"AHC" (space) message & send to 7575

لمبی زندگی کی خواہش اور سائنس

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب آخری رسولﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا : ''حقیقت یہ ہے کہ (آپﷺ) کسی بھی طرح کی زندگی پر سب سے زیادہ لالچی ان (اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ) کو پائیں گے اور ان لوگوں کو پائیں گے جو (بت پرست) شرک کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔ ان میں سے (زیادہ تر) ہر ایک کی خواہش یہ ہے کہ اس کی عمر ہزار سال ہو جائے۔ حالانکہ ایسی عمر دے بھی دی جائے تو عذاب سے تو یہ نہیں بچ سکتے۔ جو یہ کر رہے ہیں، اللہ خوب دیکھ رہا ہے‘‘۔ (البقرہ: 96)
یاد رہے! مذکورہ آیت میں ''حَیَاۃِ‘‘ کے لفظ میں تنوین ''نکرہ‘‘ (یعنی کامن نائون) کی ہے جس کا مطلب ہے کسی بھی طرح اور کسی بھی قسم کی زندگی ہو‘ ملنی چاہیے۔ چنانچہ آج کے سائنسی دور میں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اہلِ کتاب اور مشرکین کے دونوں گروہ اربوں کھربوں ڈالر صرف کر رہے ہیں۔ دونوں گروہوں کی کوششیں دو سمتوں میں ہیں۔ پہلی سمت یا رخ یہ ہے کہ انسانی جین میں تبدیلیوں کے قابل ہو جائیں۔ پھر ''آر این اے‘‘ کے لاکھوں جینز میں ایسی تبدیلیوں کو اپنا سکیں، مثال کے طور پر آنکھوں کے جینز میں باز کی آنکھوں کے جینز کو فٹ کر دیں اور یوں آنکھیں میلوں پر پڑی ہوئی سوئی کو دیکھنے کے قابل ہو جائیں۔ قوت اور پھرتیلے پن میں چمپینزی وغیرہ کے جینز کا فائدہ اٹھا لیں۔ کرسپر ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی قد کو لمبا کر لیں۔ بڑھاپے کو روک دیں۔ عمر کو سینکڑوں سال کر لیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہود و نصاریٰ میں جو اچھے دیندار لوگ ہیں وہ ایسے تجربات کی مخالفت کرتے ہیں۔ قرآن نے ایسے تجربات کو شیطانی قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ''اللہ تعالیٰ کی اس شیطان پر لعنت ہے۔ اس نے (اللہ تعالیٰ کو چیلنج دیتے ہوئے) کہا تھا کہ میں ہر صورت تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے لوں گا۔ میں انہیں راستے سے بھٹکائوں گا۔ ان کو (لمبی زندگی وغیرہ) کی خواہشیں دلائوں گا۔ پھر میں انہیں حکم دوں گا تو یہ جانوروں کے کان کاٹیں گے۔ انہیں آرڈر کروں گا تو یہ ضرور بالضرور اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کریں گے۔ (اللہ نے فرمایا) جس نے شیطان کو دوست بنا لیا اور اللہ کو چھوڑ دیا تو واضح خسارے میں مبتلا ہو گیا۔ وہ ان سے وعدے کرتا ہے، ان کو امیدیں دلاتا ہے جبکہ شیطان ایسے لوگوں کو دھوکے کے سوا کچھ وعدے نہیں دے سکتا۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اس سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں پائیں گے‘‘۔ (النساء: 118 تا 121)
قارئین کرام! کرسپر ٹیکنالوجی پر ہم نے گزشتہ کالم میں لکھا کہ انسانیت کے بھلے کے لیے بیماریوں کا علاج اور اعضا کی اصلاح اور پیوندکاری تو مفید ہے مگر ایسے تجربات کہ جن سے انسانیت کا حلیہ بگڑ جائے اور رزلٹ بھیانک ہو جائے‘ وہ شیطانی کام ہے۔ اس سے انسانیت کا تحفظ ضروری ہے۔ چین میں انسانی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک بچے کی پالیسی اپنائی گئی۔ نتیجتاً مرد اور عورت کی تعداد کا توازن خراب ہو گیا۔ پالیسی بدلنا پڑی۔ انڈیا میں الٹرا سائونڈ سے بچے کا معلوم ہوا تو خوشی کی گئی۔ بچی کا پتا چلا تو اسے ضائع کروا دیا گیا۔ یوں وہاں لڑکیوں کی تعداد کم ہو گئی اور توازن خراب ہو گیا۔ جین ٹیکنالوجی کے ذریعے اگر ایسا کام شروع ہو گیا تو انسانیت عدم توازن کا شکار ہو کر تباہ ہو جائے گی۔ لمبی زندگی اور ایسے منصوبے تو شیطانی دھوکا ہی بنیں گے کہ مہربانی کے جذبات ختم کر کے ایسے مضبوط اور خونخوار لوگ بنائے جائیں جو جتھوں کی صورت غلبہ پال لیں اور باقی انسانیت کو چنگیز اور ہلاکو سے کہیں بڑھ کر درندگی کا شکار کر دیں۔ ایسی سوچیں شیطانی نہیں؟ قرآن نے ساڑھے چودہ سو سال قبل آگاہ کر دیا کہ اے انسانو! ایسی شیطانی امیدوں اور منصوبوں سے بچ کر رہو۔
دوسرا شیطانی منصوبہ مصنوعی ذہانت کا منصوبہ ہے۔ یاد رہے! آئی ٹی میں وہ ترقی جو انسانیت کے لیے فائدہ مند ہے‘ مبارک ہے۔ اس میں انسانیت کو آگے ہی بڑھنا چاہیے۔ مگر اس میں بھی اہم ترین جدوجہد لمبی زندگی کی ہے۔ یعنی جینز میں تبدیلی کے ذریعے سپر انسان والی زندگی حاصل کر بھی لی جائے تو وہ گوشت پوست ہی ہے، اسے حادثے کا شکار بھی ہونا ہے، موت کا شکار بھی بہر حال ہونا ہے تو کیوں نا انسانی دماغ کے سافٹ ویئر کو ایک چِپ میں منتقل کر لیا جائے۔ روبوٹک انسان کے سر میں جس انسان کے دماغ کی چپ ہو‘ اب وہ انتہا درجے کا سپر انسان ہو گا۔ وہ آسمانوں میں اڑے گا، دوسرے سیاروں میں جائے گا، وغیرہ وغیرہ... ایسے موضوعات پر فلمیں بنائی گئیں اور تجربات تو جاری ہی تھے مگر اس کا رزلٹ کیا سامنے آیا؟ ملاحظہ ہو!
انسان اپنے بنائے ہوئے روبوٹ میں جو فیڈ کر دے وہ مصنوعی ذہانت ہے مگر قدرتی ذہانت جیسی ذہانت یہ ہے کہ روبوٹ اپنی مرضی سے بولے۔ رزلٹ سامنے یہ آیا کہ روبوٹ صرف اتنا کہے ''میں فلاں کام کروں گا‘‘ یعنی چار یا انچ حروف پر مشتمل ایک جملے کی ادائیگی کے لیے اتنی بجلی صرف ہو گی جس قدر امریکہ میں تیس کروڑ انسان بجلی استعمال کرتے ہیں۔ پھر اس کے لیے اتنا بڑا کمپیوٹر بنانا پڑے گا کہ جو دنیا کا سب سے بڑا کمپیوٹر ہو گا اور اسے ایسی بلڈنگ میں رکھنا پڑے گا جو امریکہ کی موجودہ سب سے بڑی بلڈنگ سے ہزاروں گنا بڑی بلڈنگ ہو... اور اگر ایسا کر لیا جائے جو کہ تاحال نا ممکن ہے‘ تو پھر بھی نہیں کہہ سکتے کہ کامیابی یقینی ہو گی۔
قارئین کرام! اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری زمین پر اگر ایسے روبوٹ بنا لیے جائیں اور انسان جائیں کھڈے میں تو دنیا میں یہ روبوٹ ہی باقی رہ جائیں گے اور انسانوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو گی اور اس کے بعد اگر وہ بولیں گے بھی‘ سارے مل کر صرف ایک منٹ ہی بول لیں۔ اور اگر بنا بھی لیں اوروہ نہ بولیں تو جناب تجربات ناکام اور انسانیت کے وسائل کے زیاں اور بربادی کے علاوہ کچھ نہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے خوب فرمایا: ''(میرے پیارے رسولﷺ) انہیں کہہ دیں۔ تم کسی بھی قسم کے پتھر بن جائو یا لوہا بن جائو یا کوئی ایسی مخلوق بن جائو جو تمہارے سینوں میں بہت بڑی ہو (شیطانی کوششیں کرتے جائو۔ عبث امیدیں کرتے جائو۔ اللہ کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا) کہتے ہیں، ہمیں کون واپس دوبارہ پیدا کرے گا؟ کہہ دو! وہی کرے گا جس نے پہلی بار عدم سے پیدا کیا‘‘۔ (بنی اسرائیل: 50 تا 51) اللہ اللہ! میرے حضور آخری رسولﷺ پر جو قرآن نازل ہوا‘ اس نے آج کی سوچوں کو تمام جوابات دیے ہیں۔ لوگو! ہر انسان کا دماغ جو 20 واٹ کے بجلی کے بلب جتنی انرجی لیتا ہے، اس انرجی سے انسان فرفر بولتا چلا جاتا ہے، کتابیں لکھتا ہے، تقریریں کرتا ہے، حکمران بن کر فیصلے کرتا ہے۔ عالم، ادیب اور صحافی بنتا ہے۔ صرف 20 واٹ کی انرجی، اگر صرف ایک انسان کے زندگی بھر کے بولنے کے موجودہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے میرا اللہ کمپیوٹر بنائے تو ایک انسان اتنا بڑا ہو کہ لاکھوں زمینوں پر ایک انسان بمشکل سما سکے۔ اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی قدرت کو دیکھنے کے بعد بھی جو اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد کریمﷺ پر ایمان نہ لائے تو یہ اس کی بدقسمتی ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''ہم نے تم لوگوں کے درمیان موت کی تقدیر طے کر دی ہے۔ یاد رکھو! ہم پیچھے رہ جانے والے نہیں‘‘ (الواقعہ: 60) قارئین کرام! میں مذکورہ آیت پڑھتا تھا اور سوچتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا یعنی خالق کا اور اس کے پیدا کردہ بندے کا کیا مقابلہ ہے کہ مولا کریم نے ایسے الفاظ ارشاد فرمائے ہیں، مگر آج جب ''ڈی این اے‘‘ اور ''آر این اے‘‘ کے اندر جین ٹیکنالوجی کے حوالے سے انسان کے منصوبوں کو دیکھا اور آئی ٹی کے حوالے سے ''سپر مین‘‘ یعنی مشینی انسان کے منصوبے کو دیکھا تو فرعون یاد آیا جو اپنے آپ کو ''اعلیٰ رب‘‘ کہتا تھا تو بے ساختہ زبان سے نکلا کہ جدید سائنس کے نام پر ابھی فرعونی سوچ باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''بلا شبہ جس (موت اور قیامت) کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، وہ وقت آنے والا ہے اور تم (ہمیں) عاجز (و بے بس) نہیں کر سکتے‘‘ (الاحقاف: 22) ''تم ہمیں نہ زمین میں عاجز کر سکتے ہو نہ آسمان میں کر سکتے ہو‘‘ (العنکبوت: 22) جی ہاں! میں سوچتا تھا کہ بیچارے انسان کے مقابلے میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ایسا انداز کیوں اختیار کر رہے ہیں؟ آج کے انسان کی جب خواہشات اور منصوبے دیکھے تو بے ساختہ زبان سے نکلا کہ میرا رب تعالیٰ کا قرآن بھی حق ہے اور حضرت محمد کریمﷺ کی ختم نبوت بھی حق ہے... حضرت عبداللہؓ بن مسعود کہتے ہیں، حضورﷺ نے ایک مربع (چوکور) خط کھینچا۔ پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا۔ لکیر جو مربع (چوکور ڈبے) سے باہر نکلی ہوئی تھی۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں، حضورﷺ نے فرمایا: یہ انسان کی امید (خواہشات) ہیں جو (دور باہر تک گئی ہوئی ہیں) اور یہ اس کی موت ہے کہ انسان اسی حالت میں (خواہشات میں مگن) رہتا ہے کہ قریب والی لکیر (موت) اسے دبوچ لیتی ہے۔ (صحیح بخاری: 6417، 6418)
قارئین کرام! اللہ کا قرآن اور حضرت محمد کریمﷺ کا فرمان ہر انسان کو روشن ترین مستقبل کا نور دکھلاتا ہے کہ جسم مٹی میں مل جائے گا جبکہ اصل انسان پاکیزہ روح کی صورت میں ساتویں آسمان پر انتہائی عزت کے ساتھ فرشتوں کے ہمراہ جائے گی اور مومن اپنے رب کریم کا دیدار کرے گا۔ اے مولا کریم! ہمیں ایسے حقیقت پسند مومنوں میں سے کر دے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں