"AHC" (space) message & send to 7575

فتح: طالبان کے انکسار کی

سابق سوویت یونین (روس) کے خلاف جو لیڈر لڑائی کر رہے تھے ان میں سب سے بڑے لیڈر گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی تھے۔ احمد شاہ مسعود اپنے لیڈر اور قائد برہان الدین ربانی کے کمانڈر تھے۔ وہ کافی حد تک خود مختار بھی تھے۔ ان کے بعد صبغت اللہ مجددی‘ استاذ عبدرب الرسول سیاف بڑے لیڈر تھے۔ ہرات میں اسماعیل خان بڑا کمانڈر تھا۔ کنڑ میں شیخ جمیل الرحمان بڑے لیڈر تھے۔ نورستان میں مولانا افضل تھے۔ اسی طرح بہت سارے مقامی لیڈر اور کمانڈر تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سب سے بڑی دو جماعتیں حزب اسلامی (حکمت یار) اور جمعیت اسلامی (ربانی) روس کے خلاف بھی خوب لڑے اور اس دوران آپس میں بھی لڑتے رہے۔ تاہم یہ مخلص لوگوں کا اخلاص تھا اور بے لوث قربانیاں تھیں کہ 1980ء میں شروع ہونے والی یہ جنگ اس وقت ختم ہو گئی جب سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچوف نے اپنی فوجوں کو افغانستان سے نکال لیا۔ افغانستان کے پہلے صدر صبغت اللہ مجددی بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع دیا اور میں نے کابل کی پُل چرخی مسجد میں فتح کا پہلا جمعہ صبغت اللہ مجددی مرحوم کی اقتدا میں ادا کیا۔ گلبدین حکمت یار کے طمطراق کا عالم یہ تھا کہ ان کے قافلے میں بیسیوں نہیں سینکڑوں گاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی عزت دی مگر لیڈر اقتدار کی خاطر لڑ پڑے۔ ان کی باہمی لڑائی کی وجہ سے کابل بھی تباہ ہوا اور باقی سارا افغانستان بھی۔ جہاد اور مجاہدین خاصے بدنام ہوئے۔ سعودی عرب نے ان لوگوں کو اپنے پاس بلایا۔ کعبہ شریف میں ان کو اکٹھے بٹھایا۔ اللہ کے گھر میں باہم نہ لڑنے کا عہد ہوا۔ آپس میں معاہدے ہوئے مگر واپس آئے تو ایک دوسرے پر بدعہدی کے الزامات لگا کر پھر لڑ پڑے۔ اب جگہ جگہ وار لارڈز بن گئے۔ علاقے بٹ گئے۔ بھتے شروع ہو گئے۔ مہاجر متواتر پاکستان کا رخ کرنے لگے۔ بعض امن پسند اور اللہ کریم سے ڈرنے والے لیڈر بھی پاکستان آ گئے۔ شیخ جمیل الرحمان بھی کنڑ سے بیدخل ہو کر پاکستان آ گئے اور باجوڑ میں ایک ایسے نوجوان کی گولی کا نشانہ بن کر شہید ہو گئے جو خارجی ذہنیت کا حامل تھا۔ لوگوں کے جان‘ مال اور عزتیں تک دائو پر لگ گئیں۔کوئی پرسانِ حال نہ رہا۔ منشیات سے بھی افغانستان بری طرح آلودہ ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ کو ملت اسلامیہ افغانستان پر رحم اور ترس آیا... قندھار کے ایک مدرسے کا استاد اٹھا۔ یہ ایک عام مجاہد تھا جو سوویت یونین کے خلاف لڑتا رہا۔ اس لڑائی میں اس کی ایک آنکھ بھی اللہ کی راہ میں جاتی رہی۔ اس کی نہ کوئی جماعت تھی‘ نہ وہ لیڈر تھا‘ نہ لیڈر بننے کا شوق تھا۔ بس وہ ظلم کو دیکھ کر اٹھا اور اپنے شاگردوں کو لے کر ایک ایسے وارلارڈ کو کیفر کردار تک پہنچایا جو ظالم تھا اور ایک جوان لڑکی کو اٹھوا کر اپنے ڈیرے پر لے گیا تھا۔ اس ایک واقعہ کے بعد مظلوم لوگ اپنے پر ظلم کی داد رسی کے لیے اس استاد کے پاس جانے لگے۔ جلد اور فوری انصاف ملتا چلا گیا اور یہ لوگ مظلوم افغانوں کی آنکھوں کا تارا بننے لگے۔ لوگوں نے انہیں طالبان کا نام دینا شروع کر دیا۔ ان کی شہرت بڑھی تو تب پاکستان کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں۔ ان کی کابینہ میں جو وزیر داخلہ تھے۔ وہ محترم نصیر اللہ بابر تھے۔ وہ پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل تھے۔ یعنی ٹو سٹار جرنیل تھے۔ محترمہ سے اجازت پا کر انہوں نے طالبان کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ مقصد انتہائی نیک اور اعلیٰ تھا کہ افغانستان میں امن ہو۔ پاکستان میں آئے مہاجرین واپس جائیں۔ کیا شک ہے کہ افغانستان کا امن پاکستان کا امن ہے۔ طالبان نے بڑھتے بڑھتے کابل پر قبضہ کر لیا۔ لوگ ان کے ساتھ ہو گئے کیونکہ افغان عوام خانہ جنگی اور وارلارڈز کے ظلم سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ قارئین کرام! مدرسے کا استاد اب امارتِ اسلامی افغانستان کا امیر المومنین بن گیا۔ ان کو دنیا ملا عمر کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ملا محمد عمر رحمہ اللہ نے چھ سال حکومت کی۔ شریعت کے قوانین کا نفاذ ہوا۔ افغانستان عدل و انصاف کا حامل ایک ملک بن گیا۔ شمالی افغانستان کا علاقہ عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود کے پاس رہا۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران دھماکہ ہوا اور احمد شاہ مسعود بھی اپنے رب سے جا ملے۔ اچانک نائن الیون ہوا۔ امریکہ نے اس کا ذمہ دار اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا اور ملا محمد عمر سے کہا کہ ہمارے ملزم کو ہمارے حوالے کر دو۔ ملا محمد عمر نے انکار کیا تو امریکہ نے روس کی طرح افغانستان میں فوجیں اتار دیں۔ طالبان کی حکمرانی ختم ہو گئی۔ امریکہ اور نیٹو ممالک کی فوجیں یہاں براجمان ہو گئیں۔ جس طرح روس اپنے قبضے کے دوران سول حکومتیں قائم کرتا رہا۔ نور محمد ترہ کئی‘ حفیظ اللہ امین‘ ببرک کارمل اور نجیب اللہ صدر بنتے گئے اور اپنے کامریڈز کے ہاتھوں جان ہارتے رہے۔ اسی طرح امریکہ اور نیٹو افواج کے سائے میں امریکہ نے بھی سول حکومتیں بنائیں۔وہ مجاہدین جماعتیں جو روس کے خلاف لڑیں پھر آپس میں لڑتی رہیں اور پھر طالبان کے خلاف لڑتی ہوئی ہزیمت سے دو چار ہوئیں۔ وہ اب امریکہ کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔ امریکہ کے 20 سالہ افغان اقتدار میں وہ بھی اقتدار کا حصہ بنی رہیں۔ برہان الدین ربانی جو صبغت اللہ مجددی کے بعد افغانستان کے صدر رہے تھے وہ بھی امریکی سائے تلے بننے والی حکمرانی کا حصہ تھے۔ اپنی دانست میں وہ امن کی کوششیں کرتے رہے اور پھر ایک دھماکے میں وہ بھی اس دنیا کو چھوڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ پرانے‘ بڑے اور اہم لیڈروں میں اب گلبدین حکمت یار اور استاذ سیاف ہی باقی رہ گئے ہیں۔ یہ دونوں بھی کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کا حصہ رہے۔
اکیسویں صدی کا آغاز ایک بڑی جنگ سے ہوا۔ ایک جانب دنیا کی واحد بڑی سپر پاور امریکہ تھا۔یور پی یونین کے دو درجن کے قریب ممالک ساتھ تھے۔ یہ سب ملک جدید ٹیکنالوجی کے حامل ترقی یافتہ تھے۔ جو ساتھ نہ تھے وہ دبک اور دب کر بیٹھے ہوئے تھے۔ دوسری جانب صورتحال یہ تھی کہ مقابلے پر کوئی ملک نہ تھا۔ بس بکھرے ہوئے گروہ تھے۔ طالبان کے بکھرے ہوئے ان گروہوں میں سے ہزاروں نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا تھا‘ ہوا بند کنٹینروں میں بند کر کے مارا گیا تھا۔ ان کی خواتین کے اعضا کاٹ کر ڈھیر لگائے گئے تھے۔ وہ طالبان نوجوان جو شہید کیے گئے۔ ان کے مردہ جسموں میں بارود بھرا جاتا اور پھر آگ لگا دی جاتی۔ لاش حرکت میں آتی تو عبدالرشید دوستم دیکھ کر خوش ہوتا اور اسے ''طالبان ڈانس‘‘ کا نام دیتا۔ دشت لیلیٰ میں جو ہزاروں پگڑیاں بکھری پڑی تھیں۔ ہفت روزہ ٹائم نے ٹائٹل پر ان پگڑیوں کی تصویر شائع کی اور لکھا کہ ''طالبان کا اختتام‘‘ ہو گیا۔ دس ہزار کے قریب طالبان اپنے ہی ملک کی جیلوں میں بند کر دیے گئے۔ گوانتاناموبے کے قید خانے کی نذر کر دیے گئے۔ جو بچے کھچے تھے انہوں نے لڑنا شروع کر دیا۔ ان کے مقابلے میں ساڑھے تین لاکھ افغان فوج تیار ہوئی۔ بقول امریکی صدر جوبائیڈن کے ۔۔۔۔ یہ دنیا کی سب سے ترقی یافتہ افواج میں سے ایک تھی۔ بہترین ہتھیار‘ فضائیہ کی مدد‘ ڈرون ٹیکنالوجی اور ہیلی کاپٹروں کی امداد۔ الغرض! یہ تھے دو فریق جن کے درمیان 20 سال تک مقابلہ جاری رہا۔ آخر کار! امریکہ اور نیٹو ممالک نے اپنی شکست کو تسلیم کر لیا۔ دنیا اس شکست پر حیران ہے کہ میچ کرکٹ کا ہو یا ہاکی کا۔ فٹ بال ہو یا والی بال۔ کشتی ہو یا کبڈی‘ کھلاڑی جوڑ کے ہوتے ہیں‘ اور برابر تعداد میں ہوتے ہیں۔ یہاں نہ جوڑ ہے نہ تعداد ہے۔ مقابلہ ایک اور نناوے کا ہے کہ افغان فوج کے علاوہ امریکہ اور نیٹو افواج بھی تھیں۔ دنیا بھی سوچے‘ ہم بھی سوچیں مگر بات تو آگے بڑھائیں۔
