"AHC" (space) message & send to 7575

یومِ عرفہ اور عمرِ رواں

اللہ کے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ نے عرفات کے میدان کو ''نعمان‘‘ کا نام دیا ہے۔ اسی طرح جب اسے ''شقیقۃ النعمان‘‘ کہا جائے تو اس کے معنے ''گُلِ لالہ‘‘ کے ہوتے ہیں (ملخص مسند احمد: 2455، حسن لغیرہٖ) صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے حضور کریمﷺ نے فرمایا کہ ''ہرگز قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ عرب کی سر زمین پہلی حالت پر سر سبز اور دریائوں والی نہ ہو جائے‘‘ (مسلم:2339)۔ قارئین کرام! ثابت ہوا کہ عرفات کا میدان اپنے آغاز میں اس وقت سرسبز تھا جب یہاں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ذرات کی مانند حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے نکالا اور عرفات میں انہیں جمع کر کے پوچھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سب نے اقرار اور عہد کیا کہ اے اللہ کریم آپ ہی ہمارے رب ہیں تو اس وقت عرفات کے میدان میں سبزہ بھی تھا اور گلِ لالہ جیسے پھول بھی تھے اور جب سبزہ اور پھولوں کی بہار تھی تو آبشاریں، جھرنے اور چشمے بھی تھے۔ چشموں کا پانی نالوں کی صورت میں رواں تھا۔ درختوں پر پرندے بھی اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے۔ ایسے شاندار ماحول میں اللہ کے ساتھ اس کے بندوں نے عہدِ توحید باندھا۔ اس عہد کی تفصیل مسند احمد کی مندرجہ بالا حدیث میں موجود ہے جس کا حوالہ دے کر تذکرہ کر چکے۔ آج اگر یہ میدان خشک اور پتھریلا ہے تو کیا ہوا‘ ایک وقت تھا جب ہم سب یہاں جمع تھے تو گل و گلزار میں جمع تھے۔ قیامت کے قریب یہ علاقہ ہی نہیں بلکہ سارا عرب دوبارہ گل و گلزار بن جائے گا۔ ''نیشنل جیوگرافک‘‘ میں جیالوجی کے ماہرین اپنے تجربات سے رپورٹ نشر کر چکے ہیں کہ یہ علاقہ گل و گلزار تھا اور مستقبل میں بھی ایسا گل و گلزار بننے کے حالات بنتے جا رہے ہیں۔ سبحان اللہ! صدقے قربان جائوں حضورﷺ کی ختم نبوت پر کہ نبوت بھی کامل صادق اور یہ بھی ثابت کہ پیشگوئی بھی کامل صادق۔ اور ایسی پیشگوئی کہ جو قیامت تک ہے جیسے حضور کریمﷺ کی نبوت و رسالت تا قیامت ہے۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے 400 صفحات پر مشتمل سوانح عمری لکھی ہے۔ اپنی مذکورہ کتاب کا نام انہوں نے ''عمرِ رواں‘‘ رکھا ہے یعنی وہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں 72 سال کا ہو چکا ہوں اور 72 سالوں کو انہوں نے ''عمرِ رواں‘‘ میں بند کر دیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے ایک اقتباس کو ''عمرِ رواں‘‘ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ویسے پراچہ صاحب کی عمر کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا جب وہ ایک ذرے کی صورت میں عرفات کے میدان میں موجود تھے۔ وہاں ساری انسانیت موجود تھی‘ راقم بھی موجود تھا۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ عرفات کے میدان میں پراچہ صاحب کے ساتھ میری ملاقات ہوئی تھی تبھی تو اس دنیا میں ہم دونوں کے درمیان محبتوں اور احترام کا لازوال رشتہ ہے اور ملاقاتیں اتنی ہیں کہ ان کی گنتی نا ممکن ہے۔ عرفات کا میدان ہماری زمین کا ایک انتہائی مبارک ٹکڑا ہے مگر اسی زمین پر موجود ہے لہٰذا ہم انسانوں کے وجود بھی وہاں مادی صورت میں تھے۔ یہ واپس حضرت آدم علیہ السلام کی پشت میں چلے گئے اور نسل بعد نسل اس دنیا میں آتے رہے‘ متواتر آ رہے ہیں اور قیامت تک آتے رہیں گے اور صرف وہی آئیں گے جو عرفات میں موجود تھے۔ سب کے روحانی وجود روحوں کے جہان میں آسمانوں پر ہیں۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ کا فرمان ہے ''تمام روحیں ایک جگہ جمع ہونے والا لشکر تھیں، جس جس روح نے ایک دوسرے کے ساتھ تعارف کر لیا‘ وہ دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرتی ہیں اور جس جس روح نے وہاں جس جس کو ناپسند کیا وہ یہاں بھی ایک دوسرے سے بیگانہ رہتی ہیں‘‘ (صحیح بخاری: 3336)۔ قارئین کرام! حضور کریمﷺ کے مبارک فرمان کے پیش نظر ''عالمِ ارواح‘‘ میں بھی میرا اور پراچہ صاحب کا باہم تعارف اور علیک سلیک خوب تر تھی لہٰذا اس دنیا میں بھی اچھا تعلق ہے۔ عالمِ برزخ اور جنت میں بھی ایمان کی بنیاد پر یہ تعلق قائم رہے گا (ان شاء اللہ)
موجودہ دن جو بیت رہے ہیں‘ یہ حج کے دن ہیں۔ قرآن کی ''سورۃالفجر‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے ابتدائی دس دنوں کی قسم اٹھا کر اہمیت کو واضح فرما دیا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرما دیا کہ ''ان دنوں میں کیے ہوئے نیک اعمال باقی دنوں کے نیک اعمال کی نسبت اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ محبوب ہیں‘‘ (صحیح ترمذی للبانی: 757)۔ اس مہینے کی 9 تاریخ کو دنیا بھر کے حاجی میدانِ عرفات میں جمع ہوتے ہیں اور اگلے دن طلوعِ فجر تک یہاں وقوف (ٹھہرائو) کرتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے یہاں وقوف کیا اور فرمایا ''بہترین دعا وہ دعا ہے جو عرفہ کے دن کی جائے‘ جو میں نے مانگی اور مجھ سے پہلے نبیوں نے مانگی‘ وہ ہے: لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شیئٍ قدیر۔ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں‘ وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے (ساری کائنات کی) بادشاہت ہے، اس کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ (ترمذی: 3585، حسن) اسی طرح آپﷺ کا ایک فرمان ہے جس کے مطابق عرفات کے میدان میں موجودگی اور وقوف کا نام (ہی)حج ہے۔ (نسائی: 3016، صحیح) یعنی جو عرفہ کے دن عرفات کے میدان میں حاضری نہ لگوا سکا‘ اس کا حج ضائع ہو گیا۔ حضور کریمﷺ نے فرمایا: عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فخر کا یوں اظہار کرتے ہیں: دیکھو! میرے بندوں کی طرف‘ ان کے جسم غبار آلود ہیں، وہ میرے پاس آئے ہیں۔ (صحیح الترغیب للبانی: 1152) یعنی میرے ساتھ کیے ہوئے عہد کو تازہ کرنے آئے ہیں اور دنیا بھر کے مومن یہاں تعارف کے لیے آئے ہیں۔ حضور کریمﷺ نے مزید فرمایا ''عرفہ کے علاوہ اور کوئی دن ایسا نہیں کہ جس دن میں اللہ تعالیٰ اس کثرت کے ساتھ اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرما دے کہ جس قدر وہ عرفہ کے دن آزاد کرتا ہے۔ اس روز وہ عرفہ میں موجود لوگوں کے انتہائی قریب ہو جاتا ہے اور پھر فرشتوں کے سامنے فخر کا اظہار فرماتا ہے اور سوال کرتا ہے۔ ہاں جی! بتلائو تو ذرا اب۔۔۔۔ کہ یہ عرفہ والے کیا مانگنے آئے ہیں‘‘ (مسلم: 1348) یعنی یہ عہد پورا کرنے والے ہیں اور جنت کے سوالی بن کر آئے ہیں۔ ہمارے دلوں کا نور اور سوچوں کا سرور پیارے حضورﷺ نے مزید فرمایا ''عرفہ کے دن شیطان کو دیکھا گیا تو وہ (مکھی جیسا) انتہائی پست، دھتکارا ہوا، حقیر ترین اور غصے میں (تلملاتا) ہوا تھا‘‘ (امام شعیب الارنائوط فی تخریج شرح السنۃ، صحیح) قارئین کرام! عرفہ کا دن وہ دن ہے کہ قرآن نے جس میں دینِ اسلام کے حوالے سے واضح کر دیا۔ مولا کریم نے فرما دیا ''آج کے دن میں نے دین کو تم لوگوں کے لیے مکمل کر دیا‘‘ (المائدہ:3)
اے مسلمانو! سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو لوگ میدانِ عرفات میں موجود نہیں وہ اللہ کی رحمتوں کو کیسے حاصل کریں؟ اللہ اللہ! حضور رحمۃ للعالمینﷺ نے ان کے بارے فرمایا ''جو عرفہ کے دن کا روزہ رکھے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے اور اگلے سال کے گناہ معاف فرما دیں گے‘‘ (سلیس و اختصار صحیح مسلم:2746)
محترم ڈاکٹر پراچہ صاحب نے ''عمرِ رواں‘‘ میں شیطانوں کی چشم دید شرارتوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ اس ضمن میں میرے سامنے کچھ تجربات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو سپرد قلم کروں گا؛ تاہم اتنا عرض کر دوں کہ حضور کریمﷺ کے فرمان کے مطابق‘ یہ سورۃ البقرہ سن کر روتے ہوئے بھاگتے ہیں۔ باقی سارا قرآن پاک بھی ان کے لیے تازیانہ ہے۔ قرآنِ مجید کے بعض مقامات‘ جیسے ''آیۃ الکرسی، سورۃ الفاتحہ، سورۃ الملک کی ابتدائی 5 آیات اور سورۃ الصافات کی ابتدائی 10 آیات‘ تو شیطانوں کے لیے ایٹمی میزائل کی مانند ہیں۔ متاثرہ شخص پر قرآن مجید کے مندرجہ بالا حصوں میں سے ہر حصے کو سات سات بار تلاوت کریں اور قرآنِ مجید کا اعجاز ملاحظہ کریں۔ جس قدر ایمان پختہ، کردار ستھرا اور انسانی ہمدردی ہو گی‘ لالچ نہ ہوگا‘ فائدہ اسی قدر ہوگا۔ ڈاکٹر فرید پراچہ صاحب نے صدر ایوب خان کے دورِ حکمرانی کا تذکرہ کیا ہے کہ ان کے خلاف سیاسی جدوجہد کی پاداش میں ان پر قتل کا جھوٹا مقدمہ بنا دیا گیا۔ وہ تھانے کے حوالات میں تھے تو ایک شخص نے ان کو چائے پلائی، ہمدردی سمیٹی اور چلا گیا۔ بعد میں ایوب خان کی حکمرانی کے خلاف جو احتجاج ہو رہا تھا‘ اس میں ایک پولیس کا آدمی مارا گیا مگر قتل کا مقدمہ پراچہ صاحب پر بن گیا اور گواہ وہ بنا جس نے چائے پلائی تھی۔ اس نے چہرہ ازبر ہی اس لیے کیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر مقدمہ بنا دیا جائے۔ اب یہ سوئے اتفاق تھا کہ پولیس کے ایک آدمی کا قتل ہو گیا مگر مقدمہ ایسے 16 سالہ نوجوان پر بنا دیا گیا جو اس دوران جیل میں تھا اور طالب علم تھا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے انہیں رہائی بخشی اور ایسے جتنے لوگ زیادتی کرنے والے تھے‘ ان پر رہائی کے بعد مقدمات قائم کرنے کا آپشن بھی دیا گیا مگر پراچہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مقدمہ قائم کر دیا ہے؛ چنانچہ رزلٹ یہ نکلا کہ ان میں سے ایک کو یحییٰ خان کے مارشل لا کے دوران ایک مقدمے میں 15 سال قید بامشقت ہو گئی۔ ایک شخص ایک اخلاقی جرم میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور لوگوں نے سر عام جوتے مارے۔ ایک ان میں مہر لالی تھا‘ اس کا روڈ ایکسیڈنٹ ہو گیا اور اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ ایک عرصے بعد وہ ٹھیک ہوا تو اس نے میرے دوست حافظ محمد سعید‘ جو پروفیسر ہیں اور ایک بڑی شخصیت‘ کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا اور معافی طلب کی۔ محترم حافظ صاحب کو اپنے گائوں میں سیرت النبیﷺ کے جلسہ کے لیے بلایا، یہ بہت شاندار جلسہ تھا، جس میں بہت عزت افزائی کی گئی۔ قارئین کرام! مندرجہ بالا واقعے سے دو باتیں ہمارے لیے سبق آموز ہیں، ایک یہ کہ مظلوم پر ظلم کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے‘ اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ دوسرا، بہترین طریقہ حکمرانی کی اصلاح اور مظلوم سے معافی ہے۔ مہرلالی کو اللہ تعالیٰ نے توبہ کی توفیق دی۔ آئیے! ہم سب اپنے اپنے گناہوں کو عرفہ کے دن سچی توبہ کر کے اور روزہ رکھ کر معاف کروا لیں۔ حضورﷺ کی پاک سیرت کے جلسے کی صورت میں معافی بہت بڑی سعادت ہے۔ حضورﷺ کی سیرت پاک پر عمل کی کوشش اور جدوجہد میں موت آ جائے تو یہی اصل کامیابی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں