اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ فرماتے ہیں ''وہ بہترین دن کہ جس پر سورج طلوع ہوتا ہے‘ جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا گیا، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا اور اس روز ہی انہیں جنت سے زمین پر اتارا گیا‘‘ (مسلم: 1410)۔ قارئین کرام! آج جمعۃ المبارک کا دن ہے۔ حسنِ اتفاق ہے کہ 21 ویں صدی کے 21 ویں سال کا آج پہلا دن ہے، یعنی شمسی سال کا آغاز جمعہ کے دن سے ہوا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے آگاہ فرمایا: ''اے تمام انسانو! آگاہ ہو جائو‘ بلا شبہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے‘‘۔ (مسند احمد: 23550، صحیح) حضرت حوّا علیہا السلام حضرت آدم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ ہیں اور تمام انسانیت کی امّاں جان۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں واضح فرماتے ہیں : ''ہم نے انسان کی تخلیق کا آغاز مٹی سے کیا اور پھر اس کی نسل کو ایک ادنیٰ سے پانی کے خلاصہ سے چلا دیا‘‘ (السجدہ: 807) جی ہاں! یہ پانی انسان کی پشت میں ہے۔ قیامت تک آنے والی ساری انسانیت حضرت آدم علیہ السلام کی پشت میں موجود تھی۔ موجودہ دور میں ''ڈی این اے‘‘ اور اس کے اندر وراثتی نظام نے بتا دیا کہ ہر انسان اپنے سے پہلے گزرے ہوئے آبائو اجداد کے وراثتی نظام سے ہی دنیا میں آیا ہے اور یہ اسی وراثتی نظام کو آگے منتقل کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح روحیں وجود میں آ کر عالم ِارواح میں موجود ہیں‘ اسی طرح دنیا میں انسانوں کے مادی وجود بھی ایک بار سارے کے سارے ایک میدان میں اکٹھے ہوئے۔
جس طرح عالمِ ارواح میں سب روحوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے عہد کیا تھا کہ آپ ہمارے رب ہیں‘ اسی طرح زمین پر تمام انسانوں کے مادی وجود نے بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے عہد کیا تھا کہ آپ ہماے رب ہیں۔ زمین پر یہ میدان کون سا تھا؟ آئیے! اُس میدان میں چلتے ہیں اور جو لے کر جا رہے ہیں اور اس میدان کا تعارف کروا رہے ہیں‘ وہ امام جمال الدین المعروف ابن منظو ر ہیں۔ جنہوں نے ''لسان العرب‘‘ لکھی۔ امام جمال الدین صحابیِٔ رسول حضرت رویفعؓ بن ثابت خزرجی کی اولاد سے ہیں۔
حضرت رویفعؓ بن ثابت 46 ھ میں طرابلس (لیبیا) کے گورنر تھے۔ 54ھ میں وصال فرمایا۔ ان کی اولاد میں چھٹی پشت پر محمد بن منظورؒ تھے۔ یہ سب گورنر رہے‘ اس کے بعد متعدد پشتوں کے بعد امام جمال الدین 620 ھ نومبر 1222ء میں قاہرہ (مصر) میں پیدا ہوئے۔ یہ 90 سال کی عمر میں قاہرہ میں فوت ہوئے۔انہوں نے بہت ساری کتابیں لکھیں‘ شہرہ آفاق کتاب ''لسان العرب‘‘ ہے۔ ان کے جدّ امجد حضرت رویفعؓ بن ثابت انساب کے ماہر تھے۔ عرب انساب کا ماہر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عرب تاریخ کے علامہ تھے۔ حضرت رویفعؓ کی اولاد میں سے امام جمال الدین کتاب و سنت کے علامہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ، جغرافیہ اور زبان کے بھی عالم بن کر تاریخ میں جگمگائے۔ وہ ''لسان العرب‘‘ میں مادی انسانی وجود کو ایک ایسے میدان میں جمع ہونے کے دلائل لاتے ہیں جو عرب میں واقع ہے۔ فرماتے ہیں کہ ''نَعْمَان (''ن‘‘ پر زبر کے ساتھ) ایک ایسا پہاڑ ہے جو مکّہ اور طائف کے درمیان ہے‘‘۔ مزید فرماتے ہیں یہ ''عرفہ‘‘ یا ''عرفات‘‘ کے قریب واقع ہے۔ ''نَعْمَان‘‘ دو ہیں، جنہیں ''نَعْمَانَان‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان میں سے پہلے نَعْمَان کا نام ''نَعْمَانِ اکبر‘‘ ہے۔ اور یہ وادیٔ عرفہ میں ہے۔ دوسرا نَعْمَان ''نَعْمَانِ غَرقَدْ‘‘ ہے۔ اور یہ مدینہ منورہ میں ہے۔ اسے ''نَعْمَان اصغر‘‘ یعنی چھوٹا نَعمان بھی کہا جاتا ہے۔ تمام انسانوں سے جو عہد لیا گیا وہ بڑے نَعْمَان میں لیا گیا۔ حدیث شریف میں ہے:حضرت عبداللہؓ بن عباس بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت میں موجود تمام اولاد سے عہد لیا تھا۔ یہ عہد نَعْمَان کے میدان میں لیا تھا جو عرفہ کا میدان ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی صُلب (پشت) سے تمام اولاد کو نکال لیا۔ وہ اولاد کہ جسے (قیامت تک) پیدا فرمانا تھا۔ اس اولاد کو حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے ''کَالذَّرِّ‘‘ ذرّات جیسی چیونٹیوں کی مثل پھیلا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے گفتگو فرمائی اور پوچھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں! ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں‘‘ (مسند احمد: 2455۔ مستدرک حاکم، امام حاکم نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا اور امام ذھبی نے موافقت کی ہے)
جی ہاں! یہ عہد نَعْمَانِ اکبر یا نَعْمَان اراک میں ہوا‘ عرفہ کے روزہوا۔ اسی لیے حج کی تکمیل عرفہ کے دن کی حاضری کے ساتھ مشروط ہے۔ جو اس دن کی حاضری سے محروم رہ گیا‘ حضورﷺ کے فرمان کے مطابق‘ وہ حج سے محروم رہا۔ یعنی حج کیا ہے؟ یہ دراصل تلبیہ یعنی لبیک کہتے ہوئے عرفات کے میدان میں حاضر ہو کر عرفہ کا وقوف ہے۔ یہاں کیے ہوئے عہد کو مضبوط کرنے کا دن! قارئین کرام! اللہ کے رسولﷺ نے مندرجہ بالا حدیث ارشاد فرمانے کے بعد سورۂ اعراف کی ان دو آیات کی تلاوت فرمائی جن میں ''عہدِ اَلست‘‘ کا تذکرہ ہے۔ اس حوالے سے آیت نمبر 172 اور 173 کے ترجمہ کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
قارئین کرام! آئیے اک لمبی علمی چھلانگ لگاتے ہیں اور انسانیت کے آغاز کا منظر ملاحظہ کرنے کے بعد انسانیت کے انجام کو ملاحظہ کرتے ہیں۔ آغاز سے بھی اللہ کے رسولﷺ آگاہ فرما رہے ہیں اور انجام سے باخبر بھی اللہ کے رسولﷺ ہی فرما رہے ہیں۔ حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے: حضور اکرمﷺ نے فرمایا: آگ (جہنم) میں موجود جو لوگ ہوں گے ان میں سے جس کو سب سے کم سزا مل رہی ہو گی‘ اللہ تعالیٰ اس سے مخاطب ہوں گے اور پوچھیں گے (اے میرے بندے!) اگر تو ساری دنیا اور اس میں موجود دولتوں کا مالک بن جائے تو کیا اس سزا کے عوض میں وہ دیدے گا؟ وہ عرض کرے گا: جی ہاں! اس پر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جب تم لوگ آدم علیہ السلام کی صُلب (پشت) میں تھے تو تب میں نے ایک آسان ترین خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ تم لوگ اس کو پورا کر دینا‘ وہ خواہش یہ تھی کہ تم لوگ شرک نہ کرنا اور میں تمہیں آگ میں داخل نہیں کروں گا‘‘۔ (بخاری: 3334، مسلم: 2805) جی ہاں! حضورﷺ کے فرمان سے واضح ہو گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام جب پیدا ہو چکے تھے تو ساری نسلِ انسانی ان کی صلب میں تھی؛ چنانچہ وہ وہاں سے نکلی۔ اپنے رب سے عہد کیا اور واپس صلبِ آدم علیہ السلام میں چلی گئی۔ وہیں سے پشت در پشت منتقل ہوتی ہوئی اپنے اپنے وقت پر ان میں سے ہر قوم اور ہر انسان زمین پر آتا چلا گیا اور اپنا کردار ادا کر کے واپس جاتا رہا۔ حشر کے بعد عہدِ توحید کو پورا کرنے والا فردوس کا وارث بن گیا اور عہد کو پامال کرنے والا جہنم کا ایندھن بن گیا۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ پوری انسانیت کا زمین پر پہلا پڑائو عرفات کا میدان ہے۔ زمین پر پہلا وطن ''نَعْمَانِ اکبر‘‘ ہے۔ آخری زمانے میں نَعْمَانِ اکبر میں کیے گئے عہدِ توحید کی تفصیلات ''نَعْمَان اصغر‘‘ میں ملیں گی۔ اللہ اللہ! ہمارے حضور خاتم المرسلینﷺ کے مدینہ سے ملیں گی۔ حضورﷺ سے ملیں گی۔ ہمارے حضورﷺ کا مولد شریف مکہ ہے تو روضہ مبارک مدینہ منورہ میں ہے۔ ساری انسانیت کے ہر فرد کے لیے حضورﷺ کا دامن تھامنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ قرآن اور حدیث کو دلوں کی بہار بنائے بغیر گزارہ نہیں اور سیرت و سنت کو گلے کا ہار اور ماتھے کا جھومر بنائے بغیر کہیں کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔ میرا وطن عزیز ''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے نعرے اور عقیدے پر ہی تو معرضِ وجود میں آیا تھا۔ حالیہ حکمرانوں نے ''ریاست مدینہ‘‘ کا نعرہ لگایا تو دل باغ باغ ہوا۔ تصور کے اسی باغ کی ڈالی پر میں بھی بیٹھا اور چہچہاتے ہوئے جو بولیاں بولیں‘ وہ کالم بن کر میرے اخبار ''دنیا‘‘ کے قرطاس پر نمودار ہوئیں۔ مجھ عاجز کے پاس تو بس ایک ہی دولت ہے اور وہ درخواست کی دولت ہے۔ حالات کیسے بھی ہوں ایک صحافی اور مولوی کو اپنی دولت سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے‘ دلیل کے ساتھ دعوت و صحافت کے کام کو جاری رہنا چاہیے۔ درخواست یہ ہے کہ آپ حکمرانوں کے دور میں مدینے کی حکمرانی کی کوئی جھلک نظر نہ آئی تو 22 کروڑ درخواستیں جب سرکارِ مدینہﷺ کے جبّار و قہّار رب کے دربار میں جائیں گی تو جواب کیا ہوگا؟ میری ہمدردی یہ ہے کہ آپ لاجواب نہ ہوں۔ آئیے! نئے سال میں نیا عزم کریں۔ تجربہ کار اور اہل لوگوں کا میرٹ بنائیں۔ پاکستان میں استحکام لے کر آئیں۔ دہشت گردی کے ابھار کو کوئی موقع نہ دیں۔ بیورو کریسی میں اصلاحات کا ضابطہ منظور اور لاگو ہوا ہے‘ ہر محکمے کو اس کی اصلاحات دیں۔ خواہش ہے میرے ملک کی حکمرانی پوری دنیا میں نئے سال میں امن کے تحفے بانٹے۔ پاکستان: زندہ باد!