حضرت ابو ہریرہؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرما دیا تو ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا چنانچہ ان کی پشت سے ان کی وہ ساری اولاد کہ جس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تک پیدا فرمانے والا تھا‘ اس اولاد کا ہر نَسَمَہ (انسان) باہر آ گیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے اولاد میں سے ہر انسان کی دو آنکھوں کے درمیان نور کی ایک چمک رکھ دی۔ پھر ان سب کو حضرت آدمؑ کے سامنے پیش کر دیا۔حضرت آدمؑ نے پوچھا: میرے رب! یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا! یہ تیری اولاد ہے۔(ترمذی : 3076، صحیح) قارئین کرام! امام محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ مذکورہ حدیث کو ''کتاب تفسیر القرآن‘‘ میں لائے ہیں اور سورۃ الاعراف کی ''عہد ِالست‘‘ والی آیات کی شرح میں لائے ہیں۔ مذکورہ حدیث کو شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی حسن کہا ہے۔ سب سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس حدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے آدم علیہ السلام کی اولاد کے ہر فرد کے لیے جو ''نسمہ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے‘ اس کے بارے میں دیکھیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟
امام جمال الدین المعروف ابن منظور رحمہ اللہ ''لسان العرب‘‘ میں فرماتے ہیں: ہلکی ہوا کو ''نسیم‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ ایسی نرم اور ہلکی ہوتی ہے کہ وہ ''رِیْحٌ طَیِّبَۃٌ‘‘ یعنی پاکیزہ، صاف ستھری اور عمدہ ہوتی ہے۔ اس کے جو ہلکے ہلکے جھونکے ہوتے ہیں ‘ان میں لطافت ہوتی ہے اور استراحت کا پہلو بھی ہوتا ہے۔ اسی سے ''نسمہ‘‘ کا لفظ نکلا ہے۔ یہ روح نہیں ہوتا‘ البتہ ''ذُو رُوحٍ‘‘ یعنی روح والا ہوتا ہے، مطلب روح کے ساتھ اس کا رابطہ ہوتا ہے‘ تعلق ہوتا ہے، جیسا کہ معروف قدیم شاعر اغلب نے ایک شعر کہا، جس کی شرح میں عربی زبان کے علامہ ابومنصور کہتے ہیں کہ اپنے شعر میں اغلب نے انسانی جسم کو ہوا کی پھونک قرار دیتے ہوئے ''نسیم‘‘ کہا ہے، نفس کہا ہے۔ اسے روح نہیں کہا۔ یعنی وہی بات کہ ''نسمہ‘‘ کا تعلق تو روح کے ساتھ ہے مگر وہ بذاتِ خود روح نہیں۔ یوں سمجھئے کہ وہ لطیف ترین اور پاکیزہ ترین ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ جی ہاں! ہوا کے ایک شاندار جھونکے قسم کی کوئی لطیف ترین مگر مادی شے تھی جس میں کھربوں انسان عرفات کے میدان میں تھے۔ یہ کھربوں انسان جو عرفات کے میدان میں تھے‘ حضرت آدم علیہ السلام کی صلب (پشت) سے نکلے تھے۔
حدیث میں الفاظ ہیں: ''جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرما دیا تو اللہ نے ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کو انسانی ہاتھ یا مخلوق جیسا سمجھنا نادانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی ذہنی سطح کے مطابق سمجھانے کے لئے ایسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں؛ تاہم ہمیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کو ماننے پر ایمان رکھنا چاہیے لیکن یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اللہ کا ہاتھ اسی طرح کا ہے جو اس کی عظمت اور شان کے لائق ہے۔ وہ کیسا ہے، ہم نہیں جان سکتے۔ سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو کیسی تکریم عطا فرمائی کہ حضرت آدم علیہ السلام کی کمر کو ٹچ کیا اور ساری مخلوق پاکیزہ ترین ہوا کے ذرات کی صورت میں میدانِ عرفات میں جمع ہو گئی۔ اللہ کی توحید کا ان انسانوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب یعنی ہماری پرورش کرنے والا صرف اللہ ہی ہے۔ توحید کا یہ عقیدہ ایسا نورانی ہے کہ اقرار کرنے کے ساتھ ہی ہر انسان کی پیشانی نور کی ایک سفید مگر چمکدار دمک سے روشن ہو گئی۔ ہر انسان کا بچہ‘ بچی جب پیدا ہوتا ہے تو اسی عقیدے پر پیدا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے آگاہ فرمایا: ''ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے‘ وہ فطرت (توحید) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا مسیحی بنا دیتے ہیں یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘۔ (بخاری: 4738) جی ہاں! سچی، خالص اور کھری توحید وہ ہے جو حضور اکرمﷺ نے بتائی ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کا کلمہ پڑھے بغیر یہ نعمت نہیں مل سکتی۔
''آیتِ اَلَسْت‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے ''ذُرِّیَّاتِھِمْ‘‘ کا بھی لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ''ذُرّیّّۃ‘‘ اولاد کو کہا جاتا ہے۔ یہ ذُرّیّت ایسا جامع لفظ ہے کہ اولاد جب آدم علیہ السلام کی پشت میں ہو تب بھی ذریت ہے۔ وادیٔ عرفہ میں نمودار ہو تب بھی ذرّیت ہے۔ یہ ماں کے شکم میں ہو تب بھی ذرّیّت ہے اور جب یہ جوان اور بوڑھی ہو تب بھی ذرّیّت ہے۔ یعنی ہے ذریت مگر اس کی حالتیں مختلف ہیں۔
''ذرِّیّت‘‘ ذَرٌّ سے بھی ہے جس کا معنی انتہائی چھوٹی چیونٹیاں ہیں۔ اور ''ذَرَۃٌ‘‘ سے بھی جس کی جمع ذرّات ہے۔ ایٹم بم کو ''القُنْبلَۃُ الذَّرِیّہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب یہ پھٹتا ہے تو اس کی شعاعوں کو ہوائیں اڑا کر زمین پر پھیلا دیتی ہے۔ عربی میں ہے کہ ''اَلذَّرَّۃ‘‘ کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ امام جمال الدین ابن منظور ''لسان العرب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سورج کی ابتدائی شعائیں جب روشندان اور کھڑکی سے اندر آتی ہیں تو اس میں بے شمار ذرات نظر آتے ہیں‘ جو چمک رہے ہوتے ہیں۔ جی ہاں! ہر انسان کی صلب میں ایسے ہی بے شمار انسان ہوتے ہیں جنہوں نے مستقبل میں زمین پر آ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ ''جس شخص نے کسی ایک انسان کو قتل کیا‘ اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک جان کو (مارے جانے سے) بچا لیا اس نے گویا ساری انسانیت کو بچا لیا‘‘۔ (المائدہ:32)
سائنسی اعتبار سے دیکھیں تو ایک انسان میں 100 کھرب خلیات ہوتے ہیں۔ ان میں ہر خلیہ اس قابل ہوتا ہے کہ اس سے ایک انسان بن سکے۔ یعنی اگر اس خلیے کو شکمِ مادر جیسی سہولت مل جائے تو ایک انسان سے 100 کھرب انسان بن سکتے ہیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ انسانی خلیات کے ہر خلیے کے ڈھانچے میں وہی فاصلہ ہے جو نظام شمسی کے سیاروں کے درمیان خلا کا ہے۔ اس لحاظ سے اگر ایک انسان کے خلیات کے خلا کو ختم کر دیا جائے تو ''ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ میں شائع شدہ میڈیکل سائنس کا ایک مضمون بتاتا ہے کہ‘ ایک انسان کی جسامت صرف اتنی رہ جائے جس قدر کاغذ پر ایک نکتہ ڈال دیا جائے۔ جی ہاں! جب میں آج کے سائنسی حقائق کو پڑھتا ہوں تو اے قارئین کرام! ''سبحان اللہ‘‘ پکار اٹھتا ہوں، کہ مولا کریم نے آخری کتاب ایسی فصیح زبان میں نازل فرمائی کہ اس کے الفاظ ساڑھے چودہ سو سال قبل بھی لوگوں کی سمجھ میں آتے تھے اور آج جدید سائنس میں بھی اس کے الفاظ کی فصاحت لازوال ہے۔
