جوہر ٹائون لاہورایک ایسا رہائشی آبادی کا منصوبہ ہے جسے ''لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘‘ نے تعمیر کیا تھا اور یہ لاہور کی سب سے بڑی رہائشی سکیم ہے۔ اس آبادی کے ایک چھوٹے سے محلے کو ٹارگٹ کیا گیا اور بم دھماکا کر دیا گیا۔ گڑھا بھی زمین پر خاصا گہرا پڑا اور کئی گھر بھی تباہ ہوئے۔ معصوم بچے‘ خواتین شہید بھی ہوئے اور زخمی بھی۔ یہاں ایک پولیس مین کا کندھا ایسا زخمی ہوا کہ دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے کسی قسائی نے چھری کے ساتھ گوشت کاٹا ہو مگر قابلِ تحسین ہے اس اللہ کے شیر کا کردار کہ وہ آج بھی اپنی حفاظتی پوسٹ پر جرأت کے ساتھ بیٹھا ہے اور اپنی ذمہ داری ایسے ادا کر رہا ہے کہ جیسے اس کے کندھے کو کچھ ہوا ہی نہیں۔ وہ مطمئن چہرے کے ساتھ بیٹھا تھا، اس کے کندھے سے پولیس کا آہنی بیج نجانے کہاں گر گیا اور ننگی ہڈی کندھے کے گوشت اور خون سے سرخ دکھائی دے رہی تھی جو پولیس کی عزت کو چار چاند لگا گئی کہ سینے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب رسول گرامیﷺ کی محبت کی خوشبو اور ایمان کی تازگی لیے ہوئے ایسے بھی پولیس والے ہیں جو اللہ والے اور کردار کے غازی ہیں۔ یہاں جس شخصیت کو نشانہ بنایا گیا تھا وہ تو لاہور کی کیمپ جیل کے ایک سیل میں علم و تحقیق کا کام کرتے ہوئے قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر میں مشغول ہے۔ وہ شخصیت پروفیسر حافظ محمد سعید ہیں اور جہاں دشمن نے دھماکے کا منصوبہ بنایا وہاں تو صرف رہائشی مکانات ہیں، مسجد ہے اور بچوں کا ایک چھوٹا سا سکول ہے۔ یہ سادہ سی وہ حقیقت ہے جسے یہاں کے عام لوگ بخوبی جانتے ہیں۔ اس دھماکے کے مجرموں کی فوراً نشاندہی ہو گئی۔ دس کے دس مجرم گرفتار بھی ہو گئے۔ اس دہشت گردی کے پیچھے جس کسی کا ہاتھ تھا‘ وہ بھی بے نقاب ہو چکا ہے۔ پاکستان کے ازلی پڑوسی دشمن کی ایجنسی ''را‘‘ کے ساتھ رابطوں کے ثبوت بھی سامنے آ گئے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت ، فردوس عاشق اعوان اور آئی جی پولیس جناب انعام غنی کے ہمراہ پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ صرف چار دنوں کے اندر پولیس نے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے کہ پنجاب پولیس کا ایک سپاہی جوہر ٹائون میں اپنی پوسٹ پر بیٹھا ایک ناقابل فراموش کردار ادا کرتا ہے تو محکمے کے سربراہ جناب انعام غنی اور ان کی ٹیم محض چار دنوں میں قابلِ تحسین کردار ادا کرتے ہوئے تمام مجرموں کو گرفتار کر لیتی ہے۔ اس کردار پر یقینا اہلِ پاکستان نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا ہے کہ دہشت گردی کی لعنت پاکستان میں واپس نہیں آ سکتی۔ اکا دکا حادثہ ہوگا تو تمام کلبھوشنوں کو بھگتنا ہوگا۔ فللہ الحمد!
