اللہ تعالیٰ نے سورج اور ستارے بنائے ہیں تو ان کی روشنی سے ہماری زندگیوں اور انسانی ترقی کو رنگا رنگ بنا کر حسین کر دیا ہے۔ اس روشنی میں ایک ذرہ ہے جسے ''فوٹون‘‘ کہا جاتا ہے۔ برادر ملک ترکی نے ایک کار بنائی ہے جس کا نام ''فوٹون‘‘ رکھا ہے۔ سائنس کے مطابق روشنی کے اس ذیلی ذرے ''فوٹون‘‘ کی وجہ سے ہی زندگی موجود ہے۔ اسی وجہ سے نباتات اور پھلوں وغیرہ میں طرح طرح کے رنگ اور ذائقے ہیں۔ فوٹون کی ایک قسم لہروں کی شکل میں بھی ہے۔ یہ زیادہ لطیف ترین شکل ہے۔ اس سے اوپر جائیں تو اسی کا ایک حصہ ایک اور لطیف ترین شئے ہے، جسے سائنسدانوں نے Fragments کا نام دیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب مادی روشنی اس قدر لطیف ترین صورتوں میں ہے تو روحانیت کیا ہو گی؟ 26 جون 2021ء کو معروف انگلش چینل ''R.T‘‘ نے انگریزی میں اور ''الجزیرہ نیٹ ورک‘‘ نے عربی میں شعور (Consciousness) کے بارے میں کہا کہ ذرات سے متعلق جو ''کوانٹم فزکس‘‘ کی سائنس ہے‘ اس نے شعور کے بارے میں نظریات پیش کیے ہیں لیکن یہ سب وہ نظریات ہیں جو نیورونز کے گرد ہی گھوم کر بے بس ہو جاتے ہیں اور شعور کے بارے میں ابھی تک کچھ بھی کامیابی نہیں مل سکی کہ یہ کہاں سے آتا ہے۔
قارئین کرام! ریسرچ اور تحقیق کرتے کرتے دوسری تازہ ترین ریسرچ جو میرے سامنے آئی وہ ''یونیورسٹی آف برسٹل برطانیہ‘‘ کی ہے۔ 27 جولائی 2021ء کو اسے ''ڈِسکور میگزین‘‘ نے شائع کیا۔ اس ریسرچ میں جاپان کے ''اوکی نائو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ میں مایہ ناز سائنسدان ٹام فروز (Tom froese) کی حیثیت بنیادی، اساسی اور ممتاز ہے۔ تحقیق کرتے ہوئے میں حیران ہوا کہ دنیا کی یونیورسٹیوں کے سائنسدان مادی ریسرچ کرتے کرتے اب یہاں تک چلے گئے ہیں کہ مادی بنیادوں پر سائنس اب ''اِدراک‘‘ کی سائنس کو اپنانے لگ گئی ہے۔ ایسے سائنسدان کو Cognitive scientist کہتے ہیں۔ جاپان کے ٹام فروز ایسے ہی سائنسدان ہیں۔ وہ ''انجینئرنگ اِن کمپیوٹر سائنس‘‘ میں ماسٹرز ہیں تو کمپیوٹر کے شعبے ''سائبر نیٹیکس‘‘ میں بھی ماسٹرز ہیں۔ ''ادراکی سائنس‘‘ کی فلاسفی میں پی ایچ ڈی ہیں۔ انسانی دماغ کو سامنے رکھ کر روبوٹ کا جو مصنوعی نیورو سسٹم بنایا گیا ہے‘ یہ اس کے ماہر ہیں۔ اپنی تحقیقات پر وہ اپنے ملک جاپان کے علاوہ آسٹریلیا سے بھی میڈلز حاصل کر چکے ہیں۔ زندگی کی حقیقت، سماجی زندگی کی حقیقت اور شعوری یا ادراکی سائنس ان کا موضوع ہے۔ ''یونیورسٹی آف برسٹل برطانیہ‘‘ نے اپنی تازہ ترین دماغی ریسرچ میں ''ٹام فروز‘‘ ہی کو مرکزی حیثیت دی ہے۔
قارئین کرام! زیادہ تر سائنسدان ''روح‘‘ کا نام نہیں لیتے کیونکہ وہ روح کا نام لیں گے تو مادیت سے باہر نکل جائیں گے۔ کائنات کے خالق کو ماننا پڑے گا۔ روحانی دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا؛ چنانچہ وہ روح کی جگہ پر شعور (Consciousness) کا لفظ بولتے ہیں۔ اب اربوں کھربوں ڈالر خرچ کر دینے کے باوجود انہیں انسانی دماغ کے خلیات اور نیورونز میں شعور نہیں مل رہا۔ یہاں مل جاتا تو وہ اپنے الحاد کے ڈھول بجاتے مگر علمی اور سائنسی اعتبار سے وہ ایسا کچھ تلاش کرنے میں متواتر اور مسلسل ناکام ہو رہے ہیں اور اب صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ ''ڈسکور میگزین‘‘ جاپانی نژاد ڈاکٹر ٹام فروز کا یہ جملہ لکھنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ مادی بنیادی پر جو findings یعنی حقائق سامنے آئے ہیں وہ فائنڈنگز ہمارے شعور کے ماڈلز (نمونوں) کو شکست دے سکتی ہیں۔ انگریزی جملہ لکھ دیتا ہوں‘ ملاحظہ ہو!
This finding could upend the current understanding of consciousness.
ثابت ہوا ایک اللہ کی توحید اور الحاد کے درمیان معرکہ جاری و ساری ہے، مگر اب الحاد کی شکست کا خطرہ خود الحادی (نام نہاد)سائنس کی طرف سے ظاہر کر دیا گیا ہے۔ میں اسے فتح سمجھتا ہوں۔ ان لوگوں کی فتح جو اپنے خالق و مالک کی عظمت اور تخلیق کائنات کی بات کرتے رہتے ہیں۔ خود سائنس کی زبان میں الحادی سائنسدانوں کو لاجواب کرتے رہتے ہیں۔ جی ہاں! شکست تو الحادیوں نے ہر دور میں کھائی ہے مگر اب انہی کی صفوں سے شکست کے خطرات کا اظہار شروع ہو گیا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ سائنس کی آئندہ کی ترقی روحانیت کی جانب جاتی نظر آ رہی ہے۔
قارئین کرام! انگریزی کا ایک لفظ Synchronize ہے۔ اس کا معنی ہم آہنگی ہے‘ تعلق کو قائم کرنا! ایک ہی وقت میں دو واقعات کا وجود۔ اب اس تعلق کی دو قسمیں ہیں ایک تعلق اللہ اور اس کے بندے کے مابین ہے۔ دوسرا تعلق بندوں کا بندوں کے درمیان ہے۔ دونوں تعلقات میں اخلاص ہو تو انسان کو سکون ملتا ہے۔ قرآن فرماتا ہے ''خبردار! بلا شبہ اللہ کے ذکر (یاد) کے ساتھ وابستہ ہو کر ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے‘‘ ۔اس حوالے سے برسٹل یونیورسٹی کے سائنسدان اور جاپانی ڈاکٹر ٹام فروز کہتے ہیں ''حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ لوگ اپنے نیورل تال ترنم (Rhythms) میں ''سنکرونائز‘‘ ہو جاتے ہیں۔ جی ہاں! قرآن کی خوبصورت تلاوت سن کر، درود شریف پڑھ اور سن کر‘ خالق کی حمد و ثنا سن کر لوگ سنکرو نائز ہو جاتے ہیں۔ ٹام فروز اور اس کے ساتھی سائنسدان حیران ہو رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ مادیت نہیں یہ تو کوئی اور شئے ہے مگر سکون اور اطمینان یہیں ہے۔ قارئین کرام! اب آتے ہیں بندوں کے ساتھ بندوں کے تعلقات کے حوالے سے، تو اس ضمن میں ''ڈسکور میگزین‘‘ کے دو جملے ملاحظہ ہوں!
Froese argues that a shift in our understanding of consciousness is warranted. Namely, he supports an ‘extension of consciousness.
ٹام فروز دلیل دیتا ہے کہ شعور کے بارے میں ہماری سوچ کی تبدیلی ضمانت دیتی ہے کہ یہ شعور کی توسیع میں مددگار ثابت ہوتی ہے یعنی جسم سے باہر کی چیز (روح) کو مانا جائے تو دانشوری میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اللہ، آخرت اور روح کو ماننے سے ہی انسان سمجھدار، دانشور، ملنسار اور اچھا انسان بنتا ہے۔ یہ نہ ہو گا، ایمان نہ ہو گا تو انسانیت سے گر کر حیوانیت کی پستی کا ہی شکار رہے گا‘ پریشان رہے گا‘ سکون سے دور رہے گا۔ ٹام فروز اپنے ایک دوسرے آرٹیکل میں‘ جو 2020ء میں شائع ہوا تھا‘ لکھتے ہیں:
When we socialize, inter-brain synchronization nearly binds us together and extends Consciousness.
''جب ہم سماجی بن جاتے ہیں تو دماغی رابطوں کا نظام ہمیں باندھ دیتا ہے اور شعور میں اضافہ کرتا ہے‘‘۔
قرآنِ مجید یہی کہتا ہے کہ میاں بیوی کے تعلق میں سکون ہے۔ اسی طرح باقی سارے رشتوں کے حقوق اور باہم محبتوں کا بتایا‘ دوسروں کی خدمت کا بتایا‘ مشکلات میں مدد کا حکم دیا۔ سائنس کہتی ہے کہ ایسا کرنے سے شعور اور سمجھداری میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ نہ ہو تو سمجھداری اور عقل ڈائون ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ''سورۃ التین‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے القدس، طور سینا اور مکہ مکرمہ کی قسمیں کھا کر بتایا کہ انسان کو ہم نے ''احسن تقویم‘‘ میں پیدا کیا اور پھر اسے انتہائی نیچوں نیچ پستی میں پھینک دیا۔ مگر اس پستی سے بچتا وہ ہے جس کا اللہ پر ایمان ہے اور جو عملِ صالح کرتا ہے۔ عمل صالح سے مراد مفسرین نے زیادہ تر بندوں کے ساتھ صلح و صفائی کو بتایا ہے۔ جی ہاں! بندوں کے ساتھ معاملات ٹھیک نہیں‘ ماں باپ کا احترام نہیں‘ بیوی کے حقوق نہیں۔ بیوی کا خیال کرتے کرتے ماں باپ پر ظلم نہیں اور ماں باپ کا خیال زیادہ کرتے کرتے بیوی پر ظلم نہیں‘ تو ایسے عدل کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہی اعلیٰ انسانی قدر ہے۔
قارئین کرام! ڈسکور میگزین کا آخری جملہ ملاحظہ ہو:
As most neuroscientists currently understand, no localized region or network in the brain is solely responsible for our conscious experience.
''اکثر دماغی سائنسدان اب یہ سمجھتے ہیں کہ دماغ میں کوئی مقامی علاقہ نہیں نہ ہی کوئی ایسا نیٹ ورک ہے جو ہمارے شعور کا ذمہ دار ہو‘‘۔ اللہ اللہ! آخر کار بات مان لی کہ ہمارا شعور یا روح مادی نہیں ہے بلکہ یہ کہیں اور سے کنٹرول ہو رہا ہے۔ عربی میں عقل کا معنی باندھنا ہے۔ یہ بندھی ہوئی ہے اللہ کے ہاتھ میں۔ قرآن فرماتا ہے کہ نیند میں روحیں اللہ کے قبضے میں چلی جاتی ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ اے اللہ! یہ ''ناصیہ‘‘ یعنی پیشانی تیرے قبضے میں ہے۔ اللہ کے ساتھ وابستہ ہونے میں ہی کامیابی ہے۔ انسانوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے میں ہی مولا کریم کی خوشنودی ہے۔ آج کی سائنس کا بھی یہی پیغام ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے، آمین!