اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ہر نیک کام ممکن ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ خاتونِ اول محترمہ بشریٰ بی بی نے لاہور میں ''شازلی صوفی ازم سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ریسرچ سنٹر‘‘ کا افتتاح کیا ہے۔ صوفی بزرگ سید علی شازلی کون تھے‘ ان کا تذکرہ ذرا بعد میں۔ سب سے پہلے ہم ایک تازہ ترین ریسرچ کی بات کریں گے جس میں سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ ایٹم کے ذرات باہم گفتگو کرتے ہیں۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ ساڑھے چودہ سو سال قبل حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والا قرآن اس کے بارے میں کیا رہنمائی فرماتا ہے۔ قارئین کرام! تازہ ترین ریسرچ 27 مئی 2021ء کو سامنے آئی ہے۔ یہ ریسرچ نیدر لینڈز کی ''ڈیلفٹ یونیورسٹی‘‘ نے پیش کی ہے۔ ''ڈچ ریسرچ کونسل‘‘ نے اس کے لیے سرمایہ فراہم کیا۔ چوٹی کے 9 عدد سائنسدانوں نے اس میں حصہ لیا۔ 1) لوکاس ایم، 2) ویلڈز مین، 3) لائیٹیٹیا فارن، 4) راسا ریجالی، 5) بروخو وِن، 6) جرمی گوبیل،7) ڈیوڈ کوفی، 8) مارکس ٹرنز، 9) الیگزینڈر اوٹے۔ معروف سائنسدان مارکس ٹرنز کا تعلق ''آچن یونیورسٹی اینڈ جیولیچ ریسرچ سنٹر‘‘ سے ہے۔ ان تمام سائنسدانوں نے کثیر سرمایے سے ایسی مشینیں تیار کیں جن سے ایٹم اور اس کے ذیلی ذرات کی گفتگو کو سنا جا سکے؛ چنانچہ یہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یاد رہے! ذرات کی دنیا کو ''کوانٹم سائنس‘‘ کہا جاتا ہے۔ سائنس کے اس میدان میں جب کامیابی ملی تو ریسرچ پیپر کو جو عنوان دیا گیا وہ یوں تھا: Scientists overhear two atoms chatting یعنی سائنسدانوں نے دو ایٹمی ذرات کی گفتگو کو سن لیا... اللہ اللہ! آج کے دور کا یہ انکشاف کہ دو ایٹم باہم گفتگو کرتے ہیں اور سائنسدان مشینوں کے ذریعے سن لیتے ہیں‘ بہت بڑا سائنسی انکشاف ہے۔ مگر یاد رہے! وہ صرف ان کی کھسر پھسر سنتے ہیں۔ وہ کیا کہہ رہے ہیں‘ یہ سن نہیں پائے جبکہ حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآنِ مجید نے ساڑھے چودہ سو سال قبل آگاہ کر دیا کہ یہ سب ذرات ''سبحان اللہ‘‘ کا ذکر اور ورد کرتے ہیں۔ قرآن کی پانچ سورتیں ایسی ہیں، جن کا آغاز ہی یہاں سے ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر شئے ''سبحان اللہ‘‘ کہہ رہی ہے۔ سب سے پہلی سورت ''الحدید‘‘ ہے۔ اس کی پہلی آیت کا ترجمہ یوں ہے۔ آسمانوں اور زمین میں جو بھی کوئی شئے ہے اس نے اللہ کی تسبیح بیان کی ہے۔ وہ ہر (شئے پر کامل طور پر) غالب اور حکمت والا ہے۔ سورۃ الحشر کا آغاز بھی اسی آیت کو دہرا کر کیا گیا ہے۔ سورۃ الصف کا آغاز بھی اسی آیت سے ہوا ہے۔ تینوں سورتوں میں آگے کا مضمون مختلف ہے۔ سورۃ جمعہ کا آغاز ''یُسَبَّحْ‘‘ کے لفظ سے ہوا ہے کہ اللہ ہی کی تسبیح کر رہی ہے اور کرتی رہے گی‘ ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ بھی زمین میں ہے۔ وہ پاک بادشاہ ہے۔ غالب حکمت والا ہے۔ ''سورۃ التغابن‘‘ کا آغاز بھی ''یُسَبِّحُ‘‘ کے لفظ سے ہوتا ہے۔ یاد رہے! اس لفظ میں زمانۂ حال اور مستقبل کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس میں تسلسل اور استمرار ہے، یعنی آسمانوں اور زمین کی ہر شئے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔۔۔۔ (یہ کائنات ختم ہو جائے گی تو تب بھی) اس کی بادشاہت اور حمد قائم رہے گی‘ وہ ہر شئے پر قادر ہے۔ ''سورۃ بنی اسرائیل‘‘ میں مزید واضح کیا کہ ساتوں آسمان اللہ کی تسبیح کرتے ہیں‘ زمین بھی اور جو کچھ ان میں ہے سب تسبیح کرتے ہیں۔ کوئی شئے (ایٹم اور ذیلی ذرات وغیرہ) ایسی نہیں ہے مگر اس کی تسبیح بیان کر رہی ہے لیکن بات یہ ہے کہ تم ان کے سبحان اللہ کہنے کو سمجھتے نہیں ہو۔ وہ اللہ حوصلے والا اور بخشنے والا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ تم ان کی کھسر پھسر سن سکتے ہو مگر وہ کیا کہتے ہیں، سن نہیں سکتے۔
ویلڈمین کہتے ہیں، ہم نے تو صرف دو ایٹموں کو استعمال کیا اور ان کی کھسر پھسر کو سنا لیکن جب یہ تین بولیں گے، دس بولیں گے یا ہزاروں بولیں گے تو ہم کیا کریں گے؟ کوئی سائنسدان بھی اس بارے پیشگوئی نہیں کر سکتا۔ قارئین کرام! طوالت کے ڈر سے انگریزی عبارت نہیں لکھ رہا وگرنہ ضرور لکھتا۔ سارے 9 سائنسدان کہتے ہیں کہ میٹریل کیسا رویہ اپناتا ہے، جب لا تعداد ایٹموں کے درمیان باہم گفتگو ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کو انتہائی شوق ہے کہ وہ ان کی گفتگو کو سنیں...جی ہاں! مگر مسئلہ یہی ہے کہ کہاں تک سنیں گے۔ لوگو! پاک اور سبحان ہے وہ اللہ کہ کائنات کے تمام مادی ذرات اور ذیلی ذرات کی تسبیح وہ سن رہا ہے، ان کے رویوں کو دیکھ رہا ہے۔ ان کی گفتگو کو سن رہا ہے۔ انہیں جو آرڈر دے رہا ہے وہ آگے پاس کر کے اس پر عمل کر رہے ہیں۔ صدقے قربان میں اپنے حضورﷺ کے قرآنِ حکیم پر کہ جس نے ساڑھے چودہ سو سال قبل اس بارے آگاہ کر دیا۔
سید علی بن عبداللہ شازلی ؒ کا سلسلۂ نسب حضرت حسنؓ سے ملتا ہے۔ وہ تیونس میں شازلہ گائوں میں 593ھ( 1196ء) میں پیدا ہوئے تھے۔ 63 سال کی عمر پائی۔ قرآن و حدیث کے عالم تھے، پھر تصوف کے رنگ میں رنگے گئے۔ مصر کے شہر اسکندریہ میں آئے، یہاں ان کا اپنا طریقہ شازلیہ لوگوں میں معروف ہوا۔ معروف سیاح ابن بطوطہ نے ان کی وفات کے بعد ان کے شاگرد یاقوت سے ملاقات کی تھی۔ شیخ یاقوت نے سینئر شاگرد شیخ ابو عباس کے حوالے سے ابن بطوطہ کو بتایا کہ وہ آخری حج کے لیے نکلے تو صحرئے ا عیذاب (یمن) میں نماز پڑھتے ہوئے سجدے کی حالت میں فوت ہو گئے اور وہیں مدفون ہوئے۔ امام ذھبی اپنی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں کہ وہ مسلک کے اعتبار سے مالکی تھے۔ انہوں نے مجدالدین اخمیمی، محی الدین بن سراقہ اور مجد الدین قنیشری کے ہمراہ فرانس کے بادشاہ لوئی نہم کے خلاف جہاد میں بھی حصہ لیا تھا۔ شیخ علی بن عبداللہ شازلی رحمہ اللہ کا رنگ گندمی تھا۔ جسمانی طور پر دبلے پتلے اور قد کے لمبے تھے۔ رخساروں پر گوشت اپنا حسن لیے ہوئے مناسب تھا۔ علم کی خاطر وہ عراق، مصر اور حجاز کے مسافر بنے۔ ان کا شازلی سلسلہ مصر، تیونس اور الجزائر میں معروف ہے۔ ہمارے دور میں الجزائر کے ایک صدر شازلی بن جدید ہو گزرے ہیں۔
خاتونِ اول کے بنائے ہوئے ''شازلی ریسرچ سنٹر‘‘ کے لیے گزارش یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسی لائبریریاں اور ریسرچ سنٹر کئی ایک ہیں‘ سب کی اپنی افادیت ہے مگر یہ روایتی ہیں۔ موجودہ سنٹر کو غیر روایتی طور پر آگے بڑھایا جائے۔ 1) علماء کا ایسا بورڈ بنایا جائے جو قرآن کی آفاقی اور اَنْفُسِی آیات کا ایسا ترجمہ کرے جو قرآنی آیات کا گزشتہ ساڑھے چودہ سو سالوں سے تقاضا ہے اور آج کی جدید سائنسی حقیقتوں کے انکشاف کے بعد ایسا ترجمہ امت کے علما کے ذمہ فرض ہے۔ 2) حدیث کی تمام کتابوں سے صحیح احادیث کا مجموعہ سعودی عرب میں ایک ہندوستانی نژاد عالم شیخ محمد ضیا الرحمن الاعظمی رحمہ اللہ کی 17 سالہ محنت کے بعد 20 جلدوں میں مرتب ہو چکا ہے وہاں سے ان صحیح احادیث کو لے کر کہ جن میں حضور نبی کریمﷺ کے فرمودات آج کی سائنسی حقیقتوں سے آگے ہیں‘ ان کا ایک مجموعہ مرتب کیا جائے۔ یہ حضور کریمﷺ کے فرمودات کا 21 ویں صدی میں ایک ایسا اعجاز ہو گا جو سائنسی اعتبار سے نبوتِ محمدیﷺ کی حقانیت کا شاہکار ہوگا۔ 3) امریکا، روس، یورپ، چین اور جاپان کی یونیورسٹیوں اور ریسرچ سنٹرز سے جو تحقیقات سامنے آئیں‘ ان پر عالمی سائنسی میگزینز اور نیٹ پر ریسرچ کے ریسرچرز کو دیکھیں جس ریسرچ میں قرآن و حدیث کی کسی تعلیم کی تائید ہو، اس پر ریسرچ کر کے اسے قرآن و حدیث کے تناظر میں بیان کیا جائے اور ایسی تحریروں اور انکشافات کو ایک ماہانہ سائنسی میگزین میں شائع کیا جائے جو اردو میں ہو۔ آگے چل کر وہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو۔ نیٹ پر زیادہ زبانوں میں شائع کرنا آسان ہوگا۔ 4) دنیا بھر میں علمی سطح پر یوں اسلام کی پُرامن، محبت آمیز، انسان دوست دعوت کو عام کیا جائے کہ جس میں خارجیت، انتہا پسندی اور تشدد کو مسترد کیا جائے۔ اس سے پاکستان اور اہلِ پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کا چہرہ اپنے حقیقی رنگ میں جلوہ گر ہو گا۔ 5) کتاب و سنت اور جدید سائنس کے ماہر علماء جیسا کہ عالمِ عرب میں علامہ راتب اندلسی، عبدالدائم شامی، پروفیسر زغلول النجار مصری، باسل الطائی، منصور کیالی، پروفیسر عمر عبدالکافی، انڈیا سے ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ایسے بہت سارے سکالرز کو یہاں بلا کر ان کے لیکچرز کروائے جائیں۔6) اہلِ علم کی تجاویز پر ریسرچ کے منصوبے بنائے جائیں۔ ہر منصوبے کی ریسرچ کا تخمینہ لگایا جائے۔ مطلوبہ رقم کے لیے اہلِ خیر سامنے آئیں گے؛ چنانچہ ادارے کی اپنی کی ہوئی تحقیقات کو دنیا میں پیش کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے لیبارٹریوں کی ضرورت پڑے گی تو جو ریسرچ پاکستان میں ممکن ہو، وہ پاکستان کی لیبارٹریوں میں کی جائے اور جو ریسرچ یہاں ممکن نہ ہو، وہ دنیا کی اعلیٰ ترین لیبارٹریوں میں کی جائے اور پھر اس کے نتائج دنیا کے سامنے رکھے جائیں۔ 7) مثال کے طور پر حضورﷺ کی گود مبارک میں ایک بچے نے پیشاب کیا تو محض چھینٹے مارنے پر اکتفا کیا گیا،اگر بچی پیشاب کرے اور وہ ہو بھی شیرخوار تو کپڑا دھونے کا حکم دیا گیاہے‘ اب دونوں کے پیشاب ٹیسٹ کیے جائیں کہ اس میں کیا حکمت پنہاں ہے؟ ہمارا ایمان ہے کہ اس میں کوئی میڈیکل پہلو ضرور موجود ہے مگر ہم ریسرچ کریں گے تو ہی یہ معلوم ہوگا... ایسی بہت ساری تجاویز ہیں۔ صرف ایک تجویز نمونے کے طور پر عرض کی ہے۔ جی ہاں! شازلی ریسرچ سنٹر اگر غیر روایتی ہوگا تو خوشبو سارے جہان میں پھیلے گی اور اگر دیگر روایتوں میں سے یہ بھی ایک روایت ہے تو ہم ایسی بہت سی روایتوں کو بہت دیکھ چکے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ اخلاص اور عمل کی نعمت میسر ہو۔