آج کی دنیا کو انسانی حقوق کی علمبردار اور مہذب دنیا کہا جاتا ہے مگر اسی دنیا کے ایسے لوگ بھی ہیں جو امن کی حالتوں میں شہری لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ گھٹیا فعل اور بد تہذیبی کی انتہا ہے۔ پھر اس میں گھروں کو نشانہ بنانا تو ایسی ظالمانہ دہشت گردی ہے کہ جسے درندگی کہنے سے درندوں کی بھی توہین ہوتی ہے۔ گھر اور گھر میں رہنے والے بچے اور خواتین سمیت بزرگ حضرات‘ کمزور لوگ ہیں۔ کمزوروں اور معصوموں پر حملے کہاں کی انسانیت اور کہاں کی بہادری ہے؟ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا‘ انہوں نے مکہ فتح کیا تو رہتی دنیا تک انسانی احترام کی ایک مثال قائم فرما دی۔ آپﷺ نے اُس گھر کو بھی عزت و تکریم سے نوازا کہ جس گھر کی خاتون نے احد کی جنگ میں فاتح مکہ کے چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا۔ جی ہاں! اس خاتون کا نام ہندہ تھا۔ اس کے شوہر کا نام ابو سفیان تھا جو مکہ کے سردار تھے اور اب مسلمان ہو کر حضرت ابوسفیانؓ ہو چکے تھے۔ حضورﷺ نے اعلان فرمایا کہ جو اس گھر میں داخل ہو گا‘ اس کے لیے امان ہے۔ ہندہ اپنے شوہر ابو سفیان کو کم عقلی کا طعنہ دے کر گرجنے لگی: بھلا تیرے گھر میں مکہ کے لوگ کیسے پورے آئیں گے؟ یہ بات فاتح مکہ حضور رحمت دوعالمﷺ کی مبارک سماعتوں تک پہنچی تو فرمایا: مکہ کے لوگ اپنے گھر کے دروازے اندر سے بند کر کے بیٹھ جائیں‘ ہر بند دروازے والے گھر کو امن و سلامتی کی گارنٹی ہے۔ اللہ اللہ! یہ ہے ہر ہر گھر کا تحفظ۔ جنگ کے دوران تحفظ، فتح کے بعد تحفظ، ہر چار دیواری کا تحفظ، اس چاردیواری میں حضورﷺ کو ستانے والوں اور جان کے دشمنوں کا تحفظ، ہر ایک کی عزت، جان اور مال کا تحفظ۔ صدقے اور قربان ایسے فاتح کی فتح پر کہ جنہوں نے انسانی تکریم کو اوجِ ثریا کا عروج بخشا۔
اس عروج کے عروج کا اور انسانی گھروں کی عزت و بلندی کی رفعت کا ایک اور منظر اہل عرب نے اس وقت دیکھا کہ جب انسانیت کے محسن اعظمﷺ نے اپنا مقبوضہ گھر بھی واپس نہ لیا۔ اپنے بابا جان حضرت عبداللہ ؓبن عبدالمطلب کا بنایا ہوا گھر بھی واپس نہ لیا۔ جس گھر کے ساتھ اماں جان حضرت بی بی آمنہؓ کے ساتھ بیتے ہوئے چھ سالوں کی یادیں وابستہ تھیں‘ اس مقبوضہ گھر کو دیکھا بھی نہیں۔ بس خیمہ لگا کر گزارہ کر لیا اور فاتح مکہﷺ جب واپس مدینہ منورہ کو روانہ ہوئے تو خیمے سے ہی روانہ ہوئے۔ اللہ کی قسم! انسانی گھروں کو تکریم دی تو حضرت رسول اکرمﷺ نے تکریم عطا فرمائی، جی ہاں! تہذیب وہ جو رسول کریمﷺ نے وضع کی۔
عربی زبان میں ''دار‘‘ گھر کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع ''دیار‘‘ ہے۔ اسی سے دائرہ کا لفظ ماخوذہے‘ یعنی بندہ جہاں بھی گھومے پھرے واپس اپنے ''دار‘‘ میں ہی آئے گا۔ قرآن نے ''سورہ بنی اسرائیل‘‘ کے آغاز میں یہودیوں کی بات کی ہے کہ جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو چھوڑ کر باہم ظلم اور سرکشی کا راستہ اختیار کر لیا تو بخت نصر کی صورت میں ایسی ظالم اور قاہر فوج ان پر مسلط ہوئی کہ یروشلم کو فتح کرتے ہوئے ''فجاسوا خلال الدیار‘‘ وہ گھروں میں گھس گئے۔ جی ہاں! جب چار دیواری پامال ہو گئی تو عزت، جان اور مال‘ سب کی حرمت پامال ہو گئی۔ ظالم بادشاہ ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ بم دھماکوں میں گھروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مسلمان ہو یا یہودی، مسیحی ہو یا ہندو، سکھ ہو یا بدھسٹ‘ حتیٰ کہ کوئی اپنے خالق کا منکر بھی ہو مگر گھر میں موجود لوگوں سمیت ہر گھر کو تحفظ کا پروانہ دیا ہے حضرت محمد کریمﷺ کی پاک سیرت نے۔ لہٰذا گھروں کی حرمت فلسطین میں پامال ہو‘ کشمیر میں برباد ہو یا کہیں اور اس کا قتل ہو‘ یہ قتل انسانی تہذیب کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
