ڈاکٹر سٹیفن سی میئر (Stephen C. Meyer) اب 63 سال کے ہو چکے ہیں۔ وہ فلاسفی آف سائنس میں ''پی ایچ ڈی‘‘ ہیں۔ یہ ڈاکٹریٹ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے کی ہے۔ وہ جیوفزسٹ پروفیسر ہیں۔ اس وقت امریکا کے شہر ''سیٹل‘‘ میں ایک ادارے کے ڈائریکٹر ہیں جس کا نام ''ڈسکوری انسٹیٹیوٹ سنٹر فار سائنس اینڈ کلچر‘‘ ہے۔ ڈاکٹر سٹیفن نے چند سال پہلے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام رکھا تھا: Signature in the Cell: DNA and the Evidence for Intelligent Design۔ قارئین کرام! ڈاکٹر سٹیفن مذکورہ نام رکھ کر اپنی Bestseller کتاب میں دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسان کے ہر خلیے پر ایک خالق کے دستخط ہیں۔ انسانی جسم کھربوں خلیات سے مل کر بنا ہے‘ دماغ میں کھربوں نیورون اس کے علاوہ ہیں۔ دو نیورون کے باہمی رابطے سے جو کرنٹ بنتا ہے اس کی تعداد کھربوں سے بھی اوپر ناقابلِ شمار ہے۔ جسم کے ہر خلیے میں تمام جسم کے ہر عضو سے متعلق معلومات ہوتی ہیں۔ مذکورہ خلیے کے اندر ''ڈی این اے‘‘ کا کردار ہوتا ہے کہ ''آر این اے‘‘ کے ذریعے اسے کون سا عضو بنانا ہے۔ اب اس نے سارے جسم کی معلومات کو سامنے رکھ کر وہ عضو بنانا ہوتا ہے جو اس کے ذمے ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے تا کہ اعضا ڈبل نہ بن جائیں، کہیں غلطی نہ ہو جائے کہ جگر کی جگہ پر کوئی اور عضو بن جائے۔ کیسا زبردست نظام ہے کہ ایک خلیہ اتنا بڑا سپر کمپیوٹر ہے جو تمام جسم سے متعلق معلومات پر مبنی کھربوں کتابوں کا لمحہ بھر میں جائزہ لے کر اپنے کام کو آگے بڑھاتا ہے۔ جی ہاں! ڈاکٹر سٹیفن کہتے ہیں کہ ''ڈی این اے‘‘ کا کیمیائی سسٹم تو خود کچھ نہیں ہے۔ پھر کیا وہ اپنی طرف سے تمام ہدایات اور احکام صادر کرتا ہے؟ اس میں موجیں مارتا علمی سمندر اور ذہانت کہاں سے آئی ہے؟ یہ تو ایک Intelligent design ہے جس کے پیچھے ایک خالق کا ثبوت نظر آتا ہے جس نے یہاں ساری معلومات دی ہیں۔ اس نے یہاں اپنے دستخط کر دیے ہیں اور پھر اس کے حکم سے آگے انسانی جسم کی عمارت بنتی چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر سٹیفن کہتے ہیں: کمپیوٹر میں جب کوئی نیا کام کرنا ہو تو نئے سافٹ ویئر کی ضرورت ہوتی ہے، اسی سے ہدایات دی جاتی ہیں اور نیا کام معرضِ وجود میں آتا ہے۔ یہی معاملہ ''ڈی این اے‘‘ کا ہے کہ اعضا جو موجود نہیں ہوتے‘ ان کو نئی نئی اور تازہ بتازہ ہدایات ملتی چلی جاتی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ کیسے اور کہاں سے ملتی ہیں؟
حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والا قرآن مجید بتاتا ہے کہ ''(اے انسان) اپنے انتہائی بلند و بالا اس رب کی پاکیزگی بیان کرو کہ جس نے (تجھے اور ہر جاندار) کو پیدا فرمایا۔ ہر (عضو) کو بالکل درست بنایا۔ وہی تو ہے کہ جس نے (ہر ایک میں معلومات کا خزانہ بھر کر) تقدیر کا تعین کر دیا پھر (آگے کے کردار کے لیے) ہدایات جاری فرما دیں۔ (الاعلیٰ: 1 تا 3) قرآن کے دوسرے مقام پر فرمایا ''جس نے ہر شے کو اس کی تخلیق کا باکمال حسن عطا فرمایا‘‘۔ (السجدہ: 7) ڈاکٹر سٹیفن مزید کہتے ہیں کہ خلیے کی زبان اور ہدایات کو پڑھنے کے لیے دو دو حروف کے جوڑے فرض کر لئے گئے ہیں جو (G-C اور G-A) ہیں۔ یہاں ہر کلمہ 3 حروف سے بنتا ہے، مثال کے طور پر ( G-A-Aاور G-C-A وغیرہ وغیرہ)۔ یہ ہدایت ملتی جاتی ہے اور پروٹین بنتی جاتی ہیں، یعنی ایک عضو‘ جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا‘ اس کو وجود ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر جب ایک عضو مکمل ہو جاتا ہے تو سٹاپ (Stop) لگ جاتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلیے کو کیسے پتا چلا کہ بڑھتی ہوئی ایک شے کو ٹھیک وقت پر روک دینا ہے کہ اس سے اگر مذکورہ عضو آگے بڑھا تو اس کا سائز خراب ہو جائے گا، ڈیزائن برباد ہو جائے گا۔ جی ہاں! ثابت یہی ہوتا ہے کہ انتہائی ذہانت کے حامل ڈیزائن کے پیچھے ایک ہستی کا ثبوت ہے جو انتہائی ذہین اور طاقتور ہستی ہے۔ قارئین کرام! ڈاکٹر سٹیفن چارلس ڈارون کے مفروضے کو بھی اپنی تحقیق کی روشنی میں غلط کہتے ہیں کہ جس نے دعویٰ کیا تھا کہ انسان جانوروں سے نسل بعد نسل انسان بنا۔ وہ کہتے ہیں، زندگی ایک مکمل ڈیزائن اور ذہانت کے ساتھ شروع ہوئی ہے اور اس کے پیچھے خدا (GOD) ہے۔
8 فروری 2021ء کو معروف انگریزی جریدے ''سائنس ڈیلی‘‘ میں میڈیکل سائنسدانوں کی ایک ریسرچ سامنے آئی ہے جس میں انسانی خلیات کے اندر غور و فکر اور عمل کرنے کی صلاحیت کا پتا چلتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپس میں تعلق رکھتے ہیں، گفتگو کرتے ہیں اور بیماری و صحت وغیرہ کے بارے میں جو زیادہ مناسب ہوتا ہے‘ وہ فیصلہ کرتے ہیں۔ قارئین کرام! اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک مادی خلیے کے اندر مذکورہ صلاحیت اس روح کی وجہ سے ہے جو خالقِ کائنات کی جانب سے انسان میں پھونکی گئی ہے۔
ڈاکٹر سٹیفن کی ایک تازہ کتاب 30 مارچ 2021ء کو ریلیز ہو رہی ہے، ان کی پہلی کتاب نیویارک ٹائمز نے شائع کی تھی۔ مذکورہ کتاب بھی یہی ادارہ شائع کر رہا ہے‘ اس آنے والی کتاب کا عنوان ہے : Return of the God ۔ یعنی خدا کی واپسی۔ درحقیقت اس کتاب میں یہ بحث کی گئی ہے کہ یورپی افراد جو خدا پر ایمان رکھتے تھے‘ موجودہ سائنسی ترقی کے دور کے آغاز پر وہ ملحد ہو گئے تھے اور خدا کی ذات اور اس کے وجود کے انکاری ہو گئے تھے۔ آج بھی یورپی افراد کی بڑی تعداد اس سے انکاری ہے مگر سائنس جب اصل علمی مراحل میں داخل ہوئی تو سائنسی طور پر خدا کی ذات اور اس کے وجود کے شواہد سامنے آنا شروع ہو گئے اور بیشمار سائنسی حقیقتوں نے یہ ثابت کیا کہ ''کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے‘‘۔ یوں لوگوں کا اللہ پر ایمان کا عقیدہ واپس آنا شروع ہو گیا ہے۔ لوگو! یہ ہے 21 ویں صدی کی سائنسی حقیقت، سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نکھار پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان کا عقیدہ ٹھوس سائنسی بنیاد پر اپنے آپ کو منواتا چلا جائے گا۔ جو انکار کرے گا وہ ہٹ دھرمی، ضد، عناد اور جہالت کا ارتکاب کرے گا۔ اپنے آپ کو ملحد (Atheists) کہہ کر غیر علمی اور غیر سائنسی زندگی گزارے گا جو خلیات میں موجود ایمانی عقیدے کے بھی خلاف ہو گی۔
ڈاکٹر ایرک ہیڈن (Eric Hedin) بال سٹیٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سائنسدان ہیں۔ وہ فزکس میں ''پی ایچ ڈی‘‘ ہیں۔ فزکس کے تجربی پلازما میں سپیشلسٹ ہیں۔ ڈائیمنشل فزکس اور نینو الیکٹرونکس میں بھی سپیشلسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کائنات (فلکیات) میں اور زمین پر زندگی کو سائنس کی اپنی آنکھ سے دیکھتا ہوں تو اس کے پیچھے میری طرح جو بھی دیکھتا ہے: he sees evidens of an intelligent designer یعنی وہ ایک انتہائی ذہین و فطین ہستی کا ثبوت دیکھتا ہے۔ جی ہاں! جیسا کہ عرض کیا کہ اس ثبوت کا انکار ہی غیر علمی اور غیر سائنسی ہے۔ یہ رویہ ایسا غیر حقیقی ہے کہ جس کا حقیقت کے جہان میں کوئی وجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین پر زندگی کو دیکھا جائے یا آسمان میں موجود حقائق دیکھے جائیں‘ ہر جانب اور ہر سُو ایک خالقِ حقیقی کی موجودگی کا ثبوت ملے گا۔
آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل وہ کلام جو حضور ختم المرسلینﷺ پر نازل ہوا‘ اس میں کائنات کے خالق نے اپنے حبیب اور خلیل حضرت محمد کریمﷺ کے ذریعے اعلان کروایا کہ : ''عنقریب ہم ان لوگوں کو آفاق (فلکیات) میں ایسے (علمی اور سائنسی) نشانات دکھائیں گے اور ان کے جسموں میں بھی ایسے نشانات ملاحظہ کروائیں گے کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہی (اللہ) حق ہے۔ (اے میرے رسولﷺ) کیا تیرے رب کے ساتھ ہو کر یہ (علمی اور سائنسی حقیقت) کافی نہیں ہوگی کہ کسی شک و شبہے کے بغیر وہ اللہ ہر شے پر موجودہ دکھائی دیتا ہے۔ (حم السجدہ: 53) یعنی علمی اور سائنسی طور پر اس کے سائنسی ثبوت اور نشانات دکھائی دیتے ہیں۔ اسی بات کو ڈاکٹر سٹیفن نے Signature in the Cell میں بیان کیا ہے۔
ڈاکٹر نوران ایک عرب خاتون ہیں‘ بہت بڑی مذہبی سکالر ہیں۔ خلیات پر گفتگو کی ماہر خاتون سائنسدان ہیں۔ وہ عربی میں اسے التَّوقِیعْ فِی الخُلْیَۃ کہتی ہیں۔ جی ہاں! سورۃ الاعلیٰ میں اس کا انکشاف پہلے ہی کر دیا گیا ہے۔ آئیے! اپنے خلیات اور نیورونز کے اس خالق کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں اور تین بار ''سُبْحَانَ رَبِّیَ الَْاعْلٰی‘‘ پڑھ کر اپنے پالنہار مولا کریم کے سامنے دعا کریں کہ اے رب کریم! خلیات آپ کے حکم پر چلتے ہیں‘ ہم سب کو کورونا کے حملے سے اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھ کہ کووڈ 19 ہمارے خلیات کے حفاظتی حصار کو توڑ نہ سکے۔ اے مولا کریم! میرے وطن عزیز کے عوام اور تمام انسانیت پر رحم فرما۔ آمین!