قرآن کے آخری پارے میں ایک سورت ہے جس کا نام ''الطارق‘‘ ہے۔ اس کا معنی ایسے زور سے مارنا ہے جس سے آواز پیدا ہو۔ اسی سے ''مِطْرَقَۃٌ‘‘ ہے جس کا معنی ہتھوڑا ہے۔ رات کے وقت آنے والے کو بھی طارق کہتے ہیں کیونکہ وہ رات کے وقت دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''مجھے قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والے (طارق) کی۔ آپ کو کیا معلوم کہ وہ طارق کیا ہے؟ وہ چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ (الطارق: 1 تا 3) قارئین کرام! امریکا کے خلائی ادارے ''ناسا‘‘ نے ایک ستارے کی تصویر اور اس کی آواز ریکارڈ کی ہے۔ تصویر ہتھوڑے جیسی ہے اور آواز ایسی ہے کہ جیسے ہتھوڑا چل رہا ہے۔ اب اللہ کو معلوم ہے کہ طارق کا کردار کیسا ہے۔ حضرت محمد کریمﷺ پر یہ سورت نازل ہوتی ہے اور آج کی خلائی سائنس کو بتاتی ہے کہ حضرت محمد کریمﷺ کی رسالت کو مانے بغیر چارہ نہیں... اس کے بعد اسی سورت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''انسان پر فرض ہے کہ وہ تحقیق کرے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ اچھلتے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پشت اور پسلیوں کے درمیان سے نکلتا ہے‘‘۔ (الطارق: 6 تا 7)
قارئین کرام! نام نہا ملحد دانشوروں نے بڑے اعتراض کیے کہ دیکھیں جی! انسان کی پیدائش کے پانی کا بھلا پشت اور پسلیوں سے کیا تعلق ہے؟ قارئین کرام! 21ویں صدی کی ریسرچ‘ جو 17 فروری 2011ء کو ''سائنس ڈیلی‘‘ میں شائع ہوئی، 2014ء میں مزید آگے بڑھی اور 2020ء میں واضح ہو کر مزید اسٹیبلش (Establish)ہو گئی۔ اس نے بتا دیا کہ انسانی تخلیق کے مادے کی پروڈکشن کا تعلق ہڈیوں اور انسانی ڈھانچے کے ساتھ ہے اور یہ سسٹم صرف مرد حضرات میں ہے۔ سائنسدان ڈاکٹر گیررڈ کولمبیا یونیورسٹی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ متواتر 20 سال کی محنت کے بعد اس تحقیق کو دنیا کے سامنے لائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: یہ ایک سرپرائز ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب میڈیکل سنٹر کی سربراہی کے ساتھ ساتھ ''ڈیپارٹمنٹ آف جینیٹکس اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ کے بھی سربراہ ہیں۔ پشت میں انسان کے وراثتی نظام کے بھی ماہر ہیں۔ لوگو! کائنات کا مالک، عظیم خالق اور رب اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کو وحی کے ذریعے جو خلائی انکشاف فرماتا ہے، وہ بھی حق ہے اور زمین پر موجود حضرت انسان کی تخلیق سے متعلق عام رواج سے ہٹ کر جو حقیقت بتاتا ہے‘ وہ بھی حق ہے۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا موضوع پر مفصل ریسرچ آئندہ کسی کالم میں عرض کروں گا۔ پوری محنت کے ساتھ گزارشات پیش کروں گا (ان شاء اللہ تعالیٰ) تب تک کے لیے اللہ حافظ۔ حضور نبی کریمﷺ پر درود و سلام، لاتعداد اور بے شمار!