مدینہ منورہ میں حکمرانی اہلِ اسلام کی تھی۔ کئی انصار اور مہاجرین صحابہ کرامؓ کے پڑوسی یہودی، مسیحی اور مشرک تھے۔ مسلمان اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ جو جلیل القدر صحابی تھے، ان کے پڑوسی یہودی تھے، جب وہ گھر آتے اور کوئی خصوصی کھانا پکا ہوتا تو فرماتے: پڑوسیوں کو بھیجا ہے؟ جی ہاں! یہ تھی تعلیم حضرت محمد کریمﷺ کی کہ جس پر صحابہ کرامؓ عمل پیرا تھے۔ جس طرح مسلمان پڑوسی کے حقوق ہیں‘ اسی طرح غیر مسلم پڑوسی کے بھی حقوق ہیں۔ قرآن مجید میں گھر کے لیے ''بیت‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے ''رات کا آرام‘‘ یعنی انسان دن کو مصروف رہتے ہیں اور رات کو آرام کرتے ہیں تو اس آرام والی جگہ یعنی ''بیت‘‘ میں خلل اور ظلم روا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح قرآن مجید میں گھروں کے لیے ''مساکن‘‘ کا لفظ بھی آیا ہے۔ یہ تسکین سے ہے یعنی تہذیب، معاشرہ اور اس معاشرے کی حکمرانی ایسی مہذب ہو کہ کسی گھر کو اپنے لٹنے کا خوف دامن گیر نہ ہو۔ ہر گھر کے مکین کو یہ تسکین ہو کہ اس کے ''مسکن‘‘ یعنی گھر میں اس کی تسکین کو کوئی لٹیرا نہیں لوٹ سکتا۔ میری دعا ہے اپنے اللہ کے حضور کہ دنیا میں ہر انسان کا مسکن قابلِ تسکین ہو۔
وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے خواتین کو شرم و حیا کا حامل لباس پہننے کا مشورہ دیا تو خوب دیا۔ انہوں نے چین کے ساتھ دوستی اور اس دوستی کے سب سے بڑے سمبل سی پیک پر کوئی پریشر اور بیرونی سمجھوتا نہ کرنے کا دو ٹوک فیصلہ اور اعلان بھی کیا۔ یہ بھی خوب تر ہے۔ وہ پاکستان کو ''مدینہ کی ریاست‘‘ بنانے کا اعلان بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی خوب تر ہے! خوب تر اور خوب ترین حقیقت یہ ہے کہ اصل مدینہ کی جو ریاست تھی‘ حضور کریمﷺ نے اس کے حکمران کی حیثیت سے مجرموں کو سرعام سزا دی ہے۔ ہماری گزارش اور استدعا ہے کہ جوہر ٹائون کے معصوم لوگوں کے گھروں کو نشانہ بنانے والے جو دس مجرم پکڑے گئے ہیں‘ جو ابھی بہرحال ملزم ہیں اور عادلانہ عدالتی فیصلوں سے مجرم بنیں گے‘ ان کو سرعام سزا دی جائے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے اور سرعام سزا کا قانون بنا کر مذکورہ دس افراد سے اس کا نفاذ کیا جائے۔ اس سے ہم سب کا وطن عزیز پاکستان محفوظ ہوگا۔ سکیورٹی والوں پر جو حملے ہوتے رہے ہیں، وہ سب محفوظ ہوں گے۔ ہر گھر محفوظ ہوگا۔ ہماری گلیاں، بازار اور تجارتی مراکز محفوظ ہوں گے۔ دہشت گردی میں انسانی جانوں کا جو نقصان ہوتا ہے‘ اس کے بدلے میں قاتل دہشت گرد سرعام قتل ہوں گے تو ہماری جیلیں بوجھ سے بچیں گی۔ قتل کے علاوہ دیگر سرعام سزائیں یا جرمانے ہوں گے اور عمل درآمد فوراً ہو گا تو ایسے لوگوں کو جیلوں میں ایک ماہ سے زیادہ رکھنے کی اگر اجازت نہ ہو تو اس سے دو فائدے ہوں گے کہ پولیس اور جوڈیشری کا نظام تیز ہوگا اور جیلوں پر ہونے والا اربوں کا حکومتی خرچہ بچے گا۔ معاشرتی فوائد یہ ہوں گے کہ مجرم کے بے گناہ عزیز رشتہ دار، ماں باپ اور بیوی بچے رسوا نہ ہوں گے۔ مجرم کو سرعام سزا ملے گی تو باقی لوگ جرائم سے بچیں گے۔ الغرض ! ریاستِ مدینہ کا نقش ہم پاکستان میں قائم کر گئے‘ کہ جو ''ہنوز دلی دور است‘‘ کی طرح ہے‘ تو پاکستان امن کا حامل ملک بن جائے گا۔ امن اور خوشحالی کسی بھی گھر، معاشرے اور ملک کے دو سنہری اصول ہیں۔ دعا ہے کہ وزیراعظم عمران خان یہ کام کر جائیں‘ پھر اگلے دو سالوں کا رزلٹ بھی ہم دیکھ لیں گے۔