"AHC" (space) message & send to 7575

ظلم کا انجام اور مالک کا انتقام

اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی زمین پر موجودہ دن کچھ اس طرح گزر رہے ہیں کہ آگ کے طوفان ہیں‘ ہوائوں کے تندو تیز جھکڑ ہیں، سیلاب ہیں کہ کاریں اور گھر تنکوں کی طرح بہہ رہے ہیں۔ زمین پھٹتی ہے اور راستے ختم ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کوئی اس طرف دھیان دینے کو تیار نہیں۔ کورونا کی چوتھی لہر‘ جو خوفناک ترین ہے‘ کے بھیانک سائے منڈلا رہے ہیں مگر انسان ہے کہ ظلم سے باز نہیں آ رہا۔ قارئین کرام! میں نے اس ساری صورتحال پر قرآنِ مجید اور حدیث شریف کی روشنی میں غور و فکر کیا تو مجھے ایک ایسے جانور پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹتے دکھائی دیئے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار ہے۔ اس شاہکار کا نام اونٹ ہے۔ ذرا پیچھے چلتے ہیں، قوم کا نام ثمود ہے اور پیغمبر کا اسم گرامی حضرت صالح علیہ السلام ہے۔ قوم کے سرداروں نے معجزہ طلب کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک اونٹنی کو اپنی قدرت سے معجزاتی وجود بخشا۔ پانی کے گھاٹ پر ایک دن قوم صالح کے لوگ اور مویشی پانی پیتے تھے اور ایک دن صرف ''ناقۃُ اللہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص معجزاتی اونٹنی پانی پیتی تھی؛چنانچہ ثمود قوم کے صاحبِ اقتدار خواص نے اونٹنی کو مارنے کا پروگرام بنایا تو قرآن مجید بتاتا ہے کہ ''ان میں سے سب سے پتھر دل، بد بخت (اونٹنی کو مار دینے کے لیے)اٹھا تو اللہ کے رسول (حضرت صالح علیہ السلام) نے انہیں خبردار کرتے ہوئے کہا: یہ اللہ کی اونٹنی ہے اور اس کے پانی پینے (کی باری متعین) ہے؛ چنانچہ انہوں نے رسول کی بات کو نظر انداز کر دیا اور اونٹنی کو مار ڈالا۔ ان لوگوں کے اس گناہ کی وجہ سے اللہ نے ان کوتہس نہس کر دیا اور (ان کی شوکت و شان) کو زمین سے ملا دیا‘‘ (الشمس: 12 تا 15)۔
قرآنِ مجید کی سورۃ الغاشیہ میں اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کے تمام انسانوں کو دعوت دی کہ ''کیا وہ اونٹ (کی بناوٹ) کو نہیں دیکھتے کہ اسے کس طرح (صحرا کی مناسبت) سے پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ (الغاشیہ:17)یعنی قوم ثمود کی اونٹنی اپنی معجزانہ پیدائش اور پانی پینے کے حوالے سے معجزاتی تھی جبکہ بناوٹ کے لحاظ سے ہر اونٹ قیامت تک کے لیے اللہ کی قدرت کا ایک زبردست نشان ہے کہ اس کے بائیولوجیکل جسمانی نظام کو دیکھا جائے تو پائوں، کوہان، نتھنے، قد اور کھال وغیرہ ہر چیز بتاتی ہے کہ یہ خدائے واحد خالق کا کمال ہے۔
تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت بن کر آنے والی عظیم ہستی حضرت محمد کریمﷺ کا اونٹ کے ساتھ رویہ کیا تھا‘ ملاحظہ کرتے ہیں، ایک خاص واقعہ جسے حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفر طیارؓ کے بیٹے حضرت عبداللہؓ نے بیان فرمایا ہے‘ کہتے ہیں: ایک دن اللہ کے رسولﷺ نے مجھے (اپنی سواری پر) اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ آپﷺ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے۔ وہاں ایک اونٹ تھا۔ اس نے جونہی حضور کریمﷺ کو دیکھا تو درد ناک آوازیں نکال کر رونے لگ گیا۔ اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ حضور کریمﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے۔ (اس لیے کہ وہ بندھا ہوا تھا وگرنہ دوڑتا ہوا حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضرہوتا) حضور اکرمﷺ نے اس کے پیٹ سے ہاتھ پھیرنا شروع کیا اور کوہان تک (پُر شفقت دستِ مبارک) پھیرا۔ پھر اس کے آنسو صاف کیے۔ اب وہ اونٹ مکمل سکون اور اطمینان میں آ گیا۔ حضور کریمﷺ نے وہاں موجود لوگوں سے پوچھا: اس کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نوجوان آگے بڑھا اور عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ میرا اونٹ ہے۔ آپﷺ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا: ''اس جانور کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ سے کیوں نہیں ڈرتا؟ اللہ تعالیٰ نے تجھے اس کا مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا بھی رکھتا ہے اور اس کی ہمت سے بڑھ کر کام بھی لیتا ہے‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ للبانی: 20)
قارئین کرام! اونٹ کے ساتھ حضورﷺ کے رویے کو دیکھ کر صحابہ کرامؓ کا رویہ کیا تھا‘ یہ بتانے کے لیے صرف ایک واقعے پر اکتفا کرتا ہوں: ''حضرت ابو درداءؓ کے پاس ایک اونٹ تھا‘ جس کا نام دمون تھا۔ جب کوئی شخص حضرت ابودرداءؓ سے ادھار میں اونٹ مانگنے آتا تو وہ اس سے طے کرتے تھے کہ میرا اونٹ اس حد تک وزن آسانی کے ساتھ اٹھا سکتا ہے‘ اس سے زائد وزن تم اس پر نہیں ڈالو گے، اس کے چارہ اور دیگر سہولتوں کا خیال رکھو گے۔ یہ منظور ہے تو لے جا سکتے ہو وگرنہ نہیں۔ چنانچہ جب حضرت ابودرداءؓ فوت ہونے لگے تو دمون کے پاس گئے اور اسے مخاطب کر کے کہنے لگے۔ اے دمون! میرے رب کے ہاں قیامت کے دن مجھ سے جھگڑا تو نہیں کرو گے کہ میں نے تجھ سے زیادتی کی یا ظلم کیا۔ میں تجھ پر اتنا ہی بوجھ ڈالتا تھا جتنے کی تجھ میں ہمت تھی‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ: 30)
آج سے ایک سال قبل آسٹریلیا نے صرف پانچ دنوں میں دس ہزار اونٹ مار دیے تھے۔ جنگلوں میں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ وہ جان بچانے کے لیے بھاگتے اور گولیوں کی بوچھاڑ سے مار دیے جاتے تھے۔ آسٹریلیا نے مارنے کی وجہ یہ بتاتی کہ ہمارے ہاں خشک سالی ہو گئی ہے اور یہ اونٹ ساری خوراک کھا جاتے ہیں‘ سارا پانی یہ پی جاتے ہیں حالانکہ اونٹ خود خوراک تھے‘ ان کا گوشت کھایا جا سکتا تھا۔ دوسرے ملکوں کو برآمد بھی کیے جا سکتے تھے۔ مدھم سی چند آوازیں اونٹوں پر ظلم کے حق میں اٹھیں اور جلد ہی خاموش ہو گئیں۔ مجموعی طور پر ساری دنیا نے چپ کا روزہ رکھ لیا۔ چند مہینے گزرے اور مالک حقیقی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انتقام لینا شروع کیا۔ انہی جنگلوں میں آگ لگ گئی۔ اب ہیلی کاپٹر آگ بجھاتے پھر رہے تھے اور کئی خود بھی آگ کی نذر ہو گئے۔ جنگلی جانور بھاگ کر انسانی بستیوں میں پناہ لے رہے تھے۔ آسٹریلیا کے لوگ پانی کے کین بھر بھر کر جنگل میں لے جا کر جانوروں کو پلا رہے تھے، یعنی اللہ تعالیٰ نے سزا دی تو ہوش ٹھکانے آ گئے۔ ایسا اس لیے تھا کہ انسان جانوروں اور اپنے سے کمزور انسانوں پر ظلم سے باز آ جائیں، اس لیے کہ حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے‘ وہ جانوروں پر ظلم برداشت نہیں کرتا تو انسانوں پر ظلم برداشت کس طرح کرے گا؟
قارئین کرام! میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو پانچ وقت کا نمازی اور دیندار نوجوان ہے۔ وہ ڈرائیور تھا۔ گاڑی چلاتے ہوئے اکثر ارادے کے ساتھ کتے وغیرہ کو گاڑی کے نیچے دے دیتا تھا۔ اس نوجوان کو تین بار اپنے بھائیوں کی ٹانگیں ٹوٹتی دیکھنا پڑیں، چوتھی بار باز آیا۔ یعنی انسان اس قدر ضدی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وارننگ پر کان نہیں دھرتا۔ ہاں! دنیا نے کان نہیں دھرے۔ دنیا کے مغربی کونے میں دو ہفتے قبل آگ نے کینیڈا کے جنگلوں کو نشانہ بنا لیا۔ انتہائی مغربی شمال کے ملک میں جہاں گرمیوں میں بھی سردی ہوتی ہے‘ وہاں پورا گائوں آگ کی لپیٹ میں آ گیا اور کئی لوگ آگ میں جل کر مر گئے۔ آج کل یہ آگ ترکی کے جنگلوں میں لگی ہوئی ہے۔ اٹلی اور یونان میں لگی ہوئی ہے۔ یورپ کے سرد اور ٹھنڈے ملکوں میں 45 ڈگری تک درجہ حرارت پہنچ چکا ہے۔ سمندر کنارے لوگ نیم برہنہ لباس میں پکنک منا رہے ہوتے ہیں اور آگ کا سمندر بستی کی عمارتوں کے پیچھے سے ظاہر ہوتا ہے تو لوگ بھاگ اٹھتے ہیں۔ سمندر میں جائیں تو ڈوبتے ہیں۔ گھروں میں جائیں تو جلتے ہیں۔ ایک جانب سمندر کی موجیں بلند ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب آسمان شعلوں اور دھویں سے بھرا ہوا ہے۔ ساتھ ہی انتہائی برفانی ہوائیں ہیں جو ان ملکوں کے علاوہ سپین، فرانس، امریکا کو گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ پانیوں کے سیلاب اس کے علاوہ ہیں۔ ان دنوں بھارت اور چین میں سیلاب نے بہت تباہی مچائی ہے۔ گاڑیاں خس و خاشاک کی طرح سیلابی ریلوں میں بہہ رہی ہیں۔ چینی پولیس کے لوگ بھاری موٹرسائیکلوں کو تند ہوا میں چلانے سے قاصر ہو جاتے ہیں، موٹرسائیکل کھڑی کرتے ہیں تو تیز ہوا بندوں کو اڑائے پھرتی ہے۔ ارجنٹائن میں مکان زمین میں دھنس جاتے ہیں۔ بھارت میں پہاڑ کھسکتے ہیں اور سب کو ساتھ لے کر انسانوں کی قبر بن جاتے ہیں۔ سیلابی ریلوں کی سطح پر مردہ حالت میں تیرتے ہوئے سینکڑوں انسانوں کے خوفناک منظر نے دنیا کو دہلا دیا ہے۔ لبنان میں جنگل کی آگ نے تباہی پھیلائی ہے تو سوڈان میں سیلاب نے آفت بپا کر دی ہے۔ سعودی عرب، امارات اور عمان کے ریگستانوں میں سیلابوں کے دریا بہہ رہے ہیں۔ گاڑیاں ایسے تیر رہی ہیں جیسے ماچس کی ڈبیاں ہوں۔ ہمارے ہاں بھی اسلام آباد کے ایک سیکٹر میں بھی سیلابی ریلے نے گاڑیوں کا ایسا ہی ہولناک منظر پیش کیا۔ بعض ملکوں میں کلائوڈ برسٹ یعنی بادل پھٹے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے پانی نیچے گرا ہے جہاں گرا ہے وہاں ہولناک تباہی مچی ہے۔ بجلیاں جہاں گری ہیں‘ وہاں کا منظر آگ اور پانی کی تباہی کو ملا کر جب دکھاتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ آدھ کلو اور اس سے کم مختلف سائز کے اولے بعض ملکوں میں پڑے ہیں۔ گاڑیوں کی سکرینیں ٹوٹ گئی ہیں۔ جرمنی اور روس میں سیلاب نے بہت تباہی مچائی ہے۔ الغرض! یہ تباہی دنیا بھر کے ملکوں کے بعض حصوں میں جاری ہے‘ زیادہ تر انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ رکھا ہے تا کہ لوگ عبرت حاصل کریں‘ باہم ظلم سے باز آ جائیں۔
موسم کی یہ تبدیلیاں حیرت انگیز ہیں کہ ایک ہی وقت میں متضاد مناظر ہیں۔ یہ سزا ہے! انسانیت کو وارننگ ہے کہ کلائمیٹ چینجنگ یعنی موسمیاتی تبدیلی میں جہاں فیکٹریوں کا دھواں صفائی کے بغیر اثر پذیرہے، فیول کی اثر انگیزی ہے، لگژری لائف کی خاطر بجلی کے آلات کا بے دریغ استعمال ہے‘ وہیں سب سے زیادہ جس چیز کا اس میں حصہ ہے وہ انسانیت کے قتل کے لیے بارود کا استعمال ہے۔ علاج صرف ایک ہے کہ اصل مالک‘ جو ان ظالمانہ حرکتوں کا حساب لے رہا ہے‘ اس مالک کی طرف پلٹیں۔ ایمان لائیں‘ توبہ کریں‘ اپنے اندر انسانیت کے لیے رحم کا جذبہ پیدا کریں‘ معاف کر دیا کریں‘ دوسروں کی زندگیاں مشکل بنانے کے بجائے ان میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ دوسروں کے بارے میں محض گمان کو حقیقت سمجھ کر چڑھائی نہ کر دیا کریں کہ اصل حقیقت مختلف ہو سکتی ہے۔ حضور رحمت دو عالمﷺ کے اس فرمان کو کہ ''تم زمین والوں پر رحم کرو‘ آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا‘‘ (السلسلہ احادیث صحیحہ)یاد رکھنا چاہیے۔ یہ نہ ہو گا تو حقیقی مالک کی وارننگ کا دائرہ بڑھ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں