اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے ایک دستور سے پوری انسانیت کو آگاہ فرمایا ہے کہ کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنا کوئی نبی اور رسول نہ بھیجا ہو۔ اب جس قوم نے اپنے نبی یا رسول کی دعوت کو تسلیم نہیں کیا‘ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے دوسرے اصول اور ضابطے سے بھی آگاہ اور با خبر فرمایا''ہم نے جس قوم (ملک، بستی) میں بھی کوئی نبی بھیجا (اسے نہ مانا گیا) تو ہم نے اسے ''باساء‘‘ اور ''صَرَّاء‘‘ میں مبتلا کر دیا۔ ایسا اس لیے کیا تا کہ لوگ آہ و زاری کریں (اور اپنے نبی کی تعلیمات کی طرف لپکیں) (الاعراف:94) یاد رہے! کاروبار، تجارت اور اموال میں خسارہ اور گھاٹا ہو جائے اور نتیجے میں قوم فقر و فاقے اور آخر کار قحط کا شکار ہو جائے تو اسے ''بآساء‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی جسم کو نقصان پہنچانے والی بیماری اور وبا کو ''ضرَّاء‘‘ کہا گیا ہے۔ باہمی لڑائیاں اور فتنہ و فساد سے بھی انسانی بدن کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ بھی ''ضراء‘‘ ہے۔ حضور کریمﷺ نے بیماری سے شفا کی جو دعا سکھائی ہے‘ اس دعا میں بیماری کو ''باس‘‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اسی کی جمع ''باساء‘‘ ہے۔ یعنی قرآن کے مندرجہ بالا دونوں الفاظ میں معنوں کا فرق بھی ہے اور دونوں الفاظ میں اشتراک بھی ہے یعنی دونوں میں بیماری کا معنی و مفہوم پایا جاتا ہے۔
قارئین کرام! کووڈ 19 یا کورونا وائرس کا آغاز نومبر 2019ء میں ہوا۔ وبائی مرض میں مبتلا ہوئے ڈیڑھ برس ہونے کو ہے‘ اس وقت ویکسین کی چند اقسام بھی مارکیٹ میں موجود ہیں مگر صورتحال یہ ہے کہ جہاں ان کے فائدے پر دو آرا نہیں وہاں یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ مذکورہ وبائی مرض اپنے آپ کو تبدیل کر کے نئی نئی اشکال اختیار کر رہا ہے لہٰذا جہاں نئے لوگ اب ایک بڑی تعداد میں اس کا شکار ہو رہے ہیں وہاں وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جو پہلے علاج سے اپنے اندر اینٹی باڈیز پیدا کر چکے تھے یا ویکسین لے چکے تھے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ کورونا نے اپنی شکل کو تبدیل کر لیا۔ البتہ مثبت بات یہ ہے کہ ویکسین لگنے کے بعد اگر مرض کا حملہ ہو جائے تو وہ شدید نہیں ہوتا لہٰذا ویکسین لگوانا اور ''ایس او پیز‘‘ یعنی پرہیز کرنا ضروری ہے؛ تاہم دنیا میں خوف کی یہ لہر بہرحال موجود ہے کہ کہیں کوئی ایسی نئی شکل سامنے نہ آ جائے کہ جس کا مقابلہ مشکل ترین ہو جائے یا کچھ عرصہ کے لیے نا ممکن ہو جائے اور یوں نیا علاج یا نئی ویکسین آنے تک انسانیت کا کافی نقصان ہو جائے۔
''تورات‘‘ میں حضور محمد کریمﷺ کے رسول ہونے کی ایک واضح دلیل اور پیشگوئی آج بھی موجود ہے جس میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کر کے آگاہ فرماتے ہیں کہ ''میں بنو اسرائیل کے بھائیوں میں تمہارے جیسا ایک رسول بھیجوں گا‘‘ اب اس میں کوئی شک نہیں کہ بنو اسرائیل کے بھائی بنو اسماعیل ہیں۔ اور بنو اسماعیل میں ایک ہی نبی اور رسول تشریف لائے ہیں اور وہ آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ ہیں۔ دونوں رسولوں میں مشابہت کا ایک پہلو یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات ملی‘ ان کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک قانون اور لاء کی کتاب یہی ہے۔ آج تک یہود کے علاوہ مسیحی بھی اپنے آپ کو قانون اور شریعت کے لحاظ سے تورات کے ہی پابند سمجھتے ہیں۔ حضورﷺ کو قرآن مجید کی صورت میں مکمل ضابطۂ حیات دیا گیا اور اب قیامت تک یہی ہے۔ مشابہت کی متعدد صورتوں میں سے دوسری صورت اپنی اپنی قوم کو کفر کی حکمرانی سے نجات دلانا ہے اور تیسری صورت دونوں کا حکمران بننا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ اسلام کا تذکرہ متعدد بار ہوا ہے اور ہر بار ایک نئے زاویے کے ساتھ ہوا اور بتایا یہ گیا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام مشکل سے نکلے تھے‘ اسی طرح اے حبیبﷺ! آپﷺ بھی موجودہ مشکل سے نکل کر اگلے بہتر دور میں داخل ہونے والے ہیں۔ آئیے! اب دیکھتے ہیں کہ جب بنو اسرائیل، فرعونی حکمرانی میں ظلم کے سائے تلے سسک رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرعون جیسے جابر و ظالم حکمران اور اس کی اشرافیہ کو راہِ راست پر لانے کے لیے کیا کیا تھا۔
قارئین کرام! آپ نے کالم کے آغاز میں ملاحظہ کر لیا ہے کہ جو اقوام اپنے رسولوں کی مخالف بن جائیں ان پر بیماریوں اور وبائوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتے اور روتے ہوئے اپنے راستے کو تبدیل کریں۔ اس کے بعد مذکورہ سورہ اعراف میں ہی اللہ تعالیٰ بتاتے ہیں کہ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے معجزات طلب کیے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے لاٹھی کا معجزہ اسے دکھایا جو اللہ کے حکم سے سانپ بن گئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہاتھ مبارک روشن لائٹ کی طرح چمکنے لگا۔فرعون نے اسے جادو کہا تو پھر جادوگروں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں جادوگر ہار گئے تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا۔ فرعون نے نئے مومنوں کو دردناک سزا دینے کا اعلان کیا تو وہ خوشی کے ساتھ شہادت کی موت سینے کے ساتھ لگانے کو تیار ہو گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی حکمران اشرافیہ اور قوم کو راہِ راست پر لانے کے لیے قحط سالی مسلط کر دی یعنی گندم کی فصل برباد ہو گئی جبکہ پھلوں کے باغات نے انتہائی کم پھل دیا۔ فرعونیوں نے اس سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا تو اللہ تعالیٰ واضح کرتے ہیں کہ ہم نے ان پر طوفان بھیجا‘یہ سیلابی طوفان تھا جو شدید بارشوں کی صورت میں پیدا ہوا تھا۔ فرعونیوں نے اب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کر دی اور وعدہ کیا کہ عذاب ٹل جائے تو ہم آپ کو رسول بھی مانیں گے اور بنو اسرائیل کی غلامی ختم کر کے ان کو مصر سے جانے بھی دیں گے۔ جب عذاب ختم ہوا تو فرعونی اپنے وعدے سے مکر گئے کیونکہ ہر طرف فصلوں اور باغوں میں پھلوں کی بہتات تھی۔ معاشی خوشحالی نے فرعونیوں کا دماغ خراب کر دیا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان پر ''جراد‘‘ یعنی ٹڈیوں کا عذاب بھیجا۔ اب پھر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی کہ اب کے وہ وعدہ پورا کریں گے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ''ٹڈی دل‘‘ کو ختم کر دیا۔ فرعونیوں نے فصلیں کاٹیں‘ سال بھر کا اناج محفوظ کیا اور دوبارہ اپنے وعدے سے پھر گئے۔ اب اللہ تعالیٰ نے ''قُمل‘‘ کا عذاب بھیجا یعنی جوئیں جو سب کو پڑ گئیں۔ سروں میں خارش کرتے رہتے اور جوئیں جھڑتی رہتیں‘ کم نہ ہوتیں۔ راتوں کو بستروں پر سوتے تو کھٹمل اور پِسُّو کاٹتے۔ ان کے مویشیوں کو چیچڑ اور چیچڑیاں چمٹ گئیں۔ لا محالہ وہ بیمار ہونے لگے‘ دودھ کم دینے لگے‘ غلے کو سسری وغیرہ لگ گئی۔ آٹا پسواتے تو یوں سمجھیے کہ 40 کلو گرام پر چار پانچ کلو گرام ہی آٹا مل پاتا۔ اب کے انہوں نے پھر مجبور ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور پھر سے وعدہ پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ جونہی راحت و آرام کا وقفہ آیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایفائے عہد یاد دلایا تو پھر وعدے سے منحرف ہو گئے۔ اب اللہ تعالیٰ نے مینڈکوں کا عذاب بھیج دیا۔ یہ ''الضفادع‘‘ اس کثرت کے ساتھ تھے کہ برتنوں میں اچھل کر جا پڑتے۔ کھانا شروع کرتے تو یہ ٹر ٹر کرتے چنگیروں اور پلیٹوں میں جا پڑتے۔ پھر بھی کوشش سے کوئی لقمہ منہ میں چلا جاتا تو چھوٹی سی مینڈکی ٹرٹراتے ہوئے منہ میں چھلانگ لگا کر گھس جاتی۔ بستروں پر مینڈک۔ فرش پر مینڈک، ''ابودائود‘‘ میں صحیح سند کے ساتھ حدیث ہے‘حضورﷺ نے فرمایا: مینڈک بولتا ہے تو اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ جی ہاں! وہ ذکر کرتا ہوا اللہ کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دیتا ہوا فرعونیوں کی زندگی کو اجیرن بنا رہا تھا کہ وہ بھی مینڈک کی طرح ایک اللہ کو ماننے والے بن جائیں مگر حسبِ معمول فرعونی سرکار پھر وعدہ کر کے مکر گئی۔اس بار اللہ تعالیٰ نے ''الدَّم‘‘ خون کا عذاب بھیج دیا۔ کھانے پینے کی جو چیز رکھتے وہ خون میں بدل جاتی۔ جوہڑ اور جھیلیں خون بن گئیں۔ نکسیر کی وبا بھی پھوٹ پڑی۔ فرعونیوں نے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور عذاب دور ہوتے ہی پھر وعدے سے منحرف ہو گئے۔ اب کے اللہ تعالیٰ نے عذابِ حتمی کا فیصلہ کیا اور اپنے رسول علیہ السلام کو حکم دیا کہ راتوں رات بنو اسرائیل کو لے کر نکل جائو۔ یہ اپنی فوجوں کے ساتھ تمہارا تعاقب کریں گے، اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون سمیت سب کو بحیرہ قلزم (Red sea) میں غرق کر دیا۔
قارئین کرام! رمضان کا مہینہ دراصل قرآن کی تلاوت اور قرآن پر عمل کا مہینہ ہے۔ حضورﷺ کے فرمان کے مطابق: سب نبیوں کو معجزات دیے گئے وہ ان کے زمانے تک محدود تھے، مجھے قرآن کا معجزہ دیا گیا‘ یہ قیامت تک ہے۔ جی ہاں! موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ انسان اور تمام جانداروں کی زندگیوں یعنی بیالوجی کے میدان میں ایسے حقائق سامنے آ چکے ہیں کہ ان میں سے جو چند حقائق قرآن نے بیان کیے ہیں تو امریکا، یورپ، چین اور جاپان کے سائنسی تحقیقی اداروں میں ثابت ہو گیا کہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے۔ فلکیات سے جو حقائق سامنے آئے، ان میں سے جو قرآن نے بیان کیے‘ اس پر بھی اہلِ علم دنگ رہ گئے۔ سائنسدان حیران رہ گئے، ماننا پڑا کہ قرآن حق ہے۔ الحمد للہ! ایسے بہت سارے کالم لکھ چکا ہوں۔ اس وقت ساری دنیا کے حکمران دعائیں تو کروا رہے ہیں‘ یہودیوں کے ربی سینیگاک میں، مسیحی برادری کے پوپ‘ پادری اپنے گرجوں میں، مسلمانوں کے علما اپنی مساجد میں، ہندوئوں کے گورو اور سادھو اپنے مندروں اور آشرموں میں، سکھ اپنے گوردواروں میں، بدھت مت کے مونک اپنے سٹوپائوں میں کہ کورونا سے خلاصی ملے... مگر‘ یارو!کون ہے جو انسانیت کی ہمدردی میں اپنے رویے کو مہربان خالق کی منشا سے ہم آہنگ کرے؟ سب سے بھاری اور اہم ذمہ داری مسلمانوں پر ہے کہ حق ان کے پاس ہے۔ محفوظ اورمعجزاتی قرآن اور حضرت محمد کریمﷺ کی لا جواب سیرت ان کے پاس ہے مگر عملی تعبیر کہاں ہے؟