐ جب حضرت کعبؓ کے پاس گئے تو مخاطب کر کے فرمایا: کعب تجھے خوشخبری ہے (یعنی بیماری سے گناہ دور ہوتے ہیں، جنت ملتی ہے) اس پر حضرت کعبؓ کی والدہ نے بیٹے سے کہا، اے کعب! تجھے جنت ملنے پر مبارک ہو۔ حضورﷺ نے سنا تو فرمایا: یہ اللہ پر چڑھائی کرنے والی کون ہے؟ حضرت کعب نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ میری ماں ہے۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: شاید کعب نے کوئی بے مقصد بات کہی ہو یا کسی نے کوئی ایسی چیز مانگی ہو کہ اس کو دینے سے (کعب) کا کچھ نہ جاتا ہو مگر نہ دی ہو(اور یہ فعل جنت میں جانے کی راہ میں حائل ہو جائے)۔ (الصحیحہ : 3103)
اب یہاں حضورﷺ نے تین اصول بیان فرما دئیے:
1) بے شک یہ میرا صحابی ہے مگر اسے جنتی کہنا اور جنت کی خوشخبری دینا اللہ کے اختیار اور اللہ کی ملکیت جنت میں دخل اندازی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ پر چڑھائی ہے لہٰذا حسنِ ظن رکھا جا سکتا ہے کہ حضورﷺ کا صحابی ہے‘ جنت میں جائے گا (ان شاء اللہ)۔
2) بے مقصد بات پر بھی گرفت ہوگی۔ جواب دینا پڑے گا۔ جس کے خلاف ہے اس کو راضی کرنا پڑے گا۔ پھر ہی جنت میں جانا ممکن ہوگا۔ 3) کسی کی کوئی ضرورت ہو‘ مسئلہ ہو‘ کسی مصیبت میں ہواور حل کرنے والے کے لیے وہ معمولی بات ہو مگر وہ نظر انداز کر دے، انکار کر دے تو اس کا یہ عمل جنت میں جانے میں رکاوٹ بن جائے گا۔
آئیے! ہم سوچیں کہ ہم لوگ کس کھیت کی مولی ہیں کہ اتنے دلیر ہیں کہ کسی کے بارے میں کچھ سن کر نہ تحقیق کرتے ہیں اور نہ کسی سے پوچھنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں بلکہ زبان اور عمل کے ساتھ چڑھائی کر کے ظلم شروع کر دیتے ہیں‘ الزامات اور بہتانوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ ہمارا رویہ اور ہمارا نظام ایسا بن چکا ہے کہ کسی کے لیے سہولت کے بجائے مسائل کے پہاڑ کھڑے کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس دنیا میں بھی گرفت ہو سکتی ہے... اور مرنے کے بعد جنت میں کیسے جائیں گے؟