یہ آہستہ آہستہ۔ اشرف غنی حکومت کو وقت دیتے دیتے کابل کے قریب آتے گئے تا کہ جو جانا چاہتا ہے وہ آسانی سے چلا جائے۔ جب یہ کابل کے داخلی راستوں کے نزدیک آ گئے تو سجدے میں گرتے چلے گئے۔ آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑیوں نے داخلی راستوں کی زمین کو نم اور تر کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے خادم حضرت یوشع علیہ السلام کا زمانہ تھا۔ القدس فتح ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا الہام آیا کہ بنو اسرائیل جب شہر میں داخل ہونے لگیں تو سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں۔ انہوں نے سجدے کو نظر انداز کر دیا اور گندم گندم یعنی روٹی ‘رو ٹی کرتے ہوئے داخل ہوئے۔ آج بھی ساری دنیا روٹی روٹی کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ فاتح مکہ پیارے حضورﷺ کی امت کے افغان حصے پر سلام ہو کہ وہ سجدے کرتے ہوئے داخل ہوئے۔ پہلا اعلان یہ تھا کہ سب کو معاف کر دیا۔ فتح مکہ میں فاتح مکہ رحمت دو عالمﷺ کی سنت پر عمل کر دیا۔ وہ ایوانِ صدر میں داخل ہوئے تو وہاں رب کریم کے حبیبﷺ کی سنت پر یوں عمل ہوا کہ سورہ نصر کی تلاوت ہوئی۔ حضورﷺ پر درود پڑھا گیا۔ یوں پیغام دیا گیا کہ فساد اور انتقام کا دور لد گیا۔ صدارتی محل میں یہ جو مختصر سی تقریب تھی۔ اس میں ملا محمد عمر رحمہ اللہ کے بیٹے پگڑی باندھے مرکزی کرسی پر تشریف فرما رہے تھے۔ باقی بھی صاحبِ عمامہ تھے۔ پیغام تھا‘ بیس سال بعد اللہ تعالیٰ پھر پگڑیوں کو قصرِ صدارت میں لے آیا ہے۔ دوستم کے محل میں لے آیا ہے اور تو اور انہوں نے اعلان کیا کہ دفاتر میں موجود ملازم اپنے کام جاری رکھیں۔ اپنے مخالف لیڈران حکمت یار وغیرہ کی رہائش گاہوں پر انہوں نے سکیورٹی تعینات کر دی کہ ان کو خراش نہ آئے۔ ماڈرن خواتین احتجاج کر رہی ہیں تو وہ ان کی تنقید سن رہے ہیں اور حفاظت کر رہے ہیں۔ اہل تشیع کی مجالس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ کابل میں سکون اور خوشیاں ہیں۔
آخری حقیقت کو بیان کیے بغیر کالم ادھورا رہے گا اور وہ یہ ہے کہ: روسی دور کے پرانے مجاہد لیڈرز اول روس کے خلاف لڑے اور آپس میں بھی لڑتے رہے‘( دوم) روس کے نکلنے کے بعد وہ آپس میں لڑتے رہے(سوم) طالبان کے خلاف لڑتے رہے( چہارم) طالبان حکومت کے خاتمے پر وہ امریکہ کے ساتھ مل گئے اور طالبان مخالف کردار ادا کرتے رہے... آفرین ہے طالبان جیسے فاتحین پر کہ وہ فاتح ہو کر بھی خاکسار بن گئے۔ مہربان بن گئے۔ درگزر‘ حوصلے اور برداشت کا شعار بن گئے۔ پہاڑوں والے کردار کے کوہسار بن گئے۔ طالبان کے شکریہ کے ساتھ کہ میرے وطن عزیز کے اس لحاظ سے پاسبان بن گئے کہ مشرق کے دہشت گرد مغرب کی جانب سے آیا کرتے تھے۔ میرے ملک کو لہو لہان کرتے تھے۔ بم دھماکے کرتے تھے۔ سکیورٹی فورسز‘ پولیس اور دیگر اہل پاکستان 80 ہزار کی تعداد میں اللہ کریم کی چاہت سے شہادت سے سرفراز ہوئے۔ اللہ کریم کے حضور دعا ہے کہ اے مولا کریم! ملت پاکستان اور ملت ا فغانستان کو آپس میں برادر بنا۔ امن اور خوشحالی عطا فرما۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں