امریکہ کی خلائی مشین ''ویجر (Voyager)1‘‘ اور ''ویجر 2‘‘ دونوں خلا میں قریب نصف صدی کا سفر طے کر چکی ہیں، یہ نظام شمسی سے ہوتے ہوئے اب مِلکی وے گلیکسی کی وسعتوں میں محوِ سفر ہیں۔ کائنات کی وسعتوں کی جو وڈیوز انہوں نے ناسا کے زمینی مرکز میں ارسال کی ہیں، انہیں دیکھ کر انسانی عقل حیران ہے کہ خلا یعنی آسمان کی وسعتوں کی کوئی حد نہیں۔ ستاروں کی تعداد ایسے ہی ہے جیسے زمین پر ریت کے ذرّات، تصور کریں کہ انسان کتنے ذرات گننے کے قابل ہو سکتا ہے؟ آسمان میں بھلا ستاروں کا شمار کون کرے گا؟ کھربوں ستارے جس گلیکسی میں ہیں، ویسی گلیکسیاں اس قدر ہیں کہ ان کی گنتی نا ممکن ہے۔ پھر ان کی اقسام اس قدر لاتعداد ہیں کہ عقل سوائے حیرت کے‘ صرف کائنات کے خالق کی تعریف میں ''الحمدللہ‘‘، ''سبحان اللہ‘‘ کہنے کے ساتھ ''اللہ اکبر‘‘ ہی کہہ سکتی ہے‘مزید کچھ نہیں کر سکتی۔
ہماری زمین کے قریبی خلامیں ''حبل سپیس دوربین‘‘ نے خلا کی دوریوں میں جو دیکھا اس کا حاصل بھی وہی ہے جو ہم بیان کر چکے ہیں۔ چلی میں زمین پر نصب دنیا کی منفرد دور بین ہو یا دنیا کے دیگر علاقوں میں موجود دوربینیں‘سب کا حاصل وہی ہے جو ''حبل‘‘ کا ہے اور حبل (Hubble) سے دونوں ویجر بہت آگے ہیں جو زمین اور زمینی خلا کے بجائے Interstellar Space سے تصاویر بھیج رہی ہیں۔ سب اپنی زبانِ حال سے آسمان کی وسعتوں اور ستاروں، سیاروں، سیاروں کے چاندوں اور گلیکسیوں کی تعداد کے سامنے بے بسی کا اظہار کر رہی ہیں، حتیٰ کہ گلیکسیوں کے جھرمٹوں اور جھرمٹوں کے لاتعداد جھرمٹوں کے سامنے بھی بے بس ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ جھرمٹوں کے جھرمٹ (Clusters) اس طرح آگے ہی آگے جا رہے ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ اُدھر دونوں ویجر خلاکی وسعتوں میں گُم ہیں اور اِدھر آسمانی وسعت اور اجرامِ فلکی کی تعداد کے سامنے انسانی عقل گُم سُم سی ہو گئی ہے۔
سائنس اور سائنسدان کہتے ہیں کہ کائنات میں ''ڈارک مادہ‘‘ اور ''ڈارک انرجی‘‘ بھی ہے۔ ڈارک کا مطلب یہ نہیں کہ انرجی اور مادے کا رنگ سیاہ ہے بلکہ وہ ایسی چیزیں ہیں کہ انسان کی آنکھ‘ دوربین اور خورد بین سے انہیں دیکھ نہیں سکتی یعنی سائنس کی آنکھ اندھیرے میں ہے مگر دیگر شواہد سے یہ ڈارک انرجی اور مادہ ایک حقیقت معلوم ہوتی ہے اور اس غیبی حقیقت پر آج ساری سائنسی دنیا ایمان لے آئی ہے... مگر کیسی بد قسمتی ہے کہ اس کائنات اور اس میں حیران کن عجائبات کے خالق کو شواہد کی بنیاد پر ماننے کے لیے تیار نہیں۔
قارئین کرام! آگے بڑھتے ہیں۔ سائنسدان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ ڈارک انرجی اس قدر طاقت ور ہے کہ اس کی معمولی مقدار زمین پر موجود تمام انسانیت کی بجلی کی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔ اگرچہ کائنات میں وہ ہر طرف موجود ہے مگر قابو سے باہر ہے۔ اسی طرح کا معاملہ ڈارک میٹر (dark matter) کا ہے... مزید آگے بڑھتے ہیں تو سائنسدان کہتے ہیں کہ کائنات کی جس وسعت یا تعداد یعنی ''لاتعداد‘‘ کا ہم تذکرہ کر چکے‘ وہ کُل کائنات کا صرف پانچ فیصد ہے جبکہ ابھی نظر نہ آنے والی کائنات 95 فیصد ہے۔ سوچئے! جو کائنات نظر آنے والی ہے، وہ انتہائی بڑی ہونے کے باوجود ''ڈارک یونیورس‘‘ کے مقابلے میں اس قدر چھوٹی اور معمولی ہے کہ کُل کائنات میں صرف پانچ فیصد ہے۔
ساڑھے چودہ سو سال قبل آخری آسمانی کتاب قرآن مجید جو آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوئی‘ اس قرآن نے آگاہ فرمایا کہ آسمان سات ہیں اور وہ آسمان کہ جس کی وسعتوں میں ہماری زمین بھی موجود ہے‘ قرآن نے اس آسمان کو ''دنیاوی آسمان‘‘ قرار دیا۔ فرمایا ''بلاشبہ ہم نے دنیاوی آسمان کو (ستاروں کے) چراغوں کے ساتھ خوبصورت بنایا‘‘ (الملک:5) جی ہاں! سوچنے کی بات یہ ہے کہ باقی جو چھ آسمان ہیں‘ وہ کیا ہوں گے؟ اللہ اللہ! باقی یہ جو اتنی بڑی کائنات سائنسدانوں کو دکھائی دی ہے‘ وہ صرف پانچ فیصد ہے۔ یعنی وہ کل کائنات نہیں ہے اور وہ جتنی بھی ہے اس کا تعلق صرف اور صرف دنیاوی آسمان کے ساتھ ہے۔ سائنسدان مزید کہتے ہیں کہ ہم اس پانچ فیصد کائنات کا بھی صرف معمولی سا حصہ ہی دیکھ پائے ہیں، کیونکہ ہم پابند ہیں کہ اپنی لوکیشن کے اعتبار سے اتنا ہی دیکھیں۔ باقی کے دیدار کے لیے خلا میں مختلف لوکیشنز اپنانا پڑیں گی مگر ان کا حصول تاحال ناممکن ہے۔ اربوں، کھربوں سال تک بھی سائنسی خلائی ترقی جاری رہے تو بھی اسے دیکھنا ناممکن رہے گا۔ اللہ اللہ! اب پتا چلا کہ جسے ہم کائنات (universe) کہہ رہے ہیں، وہ تو بے چاری ایک صحرا میں ایک ریت کے ذرّے کے برابر بھی نہیں! اللہ اکبر! اللہ کتنا عظیم اور کتنا بڑا ہے۔ بس یہاں اللہ اکبر ہی کہہ سکتے ہیں۔
مکہ کے متکبر مشرک اللہ کے محبوب آخری رسولﷺ سے استہزا کرتے تھے، آپﷺ کو جادو گر، شاعر اور مجنوں کہہ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''(جو تم کہہ رہے ہو، فضول بک بک کر رہے ہو، تم خود بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ ایسی باتیں لغو اور بے بنیاد ہیں) چنانچہ ایسا بالکل بھی نہیں۔ میں (اللہ سبحانہٗ) قسم کھا کر کہتا ہوں ان چیزوں (مخلوقات) کی کہ جن کو تم دیکھ رہے ہو اور ان کی بھی کہ جن کو تم نہیں دیکھ پا رہے۔ بلا شبہ یہ (قرآن) عزت والے فرشتے(جبرئیل علیہ السلام) کا لایا ہوا پیغام اور اس کی زبان سے پہنچایا ہوا ہے۔ سنو! یہ کسی شاعر کا کلام نہیں۔ (الحاقہ: 38 تا 41) قرآن حکیم یقینا ایک الہامی کتاب ہے‘ جو قیامت تک رہنمائی کرتی رہے گی۔ ابھی تو ایک ڈارک انرجی ہے جو نظر نہیں آتی، ایک ڈارک مادہ ہے جو دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں تو بے شمار مخلوقات ہیں جو اے انسان! تجھے تیرے آلات بھی نہیں دکھا سکتے۔ اب تم روح کو‘ جو تمہارے اندر ہے‘ ماننے پر مجبور تو ہو مگر دیکھ نہیں سکتے۔ اپنے اندر نہیں جھانک سکتے، اپنے اندر کے اصل انسان کو دیکھنے سے قاصر ہو تو میں (اللہ) قسم کھا کر کہتا ہوں کہ قرآن بھی میری طرف سے نازل ہوا ہے اور جس پر نازل ہوا ہے وہ حضرت محمد کریمﷺ میرے ہی آخری رسول ہیں۔لوگو! اللہ تعالیٰ ایک اور قسم کھاتے ہیں۔ فرمایا: ''قسم ہے (کپڑے کی طرح) بُنے جانے والے آسمان کی‘‘۔ (الذّاریات: 7) لوگو! سائنس آسمان کو Space کہتی رہی یعنی یہ خالی ہے‘ خلا ہے‘ بالکل فارغ یعنی فراغ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اسے متعدد جگہ پر ''بِنَائً‘‘ کہا۔ یعنی یہ جو خلا تمہیں نظر آتا ہے‘ میں تمہیں نہ نظر آنے والے اس خلا کی قسم کھاتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ اسے بنایا گیا ہے‘ اس کی بُنتی کی گئی ہے اور اس کی بناوٹ اس کپڑے کی طرح ہے جس کا ''تاناپیٹا‘‘ ہوتا ہے۔
سب سے پہلے آئن سٹائن نے نظریۂ اضافت پیش کیا اور سپیس میں ٹائم اور انرجی کو شامل کر کے اس کی بُنت کو تسلیم کیا۔ پھر سٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب ''The Universe in a Nutshell‘‘ (کائنات ایک خول میں بند) کے صفحات پر جگہ جگہ خلا کے 'تانے پیٹے والے کپڑے‘ کی تصاویر بنا کر اس میں سورج، چاند کو رکھا اور دکھایا۔ اس طرح جیسے ایک پھیلی ہوئی چادر میں فٹ بال کو رکھ دیا جائے تو فٹ بال کی جگہ قدرے نیچے جھک جاتی ہے... مزید یہ کہ آج کی تازہ ترین ریسرچ نے خلا کو کپڑے کی بُنت کی مانند مان لیا ہے۔ صدقے قربان جائوں حضرت محمد کریمﷺ کی سچائی اور صدق پر کہ جو قرآن آپﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوا اور حدیث کی صورت میں جو فرمان جاری ہوا، وہی حق اور وہی سچ ہے۔ مجھے منظر یوں نظر آتا ہے کہ میرے حضورﷺ سات آسمان سے اوپر ''سدرۃ المنتہیٰ‘‘ پر موجود ہیں‘ آسمانِ دنیا میں ریت کے ذرّے سے کھربوں گنا چھوٹی سی زمین پر ادنیٰ ترین سی سائنس اپنی جس علمی حقیقت کا انکشاف کر کے اِتراتی ہے‘ اوپر سے صدا آتی ہے کہ ہم تو کائنات بننے سے پہلے ہی یہ علمی حقیقت لکھ چکے ہیں کہ یہ ہماری اس کتاب کا حصہ ہے جو آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کی قسمت میں ہے۔ لہٰذا سائنس جس قدر بھی آگے بڑھ جائے ''وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک‘‘... رفعت حضرت محمد کریمﷺ کے اسم گرامی اور سیرت پاک ہی کی ہے جن کی رسائی ''سدرۃ المنتہیٰ‘‘ تک ہے۔ حرمتِ رسولﷺ پر جان بھی قربان!